ہوم << ون ویلنگ، لمحوں کی خطا - محمد بن کامران

ون ویلنگ، لمحوں کی خطا - محمد بن کامران

محمد بن کامران تیز اور بےہنگم ٹریفک کے شور میں دس بارہ لڑکے موٹر سائیکلوں پر ون ویلنگ کرتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے. غمِ روزگار سے بےفکرے یہ نوجوان کبھی ہاتھ چھوڑ کر زگ زیگ میں موٹر سائیکل چلاتے ہوئے سڑک پر چلتی دوسری گاڑیوں کو اوور ٹیک کرتے، کبھی چلتی بائیک پر بانہیں پھیلا کر لیٹ جاتے اور کبھی آوازیں نکال کر ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ جانے کی دھن میں آس پاس موجود لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہے تھے. یوں لگ رہا تھا کہ لڑکوں کا یہ گروہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے. ایک مقام پر یہ گروہ رکا اور آپس میں کچھ طے کیا اور پھر آگے بڑھ گئے. اب یہ گروہ دو ٹولیوں میں بٹ گیا، شاید ان میں کوئی مقابلے بازی شروع ہو گئی تھی. جیت کے جنون میں انہوں نے اپنے آس پاس چلتی ٹریفک کو بالکل ہی فراموش کر دیا تھا اور ون ویلنگ کرتے ہوئے موٹر سائیکل پر اپنی گرفت مضبوط کر کے فضا میں قلابازیاں لگانی شروع کر دیں اور بلند قہقہوں کے درمیان ایک طرف سے یاسر، یاسر جبکہ دوسرے گروپ سے واصف، واصف کا شور بلند ہوا. تھوڑی دُور جا کر پھر سے یہی عمل دہرانے پر ایک لڑکے کی موٹر سائیکل سلپ ہوتے ہوتے بچی جبکہ دوسرا لڑکا اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور آن کی آن میں وہ کچھ ہو گیا جس کا ان منچلے دوستوں نے خواب میں بھی کبھی تصور نا کیا ہوگا.
دوسرے لڑکے جس کا نام شاید واصف تھا، کے ہاتھ سے موٹرسائیکل چُھوٹ گئی اور وہ سڑک کے دوسری جانب نصب آہنی جنگلے سے ٹکرا کر سڑک پر گر گیا. حادثے کی جگہ پر بہت سے لوگ جمع ہو گئے اور اس کے پاس بیٹھ کر آپس میں باتیں شروع کر دیں. کوئی کہہ رہا تھا:
"سانسیں چل رہی ہیں، سر اور کانوں سے خون بہہ رہا ہے، کندھے کے پاس سوجن ہوگئی ہے، فریکچر ہے شاید، ایمبولینس کو فون کرو، جتنا زخمی ہے، شاید ہی بچ پائے وغیرہ وغیرہ.
اسی اثنا میں ایک لڑکا تیزی سے ہجوم کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور اس لڑکے کا سر اپنی گود میں رکھتے پکارنے لگا:
"واصف! آنکھیں کھولو، میری آواز سن رہے ہو؟ مَیں ہوں تمہارا بھائی معاذ...!"
لڑکے کے ہاتھ میں تھوڑی جنبش ہوئی پھر اس کا سر ایک جانب ڈھلک گیا. ایمبولینس کے آتے ہی لڑکے کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا.
سفید کفن میں لپٹی 17سالہ واصف کی لاش جب اس کے گھر پہنچی تو غمزدہ ماں باپ کے کرب کی کوئی انتہا نہ تھی. اپنوں کی تسلیاں بھی ایسے مواقع پر کم ہی اثرانداز ہوتی ہیں اور صبر جمیل جیسے الفاظ کا مفہوم بھی اکثر سمجھ سے بالاتر ہو جاتا ہے. اس لڑکے کے ماں باپ کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا. کیا، کب، کیوں اور کیسے؟ جیسے سوالات دونوں میاں بیوی کے ذہن میں مسلسل گردش کر رہے تھے. واصف کا باپ قیصر اس منحوس گھڑی کو کوس رہا تھا جب اس نے اکلوتے بیٹے کی موٹرسائیکل لے کر دینے کی ضد پوری کرنے کے چکر میں اپنا ہی نقصان کروا لیا تھا.
والدین بیٹوں کی خواہش کرتے ہیں تاکہ وہ پڑھ لکھ کر کسی اچھے مقام پر فائز ہوں اور ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کر سکیں، بڑھاپے میں ان کا سہارا بن سکیں، دنیا سے رخصت ہونے پر ان کی لاش کو کندھا دیں، انہیں اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتاریں اور ان کے ایصال ثواب کےلیے نیک اعمال کریں لیکن نوجوان نسل ایڈونچر اور تھرل کے چکروں میں پڑ کر یہ سمجھ ہی نہیں پاتی اور انہیں ایسے غم سے دوچار کر دیتی ہے جس کا مداوا ناممکن ہوتا ہے.
آئے روز اخبارات و سوشل میڈیا ذرائع سے ون ویلنگ کے دوران نوعمر لڑکوں کے حادثات کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں. سوشل میڈیا پر ایک بڑی تعداد نوعمر بچوں کی ہے جو ایسے حادثات کے بارے میں آگاہ ہونے کے باوجود پرواہ نہیں کرتے اور زخمی ہونے کے علاوہ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں. کچھ صاحبِ علم و دانش حضرات حکومت پر تنقید کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں مگر اس کے نقصانات سے ان بچوں اور والدین کو کم ہی قائل کر پاتے ہیں. حکومتی سطح پر اس حوالے سے وقتاً فوقتاً قانون سازی بھی ہوتی رہی ہے جبکہ اس بار پنجاب حکومت کی طرف سے ون ویلنگ پر پابندی اور سزا کے قانون کو یقینی طور پر قابلِ عمل بنایا گیا ہے، جو کہ یقیناً قابلِ تحسین اقدام ہے- اللہ ان ناسمجھ والدین کو ہدایت دے جو شوق پورے کرنے کے چکر میں اپنے ہی جگر گوشوں کے لیے جانے انجانے میں موت کا سامان کر رہے ہوتے ہیں، اور ان بچوں‌کو سمجھ دے جو یوں اپنے والدین کو اکیلا چھوڑ جاتے ہیں. (آمین)
(محمد بن کامران ہے آسٹریلیا میں مقیم ہیں اور ایک انٹرنیشنل کمپنی میں بطور سیکیورٹی ایڈوائزر کام کر رہے ہیں)

Comments

Click here to post a comment