ہوم << اماں مجھے بھی سکول جانا ہے - ضیاءالمجید ضیائی

اماں مجھے بھی سکول جانا ہے - ضیاءالمجید ضیائی

وہ ٹکٹکی باندھے اپنی ٹھوڑی کو اپنے میلے کچیلے ہاتھوں پر ٹکائے حسرت بھری نگاہوں سے سامنے سےگزرتے صاف ستھرے یونیفارم میں ملبوس، چمچماتے شوز پہنے، سکول جاتے بچوں کو دیکھ رہا تھا. وہ ایک نظر اپنے تیل سے لتھڑے گریس سے داغدار کپڑوں کو دیکھتا اور کبھی سامنے سے گزرتے بچوں کے اجلے یونیفارم کو. وہ آج 7 بجے ہی ورکشاپ کے تھڑے پر آ کر بیٹھ گیا تھا. ابھی کل ہی تو اسے استاد نے دیر سے آنے پر مارا تھا. گالیوں سے استاد نے شروعات کی تھی. ماں کے لیے بولے گئے نازیبا الفاظ اس سے برداشت نہیں ہوئے تھے، اور وہ استاد کے آگے بول اٹھا تھا کہ ”مجھے جو مرضی کہیں میری ماں کو تو کچھ مت کہیں“. لجاجت بھرے انداز میں کی گٰئی شکایت ”استاد“ کی نام نہاد عزت نفس کو شاید مجروح کر گئی تھی. اس جرم کی پاداش میں دی گئی سزا کے نقوش ابھی تک اس کے گالوں اور کمر پر موجود تھے. استاد تو اسے کام سے نکالنا چاہتا تھا لیکن اس کی اماں کی منت سماجت پر شاید اسے ترس آگیا تھا. شاید اسی وجہ سے آج وہ صبح سویرے ہی گھر سے شام کی بچی روٹی کو دہی کے ساتھ زہر مار کر کے یہاں آن پہنچا تھا.
ِغربت کی چکی کے پاٹوں میں کچلے ہوئے خاندان سے اس کا تعلق تھا. خاندان کیا، بس چھوٹا سا 3 افراد پر مشتمل کنبہ تھا اس کا، نازو، وہ اور اماں، یہی کل کائنات تھی اس کی، ابا کا پھٹا پرانا شناختی کارڈ ہی تھا جس سے اسے اپنے باپ کی شکل وصورت سے شناسائی ہوئی تھی. اس کے سن شعور کو پہنچنے سے پہلے ہی وہ ٹی بی کے ہاتھوں انہیں بے یار و مددگار چھوڑ کر چل بسا تھا.
اماں بڑے لوگوں کے گھروں میں جا جا کر اور دن بھر برتن مانجھ کر اپنے جگر گوشوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا سامان پیدا کر رہی تھی.
”اماں میں نے بھی سکول جانا ہے. تو مجھے سکول کیوں نہیں بھیجتی. مجھے بھی یونیفارم پہننا ہے تو مجھے بستہ کیوں نہیں لے کر دیتی..اماں.! وہ ساتھ والی گلی میں حسیب ہے نا، اسے اس کے بابا روز سکول چھوڑنے جاتے ہیں. اماں تو مجھے کیوں صبح صبح اس استاد کے پاس بھیج دیتی ہے؟“
روانی میں اماں سے سوال پوچھتے ہوئے اس کے لہجے میں جہاں بھر کی حسرت ویاس سمٹ آتی۔ اماں کو اس کے سوال پریشان کر دیتے. اس کی اس خواہش کو پورا کرنے کی شاید اماں میں سکت ہی نہیں تھی. اس سے جب کوئی جواب نہ بن پاتا تو اسے جھڑک دیتی ”تو اپنے منہ دھیان کام پر جایا کر، ادھر ادھر کیوں تکتا ہے رے تو.“
وہ اپنی انہی سوچوں میں غلطاں اپنی ناتمام خواہشات کے دیپ سینے میں جلائے بیٹھا تھا.
”بیٹا تم کیوں بیٹھے ہو ادھر؟؟“
ایک ہمدرد سی آواز نے اس کی محویت کو توڑا.
اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے پینٹ کوٹ میں ملبوس شفیق سی صورت والے ایک صاحب کھڑے تھے. وہ اپنی چمچاتی کالے رنگ کی کار کھڑی کر کے اتر آئے تھے.
”صاحب جی! میں ادھر ورکشاپ میں کام کرتا ہوں نا. استاد نہیں آیا ابھی اس لیے وکشاپ کے باہر بیٹھا ہوں.“
اس نے ِبڑی وضاحت سے جواب دیا.
”بیٹا...تم سکول کیوں نہیں جاتے؟“
”صاحب جی“ نے اس کی دکھتی رگ کو چھیڑ دیا تھا. اس کی آنکھوں کے کٹورے چھلک سے پڑے. دو گرم آنسو اس کے گالوں سے لڑھک گئے.
”جن کے ابو ہوتے ہیں وہ سکول جاتے ہیں صاحب جی. میرے ابا اللہ کے پاس چلے گئے ہیں. اماں نہیں بھیجتی مجھے. کہتی ہے میرے پاس پیسے نہیں ہیں تمہاری فیس کے لیے، میں تمہیں کھانا کھلاؤں یا سکول پڑھاؤں. اماں کہتی ہے تم کام سیکھو اور پیسے کماؤ، سکول کے خواب مت دیکھو. بس صاحب جی اسی لیے نہیں جاتا.“
اپنی میلی آستین سے آنسو پونچھتے ہوئے اس نے جواب دیا. آستین پر لگی کالک نے اس کے گال پر آنسوؤں کی نمی میں گھل کر نقش و نگار سے بنا ڈالے تھے. اس کے جواب نے ”صاحب جی“ کو بھی آبدیدہ کر دیا.
وہ اس کے سر کو شفقت سے تھپتھپاتے ہوئے کہنے لگے
”بیٹا تمہارا نام کیا ہے.“
قاسم نام ہے جی میرا..
صاحب جی سے بات کرنا اسے بڑا اچھا لگ رہا تھا.
”بیٹا تمہاری فیس میں دوں گا، تم کل سے یہاں نہیں آؤ گے بلکہ ان بچوں کے ساتھ تم بھی کل سکول جاؤ گے.“
یہ سنتے ہی اس کے من میں خوشی کا فوارہ سا پھوٹا. فرط جذبات سے اس کے گال تمتما اٹھے.
ابھی اٹھو اور مجھے اپنے گھر لے چلو. صاحب جی نے کہا.
اگلے ہی دن اس کا یونیفارم اور بیگ آگیا. صاحب جی نے اسے اسکول میں داخل بھی کروا دیا. اور اس کے سارے تعلیمی اخراجات کا ذمہ بھی لے لیا.
آج کاشف نعمان صاحب اسی جگہ کھڑے قاسم کو اجلا یونیفام پہنے خوش و خرم سکول کی طرف جاتا دیکھ رہے تھے جہاں کل انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جنت میں قربت حاصل کرنے کا سودا کیا تھا. انہیں یقین کامل ہو چلا تھا کہ جنت میں اللہ مجھے پیارے حضور کا ساتھ ضرور نصیب کرے گا کیوں کہ دریتیم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی تو کہا تھا
[pullquote] "انا وکافل الیتیم فی الجنۃ ھکذا"[/pullquote] میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح قریب ہوں گے جس طرح شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی.

Comments

Click here to post a comment