ہوم << عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں - نوشین صدیقی

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں - نوشین صدیقی

نوجوان کسی بھی قوم کا بہترین سرمایہ ہوتے ہیں۔ فطرت انسانی میں ودیعت کردہ سچائی ہے کہ انسانی زندگی کی بہار عمرِ جوانی میں مضمر ہے۔ نوجوان دراصل آگ ہیں۔ دھیرے دھیرے پھیلتے ہیں، بامِ عروج پر جا پہنچیں تو ہاتھوں کو جلا دیتے ہیں، اور ان کے ایندھن کی بنیاد پر استوار عمارت شعلے کے بجھنے کے بعد بھی چنگاری رکھتی ہے اور خود پر نگاہ غلط ڈالنے والے کو جلا کر بھسم کر دینے کی صلاحیت بھی۔ یہ بات صحیح ہے کہ شمع جب تک خود نہ جلے اجالا نہیں ہوتا، پھول جب تک شاخ سے جدا نہ ہولے گلے کا ہار نہیں بنتا اور نوجوان جب تک اپنا خون نہ بہائے قوم سرخرو نہیں ہو سکتی، اگر قوم کے نوجوان ہونہار و بے باک فرزندان کی طرح سنجیدہ کوششوں سے گریز نہ کرتے ہوئے، قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح نہ دیتے ہوئے تعمیر ملت کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں تو تعمیر قوم کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ دریا میں تنکے کی طرح بہہ جائے اور اگر نوجوان عیش پرستی، بے راہ روی، گمراہی اور ثقافت کی بغاوت کے علمبردار بن جائیں تو غلامی کی طویل زنجیریں ان کے گلے کا طوق بن جائیں اور غلامی اس قوم کا پیڑ جس کے آنگن میں ایسے بے حس نوجوان پلتے ہوں۔
تاریخ گواہ ہے کہ نوجوان جس کام کا بیڑا اٹھاتے ہیں اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں، اگر ان کی رگوں میں کوئی جذبہ خون بن کر دوڑتا ہے تو ان کی فولادی فطرت اس جذبے کو اپنے لہو سے رنگ حقیقت میں ڈھال کر دم لیتی ہے۔ نبی ﷺ کی اطاعت کرنے والے سابقون الاولون بیشتر نوجوان ہی تھے۔ حضرت علی نے جوانی میں اپنی بہادری کے قصوں کے سبب آفاق گیر شہرت پائی۔ حضرت یوسف تن تنہا، بے سروسامان، اجنبی ملک میں غلام بنا کر بیچ دیے گئے۔ جب قید خانے میں ڈالےگئے تو 17 برس کے تھے۔ بعد میں اپنے اعلی اخلاق، حقیقی اسلامی سیرت اور حکمت کی بدولت مصر کے حکمران بنائے گئے۔ اصحاب کہف بھی نوجوان تھے۔ سکندر اعظم جب یونان کا بادشاہ بنا تو اس کی عمر بھی 17 سال تھی۔ سترہ سالہ اسامہ بن زید کو نبی ﷺ نے شام کی سرحد پر سپہ سالار بنا کر بھیجا۔ حضرت خالد بن ولید کو ان کی جرات کے سبب سیف اللہ کا لقب ملا۔ محمد بن قاسم کی سترہ سالہ قیادت نے سندھ میں پہلی دفعہ اسلام کے دروازے وا کیے۔ سرسیّد احمد خان، مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر کی جو ان مثلث نے برصغیر کا جغرافیہ بدل دیا۔
اقبال کی شاعری نے شاہین کی دریافت کی، محمد علی کو جناح بنادیا۔ طارق نے ساحل اندلس پر کشتیاں جلا کر فتوحات کیں۔ راشد منہاس نے اپنی جان قربان کر کے قوم کو سربلند کر دکھایا۔ کئی غیرت مند نوجوانوں نے ناموس رسالت پر قربان ہو کر اسلام کی لاج رکھ لی۔ خود اس وقت مغرب میں عموماً نوجوان ہی اسلام قبول کر رہے ہیں، مثلاً مریم جمیلہ نے 1962میں، ڈاکٹر بلال فلپس نے 1971ء میں، یوسف اسلام (سابقہ نام Cat Steven) اور امام زید شاکر نے 1977ء میں اسلام قبول کیا۔ ان سب کی عمریں 17 سے 21 سال کے درمیان تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جب کسی قوم کے نوجوان صالح ہوں اور وہ اپنے نصب العین میں سنجیدہ ہوں تو وہ بنی نوع انسان کے لئے بھی خیر و بھلائی کا باعث بنتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت عالم اسلام میں عالم کفر کی نسبت نوجوانوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ یہ نوجوان امت مسلمہ کا بہت بڑا اثاثہ ہیں۔جب کسی قوم کے نوجوان بیدار ہوں تو اسے دنیا کی کوئی قوم شکست نہیں دے سکتی۔
ماضی میں کی جانے والی یہ انفرادی کاوشیں، کامیابیاں اور قربانیاں حال میں بھی اجتماعی فخر کا باعث ہیں، اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ ایک چراغ سے ہزار چراغ جلتے ہیں۔ قطرے مل کر دریا بناتے ہیں اور دریائی انقلاب روایتی ہتھکنڈوں کو غیر مؤثر ثابت کر دیتے ہیں، انقلاب نوجوانوں کا شاخسانہ ہیں اور روحِ امم کی حیات کشمکش انقلاب نحیف ضعیف افراد کے لہو سے آہ و فغاں اور سسکیاں و آہیں ہی بلند ہوتی ہیں جبکہ نوجوان شہید کہلاتے ہیں اور نوجوانوں کے لہو کے متعلق ایک شاعر نے کیا ک خوب کہا ہے کہ
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوٰة ہے
چین کے نوجوان جب تک منظم نصب العین کی طرف گامزن نہ تھے آبادی کا ریلا کہلاتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی آنکھوں والوں کی اس دنیا میں کوئی اہمیت نہ تھی مگر آج جب ان چھوٹی آنکھوں کے پیچھے پیچھے مارٹن لوتھر کے وضع کردہ تخیل تک رسائی ہو چکی ہے۔ دنیا کے ہر ملک نے چین کی حیثیت مان لی ہے۔ بقول شاعر
قوم کی حالت کو بدلنے کے لیے تعمیر کی طرف مائل کرنے کے لیے نوجوانوں کو بے حسی، نفسا نفسی اور خود غرضی کے لبادے تلے چھپے دل کو اولاً مشقت اور سفر کی طرف مائل کرنا ہو گا اور سفر کے لیے راہ چاہیے، راہ کے لیے چراغ چاہیے، چراغ کے لیے روشنی چاہیے، روشنی کے لیے جگنو چاہیے، جگنو کے لیے درد کا مارا چاہیے، درد کا مارا ہونے کے لیے درد چاہیے، درد کے لیے فکر چاہیے، فکر کرنے کے لیے سوچ چاہیے، سوچ کے لیے عمل چاہیے کیونکہ بغیر عمل کے سوچ وہ راستہ ہے جس کی کوئی منزل نہیں اور عمل کرنے کے لیے نوجوان کی اشد ضرورت ہے۔ قوم کی تعمیر کے لیے نوجوانوں کو نظریاتی اختلافات کو پسِ پشت ڈالنا ہوگا، باہمی داخلی رنجشوں کا خاتمہ کرناہوگا، بیرونی مداخلت پر آواز اٹھانے کے لیے وحدت و یگانگت کی اہمیت سے پہلو تہی کرنے کی عادت کو ترک کرنا ہوگا۔ شخصی ذاتی انفرادی اصلاح کا بیڑا اٹھانا ہوگا۔ زمین وزر کو کل نہیں بلکہ جز جاننا ہوگا۔ مرکز واحد پر مرتکز کرنا ہوگا۔ جہالت کی مخالفت کر کے علم کو عام کرنے کی سعی کرنی ہو گی۔ اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم اکیلے کچھ بھی نہیں، ہماری پہچان کوئی بھی نہیں، قوم ہے تو ہم ہیں. ہماری پہچان ہے۔ درخشاں مستقبل کی بنیاد حال میں کیے گئے عوام کے فیصلوں پر منحصر ہوگی۔ کل کو سنوارنے کے لیے آج کو بہتر بنانا ہے۔ کھیل کا میدان ہو یا صحافت کا شعبہ، سیاسی منڈی ہو یا علمی معرکے، نوجوانوں کی شمولیت کی اشد ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو اگر قوم کی اکائی کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ جہاں کچھ نوجوان بےحسی کا لبادہ اوڑھے قوموں کے لیے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں، وہیں قوم کی اساس اور طاقت نوجوان ہی ہیں۔ سرحدوں کی حفاظت کا مسئلہ ہو یا ملک کے داخلی حالات اگر نوجوان ان پر سیر حاصل معلومات رکھتے ہوں تو مسائل بنیاد سے ہی قابل حل لگنے لگیں۔
اگر نوجوانوں کی دلچسپی کا مرکز قومی مسائل کو بنا دیا جائے تو قومی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے با آسانی چھوٹے بڑے معاملات سے نمٹ لیا جائے۔ اگر نوجوان ایسے ہی دلچسپی پرامن معاشرے کے قیام کے لیے دکھائیں تو کوئی اس ملک کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ یہ معاملہ بھی خود میں وسعت رکھتا ہے کہ عصرِ حاضر میں صرف جذبات اور جوش کی ضرورت نہیں ہے بلکہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے دانشمندی اور ہوش سے کام لینا ہوگا۔ مثلاً مسلمانوں کے بھیس میں کسی کو دہشت گردی کرتے دیکھ کر مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھ لینا کم عقلی ہے جبکہ مسلمانوں اور ان منافقین کے مابین فرق کو سمجھنا عقلمندی ہے۔ احتجاج برائے احتجاج اور تنقید جیسے منفی رویوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔ معاملے کی تہہ میں جائے بغیر صرف سنی سنائی پر یقین کرنے سے گریز کرنا ہوگا، ذاتی معاملات کو وجہ اختلاف بنا کر کسی قومی شخصیت کے بخیے ادھیڑنے سے اجتناب کرنا ہوگا کیونکہ ایک اونٹ کا مالک بھی اس کے دام خود بڑھاتا ہے جبکہ قومی شخصیت تو دنیا کے سامنے ہم سب کی عکاسی کرتی ہے۔ حکمرانوں پر تنقید کرتے وقت یہ بات مدِنظر رکھنا ہوگی کہ انہیں حکومت کے لیے ہم نے چنا ہے۔ غصے کا اظہار توڑ پھوڑ کی شکل میں کرنے سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ اس طرح ہم اپنی ہی چیزوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو غصے کی بنیاد کو جڑ سے اکھاڑ دیں۔ تحمل کے فقدان کے سبب کوئی بھی کسی دوسرے کی بات سننے کا روادار نہیں۔ کوئی مر رہا ہو اور ”ایک بوند پانی ایک بوند پانی“ چیخ رہا ہو تب بھی کوئی نظر اس پر کرم نہ کرے گا. ماؤں کے بیٹے ہنستے کھیلتے گھروں سے جاتے ہیں اور واپسی کفن میں لپیٹے ہوئے وجودوں کی ہوتی ہے۔
درد سے معمور ہوتی جا رہی ہے کائنات
اک دل انساں مگر درد آشنا ہوتا نہیں
وہ دور گزر گیا کہ آنکھیں کبوتر کی طرح بند کر لی جائیں. آپ کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ایک کا بہادرانہ عمل صدیوں بعد بھی قابلِ تقلید رہےگا اور ایک کی بزدلانہ روش کے لیے پوری قوم کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔ دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریباں میں جھانکنا ہوگا، اس بات کو ماننا ہوگا کہ کوئی ہمارے اختیار میں نہیں مگر ہم تو اپنے اختیار میں ہیں نا! لہذا ہمیں اپنے نفس کو اس راہ کا پیروکار بنانا ہو گا جس کی منزل ہماری قوم کی ترقی ہو۔ اپنی جانوں کے نذرانے کو اپنے ملک کے لیے ارزاں سمجھناہوگا۔ اپنے شعبوں کو ذریعہ کمائی سمجھنے کے بجائے عین عبادت سمجھناہوگا۔ لسانی اختلافات کو زبانی جھگڑوں کی شکل دے کر غیروں کو انگلی اٹھانے سے باز رکھناہوگا۔ فطرت کے عین تقاضوں کے مطابق اپنی زندگی کی بہار یعنی نوجوانی میں ایسا کردار وضع کرنا ہوگا جس کی آنے والی نسلیں پیروی کر سکیں. وہ گفتار کا انداز اپنانا ہوگا جو قابلِ تقلید ہو. موت کا وہ طریقہ اپنانا ہوگا جس پر عالم رشک کریں اور آنے والے لوگ معمار قوم کی فہرست میں ہمارا نام بھی جلی حروف میں لکھیں۔ اگر نوجوانوں کے جدت پسند مغربانہ شکنجے میں پھنسے دماغوں میں یہ سوچ سرایت کرجائے تو یہ نا ممکن نہیں کہ قوم تعمیر کی وہ آفاق گیر سرحد پار کر لے کہ دیگر اقوام عالم اس پر رشک کریں اور تقلید کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہیں. دوسرے لوگوں کے لیے خود کو مشعل راہ بنانے کے لیے ہمیں مہذبانہ رویے کو اپنانا ہوگا، نئی نسل کے کچے ذہن پر اچھی تربیت کے پکے نقوش چھوڑنے ہوں گے اور خاموش انقلاب کا بیڑا اٹھانا ہوگا۔ اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ مہنگائی یا وسائل کا فقدان بلاشبہ جھنجھٹ کا سبب بنتا ہے مگر آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ وسائل کی کمی کو سمجھنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہم کاٹھ کے الو بن کر ہر غیر ضروری چیز کو خود پر برداشت کریں، اس کے برعکس ہمیں مسائل کو سمجھ کر ان کے حل کے لیے اجتماعی کوششیں کرنی ہوں گی۔ بیرونی دباؤ کا خاتمہ معاشرے میں امن کے قیام کے لیے بہت ضروری ہے. تعلیم کو صرف ذہنی نشوونما کے لیے محدود کر دینا درست نہیں بلکہ اس سے ہماری ظاہری حالت و فعل میں بھی تبدیلی آنی چاہیے. حسد و کینہ کے نقصانات سے آگاہی کے لیے نوجوانوں کی سطح پر سیمینار منعقد کروانے چاہیے. کسی کے اچھے عمل سے خائف ہو کر اس کی ٹانگ کھینچنے کے بجائے اسے بڑھاوا دینا چاہیے۔ اخلاقی قدروں کو خصوصی اہمیت دی جانی چاہیے۔ اگر ان سب اقدامات کو مدِ نظر رکھ کر ہر شخص ذاتی تربیت کر لے تو قوم کی پرامن اور مثبت تعمیر میں کوئی بھی چیز مانع نہ ہوگی۔