سعودی عرب ہمیشہ سے دہشت گردی کی قولی و فعلی مخالفت کرتا آیا ہے۔ 9/11واقعہ کے بعد جہاں دہشت گردی کی جہتیں بدلی وہیں طاقتوں کا توازن بھی شدید متاثر ہوا ۔ محقق جوزف گینن نے امریکا میں سعودی عرب کے سرکاری اثاثوں کے حجم کا اندازہ 500 سے 1000 ارب ڈالر کے درمیان لگایا ہے۔ ’’امریکی، عرب چیمبر آف کامرس‘‘ کے سربراہ ڈیوڈ ہیمون نے خبردار کیا ہے کہ سعودی عرب یورپ اور ایشیا میں شراکت دار چننے کے معاملے میں آزاد ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ امریکا اب میدان کا اکیلا کھلاڑی نہیں رہا اور سعودی عرب جس انداز سے جواب دے گا اس کا کوئی بھی اندازہ نہیں کرسکتا۔ براؤن یونی ورسٹی کے محقق اسٹیفن کنزر نے خبردار کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس قانون کا رد عمل براہ راست سعودی عرب کی جانب سے نہیں بلکہ مملکت کے ساتھ مربوط ممالک کی جانب سے آئے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور امریکا کے درمیان آٹھ دہائیوں پر مشتمل تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہونے کے درپے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے استنبول میں خطاب کے دوران امریکی کانگریس کی طرف سے منظور کردہ ’جاسٹا بل‘ کو بدترین اور امریکی کانگریس کی بہت بڑی غلطی قرار دیا۔ جاسٹا قانون کے تحت ہلاک ہونے والے 3000 افراد کے لواحقین کو سعودی حکومت پر ہرجانے کے دعویٰ کا حق حاصل ہوگا۔ سعودی عرب پہلے ہی ان حملوں میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کرچکا ہے۔ امریکہ کی اعلیٰ سطح کے سیکیورٹی مشیر’ جن میں سابق وزیر خارجہ ولیم کوہن، سابق سی آئی اے سربراہ مائیکل موریل اور اسٹیفن ہیڈلے ہیں‘ نے خبردار کیا ہے کہ ایسا اقدام امریکی مفادات کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ متحدہ عرب امارات نے اس قانون پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امارات کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ قانون عمومی شکل میں ذمہ داری کے قواعد اور ضوابط سے اور ملکوں کو حاصل خودمختاری کے بنیادی اصول سے متصادم ہے۔ اردن کی حکومت نے کانگریس کی جانب سے منظور کیے جانے والے قانون کے نتائج کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مراکش نے اس قانونی بل کو’’امریکا کے دوست ممالک کو نشانہ بنانے والا اور ان کی ساکھ مسخ کرنے والا‘‘ قرار دیا۔ رابطہ عالم اسلامی نے کانگریس کی جانب سے اس طرح کا قانون جاری کرنے پر انتہائی تشویس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ قانون اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کی واضح اور صریح مخالفت کرتا ہے۔
سعودی عرب کو اس طرح کے مسائل میں الجھانے سے امریکہ کے تعلقات مسلم ممالک کے ساتھ مزید خراب ہوں گے۔ مسلم ممالک کی عوام امریکہ کو اپنا دشمن سمجھتی ہے اور اس طرح کے قوانین نے امریکہ کی ساکھ مزید بری ہوجائے گی۔ امریکہ جہاں دیگر ممالک میں دخل اندازی کا مرتکب ہورہا ہے وہیں اب دوسرے ممالک کے خلاف مقدمات کرنے کی داغ بیل بھی ڈال رہا ہے ۔اس قانون میں صرف اور صرف امریکیوں کی حفاظت کی بات کی گئی ہے اور عالمی قوانین کے تحت دوسرے ممالک کی خودمختاری اور استثنیٰ کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے ۔اگر ایک طرف 3000افراد کے لواحقین سعودی عرب پر ہرجانے کا دعویٰ کرسکتے ہیں تو دوسری طرف افغانستان ،عراق ودیگر ممالک میں جہاں امریکیوں نے حملہ کیا وہاں کی عوام بھی ’جاسٹا ایکٹ‘ کے ذریعے امریکی حکومت کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔امریکی حکومت اور دیگر غیر مسلم ممالک کو یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ سعودی عرب کے ساتھ عالم اسلام کے تعلقات کوئی سطحی نوعیت کے بالکل بھی نہیں ہیں بلکہ سعودی عرب کے ساتھ عالم اسلام کا اسلام کی بنیادپر رشتہ ہے ۔ یہاں حرمین شریفین ہیں جن کی حفاظت کی خاطر مسلمانوں کا بچہ بچہ کٹ مرنے کو تیار ہے۔عالم اسلام میں دہشت گردی کی آڑ میں ہونے والے حملوں پر پہلے ہی بہت اضطراب پایا جارہاہے اس طرح کے قوانین اس میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں ۔ امریکی صدر خود اس بل کی مخالفت کرچکے ہیں لیکن امریکی کانگریس سے اس بل کا منظور ہونا امریکہ کو دنیا میں تنہا کرنے کی ابتداء بھی ہوسکتا ہے۔
جاسٹا ایکٹ اور امریکہ سعودی عرب تعلقات - محمد عتیق الرحمن

تبصرہ لکھیے