ہوم << "قائد تحریک" سے "فانئ تحریک" تک. فرخ سعید

"قائد تحریک" سے "فانئ تحریک" تک. فرخ سعید

کہتے ہیں طاقت کسی کی میراث نہیں ہوتی یہ جگہ بھی بدلتی ہے اور افراد بھی یہ کسی کی ملکیت نہیں ہوتی پر جب ملتی ہے تو اکثریت اپنی اصلیت کھو کر طاقت کے نشے کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کے سامنے ساری دنیا اپنے سے کمزور اور چھوٹی نظر آتی ہے، کچھ یہی منظر شہر کراچی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
شہر کراچی میں پیدا ہونے والوں نے بچپن سے ہی طاقت کا وہ روپ دیکھا جسکے ایک اشارہ پر پورا شہر بند ہوتا دکھائی دیتا، اس میں بسنے والے انسان بے بسی کی تصویر دکھائی دیتے، کچھ چاہتے ہوئے اور کچھ مجبورا اپنے گھروں میں قید ہونے میں ہی عافیت پاتے۔ جیسے جیسے ہمارا بچپن جوانی میں ڈھلنے لگا اسی رفتار سے طاقتور مزید طاقتور ہوتے چلے گئے، کہ گویا دنیا کا ساتواں بڑا شہر مفلوج و مجبور ہوکر بے بسی کی تصویر لگنے لگا۔ جو طاقتور تھے اور جو اس طاقت کے متلاشی، دونوں اس شہر اور اسمیں بسنے والوں کو اپنی خواہشات و مفادات کی ایسی بھینٹ چڑھانے لگے کہ ایک دن میں اس شہر کی سرزمین سینکڑوں لوگوں کہ خون سے رنگنے لگی۔
قتل و بربریت اور لوٹ مار کا وہ بازار گرم ہوا کہ تاریخ دانوں کے ہاتھ بھی کانپ گئے اور اس شہر کی تاریخ خون آلود ہوگئی۔ پر ہر ظلم اور ظالم کی ایک حد مقرر ہوتی ہے وہ اس سے آگے بڑھ جائے تو پھر خالق کائنات کی طرف سے اسکی رسی کھینچ لی جاتی ہے تاکہ دکھایا جا سکے کہ ظالم کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو آخر میں آہ مظلوم کی ہی سنی جاتی ہے۔
اور اسی کا ایک نمونہ ۲۲ اکتوبر کی شام دیکھنے کو ملا کہ جب قائد تحریک نے طاقت کے نشے میں جس ملک سے کھایا اور کمایا اسی کے خلاف اعلان جنگ کرکے مردہ باد کا نعرہ لگا دیا۔ گویا بانی تحریک نے فانی تحریک تک کا سفر بہت جلدی طے کر لیا اور اپنی لگ بھگ ۳۰ سالہ جدو جہد اور اسکے پیچھے دی گئی ہزاروں قربانیوں کو رائیگاں کر دیا۔
جس ملک اور شہر نے ایک گمنام طالب علم کو طاقت و سیاست کے اس مقام پر بٹھایا کہ جس کے بغیر سیاسی فیصلے کچھ ادھورے معلوم ہونے لگے۔ طاقت کے نشے یا پھر آس پاس کے راز دانوں نے نفرت کی وہ آگ سلگائی کہ سب سے پہلے اپنا دامن بچانا ہی مشکل ہوگیا۔ جن آباو اجداد نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیکر آزادی کا سانس نصیب کروایا، انکی یہ کاوش غلطی گمان ہونے لگی۔ جس ملک نے نام بھی دیا اور مقام بھی، اسکی بقاء ہی اپنی بقاء کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نظر آنے لگی۔ یہ ایک ایسی سیاسی غلطی تھی جس نے اپنوں کو پرایا کردیا اور کل تک ہم نہ ہوں ہمارے بعد کے نعرے لگانے والے لاکھوں جانثاروں کے جذبات و احساسات کو ایسی ٹھیس پہنچی کہ انکے پاس قائد تحریک سے بیزاری اور لاتعلقی کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہ بچا اور سب نے برملا اس کا اظہار کردیا۔
جس طرح ہر اندھیرے کے بعد اجالا آتا ہے اس شہر کے مقدر میں بھی اجالے لکھے جا چکے، طاقت کے نشے میں اس ملک کو فنا کرنے کا مکروہ خواب دیکھنے والے اب خود گمنامی کے اندھیروں میں جانے کا سفر شروع کر چکے ہیں۔ ہزاروں مظلوموں کا خون رنگ لا رہا ہے اور اس مٹی کے بیٹے آگے بڑھ کر اعلان کر رہے ہیں کہ بس اب اور نہیں، ہماری جد و جہد اس ملک کو گرانے کے لئے نہیں بلکہ بنانے کے لئے تھی۔ ہمارا ساتھ اس گلشن کو مہکانے کے لئے تھا ویران کرنے کے لئے نہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد نے ہجرت کرکے مہاجر ہونے کا لقب ضرور پایا تھا پر وہ ترک وطن تھا اور ہم اس مٹی کے بیٹے ہیں ہم پاکستانی ہیں بلکل ویسے ہی جیسے دوسرے صوبے کے رہنے والے۔
دیر آئے پر درست آئے، اس شہر کو خوف میں دھکیلنے والے اب خود خوف کے سائے میں جی رہے ہیں، اب آگے بڑھنا ہے کیونکہ قوم مزید غلطیوں کی متحمل نہیں ہو سکتی، اب رنگ و نسل ، لسانیت، صوبائیت کی سیاست کو خیر باد کہنا ہوگا اور اس مٹی کے بیٹے بن کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اب لفظ "مہاجر" سے "پاکستانی" کا سفر بہت جلد طے کرنا ہے کہ یہی ہم سب کی پہچان ہے اور یہ وہی سفر ہے جسکا خواب لاکھوں قربانیاں دیکر آباو اجداد نے دیکھا تھا۔
پاکستان مردہ بعد کہنے والوں سے نفرت ضرور کیجئے پر زندہ باد کہنے والے اس مٹی کے بیٹوں کو آگے بڑھ کر اپنائیت کا احساس ضرور دلائیں کیونکہ جب محرومیاں بڑھتی ہیں تو منفی سوچ جنم لیتی ہے جو چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی قوم کو ایسے افراد کے حوالے کر دیتی ہے جو اسکی بقاء سے زیادہ فنا کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔
ان شاء اللہ ، پاکستان زندہ باد تھا اور رہے گا ، اسکو فنا کرنے کی آرزو کرنے والے ایسے گمنام ہونگے کہ تاریخ میں انکا چہرہ شکست زدہ ہی دکھائی دیگا۔ سلام ان مٹی کے بیٹوں پر جنہوں نے جرات و بہادری سے ثابت قدم رہ کر اور اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر ظالم کے زور کو اس قدر توڑا کہ ہم کو منزل نہیں رہنما چاہئیے کا نعرہ لگانے والے بھی یہ کہتے دکھائی دئیے کہ اب ہم کو رہنما نہیں یہ ملک چاہئیے.
والسلام
فرخ سعید

Comments

Click here to post a comment