ہوم << بھٹکے ہوئے لوگ - شیخ خالد زاہد

بھٹکے ہوئے لوگ - شیخ خالد زاہد

شیخ خالد زاہد آپ کوئی راستہ بھٹک جائیں، کہیں کہ کہیں پہنچ جائیں، بتانے والے بھی آپ کو غلط پر غلط راستہ بتاتے جائیں، آپ تھک ہار کہ بیٹھ جائو گے۔ اگر واپسی کا راستہ بھی بھول گئے تو راستے میں ہی کہیں پیوندِ خاک ہوجائیں گے۔ پرانے وقتوں میں جب کوئی سفر پر روانہ ہوتا تھا تو سب سے مل ملا کر معافی تلافی کر کے نکلتا تھا۔ شاید اس کی وجہ کچھ یہی ہوگی کہ واپسی ممکن ہو یا نہ ہو۔ یوں تو قدرت کوئی نہ کوئی انتظام بھٹکے ہوئے لوگوں کے لیے کر کے رکھتی ہے، اور کبھی یہی بھٹکے ہوئے لوگ نیا راستہ دریافت کرلیتے ہیں۔
بھٹکے ہوئے لوگوں کی بظاہر دو قسمیں سمجھ آتی ہیں، ایک تو وہ جنہیں راستے کا علم نہ ہو اور وہ سفر شروع کر دیں بغیر راستے کی جانکاری لیے، اور دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہیں راستہ تو معلوم ہوتا ہے مگر وہ منزل پر پہنچنے کے لیے کسی نئے راستے کی دریافت میں سرگرداں ہوجاتے ہیں یا الجھ جاتے ہیں۔ یقینا ہر دور میں ایسے لوگ رہے ہوں گے۔ دورِ حاضر میں دوسری قسم کی تعداد پہلی قسم کے بھٹکے ہوئے لوگوں سے زیادہ ہے۔ ہم معلومات کے سمندر کے دور میں ہیں۔ ہر طرف جانکاری ہی جانکاری ہے۔ سب کو کم و بیش کچھ نہ کچھ معلوم ہے یا سب کچھ معلوم ہے۔ اگر کوئی پوری بات نہیں جانتا تو اس نے پڑھ یا سن ضرور رکھا ہوگا۔ کیا یہی وجہ ہے کہ تہذیب و تمدن کے نقوش بننے کی بجائے مٹتے جا رہے ہیں۔ معلومات کے اس لا محدود ذخیرے کے مرہون منت آج بچہ کسی بڑے کی کوئی بات آسانی سے رد کردیتا ہے۔ یقینا وہ معلومات کے دور کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ عموماً یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ ہمیں پتہ ہے، ہم جانتے ہیں، لیکن اتنی معلومات کے باوجود معاملات روز بروز بگڑتے جا رہے ہیں، سب کچھ الٹ پلٹ ہوئے جا رہا ہے۔ پرانے وقت میں معلومات تو تھیں مگر ذرائع محدود تھے۔ مخصوص افراد کی جاگیر جانی جاتی تھی۔ آج معلومات کا کوئی دعویدار نہیں ہے۔ آج ذرائع بہت ہوچکے ہیں۔ پہلے کتابیں، اخبارات اور رسائل معلومات کے بنیادی ذرائع تھے، یا بزرگوں کا علم نایاب تھا، آج ذرائع کی بہتات ہے۔ کتابیں، اخبارات اور رسائل تو اب بھی ہیں بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں ہیں، مگر آج برقی دور ہے، ہر چیز ہر معلومات با آسانی میسر ہے۔
ہم رکتے ہی نہیں۔ دیکھتے اور سننے پر دھیان نہیں دیتے۔ سب کچھ چلتے چلتے ہوتا جاتا ہے۔ کسی کی تعریف کسی کی برائی، کسی کی عیادت کسی کی تعزیت، کسی کی شادی کسی کی میت، سب جگہ ہم چلتے رہتے ہیں۔ حال احوال بھی اشاروں میں معلوم کرلیتے ہیں۔ بظاہر اس جگہ کھڑے ہیں مگر ذہنی طور سے کہیں اور آگے پہنچے ہوتے ہیں۔ ٹھہرنے سے اور دھیان سے عاری ہوئے جا رہے ہیں۔ جہاں بیٹھے ہوتے ہیں وہاں سے کہیں آگے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جہاں جانا ہوتا ہے وہاں سے آگے کیا ہے، یہ سوچ رہے ہوتے ہیں۔ جیسے روح اور جسم آپسی ناراض ہوئے ہوں۔ ایک کہیں تو دوسرا کہیں۔ سڑکوں پر آئے دن ٹریفک جام ملتا ہے۔ نکلتے کہیں جانے کے لیے ہیں مگر راستے میں خیال آیا وہاں سے ہوتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ اچانک راستہ بدل لیتے ہیں۔ اس طرح کا معاملہ کم و بیش سب کے ساتھ ہے۔ ابھی بچہ بہت چھوٹا ہے مگر اس سے توقعات ایسی وابستہ کر رکھی ہیں جیسے ایک بہت با شعور اور بڑا فرد ہو۔ ہماری کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ روز بروز الجھتے جارہے ہیں۔
ہر روز ان گنت لوگ اپنی زندگی کی لڑائی ہار جاتے ہیں۔ کچھ لوگ بیماریوں سے لڑتے ہوئے مارے جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں سے ان کے جینے کا حق انہیں بتائے بغیر ہی چھین لیا جاتا ہے۔ دھماکے ہو رہے ہیں۔ نا معلوم افراد دندناتے پھر رہے ہیں۔ عمارتوں میں آگ لگ رہی ہے۔ عبادت گاہیں محفوظ نہیں۔ تعلیمی ادارے محفوظ نہیں۔ ہمارے محافظ محفوظ نہیں۔ کون مار رہا ہے، کیوں مار رہا ہے۔ سگنلز پر کوئی رکنے کو تیار نہیں۔ قانون اور قانون کے رکھوالوں کا خوف نہیں ہے۔ بس سب چل رہے ہیں بلکہ دوڑ رہے ہیں۔ دھرنے دیے جا رہے ہیں۔ دھرنوں کی حفاظت ہو رہی ہے۔ ہمارے پیارے وطن پاکستان میں قانون کی بالادستی نہیں۔ ایسا لکھنے میں کوئی شرمندگی بھی نہیں۔ اگر کسی کو کوئی ملک قومیت دینے کو تیار نہیں تو وہ پاکستان آجائے۔ یہاں شناختی کارڈ بن جاتا ہے اور پاکستانی کہلایا جانے لگتا ہے۔ پاسپورٹ بھی بن جاتا ہے، ڈرائیونگ لائسنس بھی۔ اربابِ اختیار ایسے لوگوں کو پناہ دے دیتے ہیں کیوں یہ ہم سب کو پتہ ہے۔ اور پھرکسی حادثے کے بعد اسے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ پہلے زخم دیتے ہیں، پھر زخموں پر مرہم رکھنے پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے سیاست دان اپنی حفاظت کے لیے پورے وطنِ عزیز سے محافظوں کے دستے منگوالیتے ہیں۔ بلٹ سے محفوظ رکھنے والی گاڑیاں مہنگے داموں منگوا لیتے ہیں۔ عوام کی زندگی کوئی معنی و حیثیت نہیں رکھتی۔
رشوت اور چور بازاری عام ہے۔ یہاں ادارے روز بروز زبوں حالی کا شکا ر ہو رہے ہیں۔ پاکستانی عوام چاہے وہ کسی بھی صوبے یا زبان والی ہو، چاہے اس کا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو، پانی نہیں، بجلی نہیں، گیس نہیں، ہسپتالوں میں دوائیں نہیں۔ مگر ہمارے سیاست دانوں کی عیش و عشرت میں کوئی کمی نہیں، اور انہیں کوئی شرمندگی بھی نہیں۔ زبانی جمع خرچ اتنا ہے کہ کوئی اندازہ نہیں۔ خبروں کی بھرمار ہے مگر کوئی سدِ باب نہیں۔ دہشت گردی کی مذمت کی گونج ہر وقت سماعتوں سے ٹکراتی رہتی ہے۔ دہشت گرد بھی خوش ہوتے ہوں گے کہ ہمارے کیے کو اتنا چرچا ملتا ہے۔ دہشت گرد اپنی دہشت گردی سے مخصوص علاقے کو دہشت زدہ کرتے ہیں مگر میڈیا کی گونج اسے گھر گھر پہنچا دیتا ہے، پورے ملک کو دہشت زدہ کردیتا ہے۔
پاکستان ہماری لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آج ہم اپنی لگن کی بدولت ایٹمی طاقت ہیں۔ ہم میں لگن کی کمی نہیں۔ ہم بھٹکے ہوئے لوگ نہیں تھے۔ ہمیں باقاعدہ بھٹکایا گیا ہے۔ہمیں ہماری منزل سے دور کیا گیا ہے۔ کبھی ہماری سرحدوں پر گولہ بارود پھینک کر، کبھی ہم پر الزامات کی بھر مار کر کے، کبھی ہمارے اندر سیاسی غلط فہمیاں پیدا کرکے، تو کبھی فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا کر۔ ہماری حکومتوں کو عوامی مسائل کی طرف توجہ دینے کی مہلت ہی نہیں دی جاتی۔ ہم سب آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے اپنے وطن کی عزت و عصمت پامال کر رہے ہیں۔ ہمارے اربابِ اختیار ان باتوں پر دھیان کیوں نہیں دیتے۔ ملک کی سالمیت ملک کی عوام سے ہے۔ عوام نے آپ پر اعتماد کرنا شروع کر دیا تو آپ کو الیکشن کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ آپ کچھ نہیں کرسکتے تو عوام کے ساتھ روزانہ کی بنیادوں پر کچھ نہ کچھ وقت گزاریے۔ عوام کی اور اپنی راہ پر چلنے کی کوشش کیجیے۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راستہ مل جائے گا۔ آپ دیکھیں ایسے مشکل حالات میں بھی پاکستان آئے دن کسی نہ کسی جگہ اپنا جھنڈا اونچا کیے جاتا ہے۔ ایسے ہی حالات میں نیوکلئیر پاور بن گئے۔ اگر ہم بھٹکے ہوئے نہ ہوتے تو ذرا سوچیے کہاں ہوتے۔ ہمیں باقاعدہ طور پر اپنے راستے سے اپنی منزل کی جانب پیش قدمی کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ یہ تمام مسائل جو ہمیں درپیش ہیں، یہ دراصل مسائل نہیں راستے کی رکاوٹیں ہیں۔ اب ہمیں فیصلہ کرنا پڑے گا کہ دشمن کی رکاوٹوں سے اپنا راستہ اپنی منزل بدل لیں یا پھر ان سے نبردآزما ہونے کے لیے سدِ باب کریں۔