ماہ ذوالحجہ کو قربانی کی مناسبت یاد کیا جاتا ہے ، اطاعت و فرمانبرداری کی عظیم یاد کا وہ مہینہ جس میں اللہ تعالی نے برکتیں اور سعادتیں بھر رکھی ہیں۔ ہر سال عید الاضحی ابرا ہیم علیہ السلام کی اس محبت بھری قربا نی کی یا د دلا تی ہے جو انہوں نے صرف اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں اپنے لخت جگر کے گلے پر چھری پھیر کرادا کی تھی اور جواب میں اللہ تعالی نے مینڈھے کو قربان کر کے پو ری امت مسلمہ کے لیے 10 ذوالحجہ کو قربا نی واجب قرار دے دی اورخالص اللہ کی راہ میں قربان کر دینے کے اس عمل کو رہتی دنیا کے لیے امر کر دیا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
پہلی رات کے چاند کے ساتھ ذو الحجہ کا آغاذ ہوتا ہے اور اس کی پہلی دس راتوں میں سے ہر رات اپنی عظمت میں لیلۃ القدر کے برابر ہے،قرآ ن و احادیث میں عشرہ ذو الحجہ میں کثرت سے تہلیل، تکبیر، اور حمد کرنے کاحکم ہے آپﷺ نے ان دس دنون میں تکبیرات
اللہ اکبر اللہ اکبر، لاالہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد کہنے کی تلقین فرما ئی ہے۔ ان دس دنوں میں حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہما تکبیر کہتے ہوئے بازار نکلتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کر دیتے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے ،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛
ان دس دنوں میں اللہ کے حضور نیک عمل جتنا پسندیدہ و محبوب ہے کسی اور دن میں اتنا پسندیدہ و محبوب تر نہیں ہے
صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ: کیا اللہ کے راستہ میں جہاد بھی نہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔ ہاں وہ شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلا اور کچھ لے کر گھر نہ لوٹا:۔ (متفق علیہ)
حضرت ابو ھریرہ سے روایت ہے کہ آُپ ﷺ نے فرمایا:۔اللہ تعالی کو اپنی عبادت عشرہ ذوالحجہ میں کرنی محبوب تر ہے۔اس کے ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک ایک رات کا قیام،لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے؛۔(ترمذی)
ام المؤمنین سیدہ حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛
جب ماہ ذو الحجہ کا چاند نظر آئے (عشرہ ذوالحجہ داخل ہو جائے) اور تم میں کوئی قربانی کا ارادہ کرے تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔(بخاری)۔
ان دس راتوں کے اختتام پراللہ رب العزت نے 10 ذوالحجہ کو مسرت و شادمانی کے دن عید الاضحی کو یادگار حیثیت دی۔
عید الاضحی پر جانوروں کی قربانی اپنے ایمان کو تازہ کرنے کے لیے کی جاتی ہے کہ ہماری جان و ہمارا مال سب کچھ اللہ کے لیے ہے۔اور وقت آنے پر رب کی بارگاہ میں جان مال کی قربانی سے دریغ نہ کریں گے۔ ارکا ن اسلام پر غور کیا جا ئے تو ہر ہر عمل میں اولیت محبت ہے، رب کا قرب ہے۔ دوران نما ز میں، سجدہ اللہ سے نزدیک تر ہو نے کے لیے۔۔۔ ادا ئیگی زکواۃ و انفاق سے مال کی محبت کو صرف اللہ کی خوشنو دی ہی کے لیے خرچ کر کے عشق الہی کا عملی ثبوت۔
روزہ سے حکم الہی کی تعمیل میں معین وقت تک کے لیے حلال اشیا ء کو بھی دسترس میں ہو نے کے باوجود اپنے اوپر حرا م کر لینا۔۔۔۔۔ہجرت و جہاد میں اپنا سب مال و متاع لٹا دینا حتی کہ جان بھی قربا ن کر دینا۔
غرض اخلاق و معا ملات ہو ں سب میں عشق الہی لا زمی امر ہے اللہ ہی کا ہو کر رہ جانا۔ اللہ ہی کے لیے اپنا سب کچھ قربا ن کر دینا اور اس ذات با ری تعا لی کی محبت و قربت کو پا لینا ہی مومن کی معرا ج ہے ۔
جہاں عید قربان کے نام کے ساتھ نت نئے پکوانوں کا تصور ذہن میں آنے لگتا ہے وہیں چہا ر جانب جا نورں کی منڈیا ں اور ان سے پھوٹنے والی مخصوص باس بھی گھومنے لگتی ہے۔ با ربی کیو، گرل، روسٹڈ کھا نو ں کا تصور اور ان کی تراکیب کے حصول کے لیے سر گر می دیکھا ئی نظر آنے لگتی ہے اور قصائیوں کے نخرے عروج پر پہنچے ہو تے ہیں۔بے شک قربا نی حکم الہی اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ نیز قربانی کے عمل میں جانور کے ہر با ل کے عوض ایک نیکی کا ثواب بھی پو شیدہ ہے مگر ذرا ٹھیریں!
قربا نی ضرور کریں مگر صرف جانور کو ذبح کرکہ ہی نہیں بلکہ جانور کی قربانی کے ساتھ ساتھ اپنی نیند،اپنی خوا ہشا ت، مفا دات، جذبات، آرام، جان اور مال کوبھی قربا ن کریں۔ قربانی سر تا پا محبت کا درس دیتی ہے وفا ئے محبت سے پر ہو تی ہے ۔
ابرا ہیم علیہ السلا م کی پوری زندگی اسی قربا نی کا مظہر ہے،جنہوں نے رب کی وحدا نیت کی شہا دت میں باپ سے ترک تعلق کیا،ہجرت کی وطن چھو ڑا، دشت و صحرا کی خاک چھا نی، آگ میں کو د پڑے۔ محبوب بیوی اور شیر خوار بچے کو یکہ و تنہا مکہ کی سنگلا خ وادی میں چھوڑ دیا اور حکم الہی کی فوری تعمیل میں اکلوتے محبو ب نظر کی بھی قربا نی کی اعلی ترین مثال قائم کی ، عید خوشیوں کا نام ہے، رب سے عبا دت و ریا ضت کے ساتھ جڑے رہنے کا نام ہے، احترام انسا نیت اور حقوق العباد کے لیے اپنے من کو مار کر دل سے حسد، کینہ عداوت و بغض کو کچل کر معا شرے میں امن و محبت کے پھیلا ؤ کے لیے اپنا من مارلینے کا نام ہے ۔
اگلے ماہ آنے والی عید الاضحی تقا ظاکر رہی ہے کہ قربا ن کریں دل میں مو جود گھمنڈ کو، فخر و غرور کو، دولت و مرتبہ کی طلب کو، آسا ئش دنیا کی کثرت سے مغلوب ہو جا نے کو،
دشمنی و عدا وت کو،نیند کی حلاوت سے فرائض کی عدم ادا ئیگی کو، سالہا سال کی دشمنی و بغض کو، بے جا خوا ہش، پسند و نا پسند کو، اسرا ف کو نام و نمود اور ریا کا ری کو، عیب جو ئی سے زبا ن کی آلودگی کو، فحاشی و عریا نیت کے ذریعے گمرا ہ معا شرے کے چلن کوقربان کر دیں ، غرض ہر وہ عمل جو رب کی قربت کے بجا ئے دور لے جانے والا ہو رضائے الہی کے حصول کے لیے اس کو قربان کر لیں اور پھر عید منا ئیں۔
نت نئے پکوان ضرور تیا ر کریں مگر اپنے فلس طینی بھائیوں کو ، ا ن ننھے منے معصوم جانوں کو نہ بھولیں جو وقت سے پہلے ہی مرجھا دیئے گئے جن کی معصوم قلقاریاں بھیانک چیخوں میں بدل ڈالی گئیں ، وہ معصوم نوخیز کلیاں جو بے دردی سے روند ڈالی گئیں ۔قربانی دیں اپنے نفس کی ،اپنی زبان کے ذائقوں کی اور بائکاٹ کریں ان تمام چیزوں کی جا ان ظالموں کو مضبوط کر رہی ہیں ۔نیز زلزلہ اور قدرتی آفا ت کے نتیجے میں متا ثرین کی بھی داد رسی کریں۔ ماں، بیوی اور بہن ہو نے کے نا طے مجا ہدین کی صفات سے مزین اعلی و با کردار نسل کی تعمیر کریں اور اپنا منصب سنت رسول کی پیر وی میں ذاتی خواہشا ت و مفا دات سے با لا تر ہو کر محبت کے گندھے جذبا ت سے ادا کریں۔
نام و نمود،ریا کاری،اپنی بڑائی کا زعم قربانی کے نیک عمل کو ضائع کر دیتا ہے۔اللہ کو جانوروں کا خون اور گوشت نہیں پہنچتا بل کہ قربانی کرنے والے کے دل کاخلوص و تقوی پہنچتا ہے۔قربانی دیں اپنے ذوق کی،مزاج کی، انداز زندگی، اپنی انا کی،خود پسندی کی،گویا روز مرہ کی معاشرتی زندگی میں قدم قدم پر قربانی ضروری ہے یہاں تک کہ تنہائی میں اللہ کے لیے اقامت دین کی خاطر قربانی دیں۔ماہ ذوالحجہ حضرت ابراہیم کی قربانیوں کو یاد تازہ کرنے کا مہینہ ہے اور یہ بنیادی سبق ذہن نشین کرواتا ہے اللہ کے یہاںاصل قبولیت تودلوں میں پائی جانے والی اللہ سے محبت،اللہ کی اطاعت،اور خلوص نیت سے حیات دنیوی کی قربانی کی ہے۔
تبصرہ لکھیے