ہوم << امام ابن تیمیہ پر الزامات کی حقیقت؟ کاشف نصیر

امام ابن تیمیہ پر الزامات کی حقیقت؟ کاشف نصیر

564549_3009762303274_1489617525_n مجھے امام ابن تیمیہ( رح) سے متعلق قاری حنیف ڈار کی تازہ تحریر میں سطحیت، لعن طعن اور فرقہ ورانہ عناد کے سوا کوئی دوسری شے نظر نہیں آئی۔ دولت اسلامیہ کی فکر کو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی فکر قرار دینا، دراصل دونوں ہی معروف افکار سے لاعلمی کا بین ثبوت ہے۔ ابن تیمیہ نے ہرگز ایسی زبردستی کی خلافت، خارجی طرز تکفیر اور شدت پسندی پیش نہیں کی، جیسی داعش نے فی زمانہ اختیار کر رکھی ہے۔ ابن تیمیہ کی چھ سو سال قدیم فکر سے صرف روایتی حنبلی، وہابی اور سلفی علماء ہی نہیں ابوالکلام آزاد، سید مودودی اور سید قطب ایسے جدید ذہن رکھنے والے علماء نے بھی استفادہ کیا ہے۔ ہمارے یہاں کے روایتی دیوبندی اور بریلوی علماء بھی اپنے حنفی اور صوفی پس منظر کے باوجود ابن تیمیہ کا ذکر عزت اور احترام سے ہی کرتے ہیں۔ خود قاری صاحب کے موجودہ مربی جاوید احمد غامدی صاحب تصوف کے باب میں فکر تیمیہ سے ہی متاثر ہیں۔اصطلاحات اور بیانیے چھوڑیں صاحب!اپنا مدعا واضح کریں
اگر دہشت گرد گروہوں کا مسلک، مشرب اور مذہب دیکھ کر ہی لعن طعن کرنا درست ہے تو صرف ابن تیمیہ ہی کیوں؟ پھر دیوبند مسلک اور اس کے اکابرین قاسم نانوتوی (رح)، محمودالحسن( رح) اور اشرف علی تهانوی (رح ) تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی، جنداللہ اور جماعت الاحرار کی کارروائیوں کے ذمہ دار ٹھہریں گے۔ پھر حزب اللہ، مہدی ملیشیا، سپاہ محمد اور حوثی باغیوں کی حرکتوں کو آئمہ اہل بیت اور خمینی سے جوڑا جائے گا۔ پھر القاعدہ کے حملوں کو اخوان المسلمون، سید قطب اور سید مودودی سے منسلک کیا جائے گا۔ لیکن فرقہ ورانہ عینک سے فکری بنیادوں کا تعین کرنا، سوائے تنگ نظری کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جو آگے چل کر قرآن کریم کو دہشت گردی کا" پرائم سورس" قرار دیتی ہے۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حکومت پر چڑھائی ہو یا سیدنا علی رضی اللہ سے بغاوت، بنو امیہ کا غصب اقتدار ہو یا بنو عباس کی سفاکیاں، آئمہ اہل بیت کا خروج ہو یا زید بن علی (رح) کے لیے امام ابوحنیفہ( رح )کی حمایت، ابن تیمیہ سے پہلے بھی خروج فی سبیل اللہ اور اصلاحِ مذہب کے نام پر ویسے ہی شمشیریں بے نیام ہوتی اور گردنیں کٹتی رہی ہیں جیسا کہ قاری صاحب کے بقول ُان کے بعد ُان کی فکر سے ہوئیں۔ پھر تکفیری رویے کو صرف ابن تیمیہ سے مخصوص کر دینا کہاں کی علمی دیانت ہے؟ پچھلے دنوں جامعہ اظہر کا ایک تحقیقی مقالہ نظر سے گزرا جس کے مطابق عالم اسلام میں سب سے زیادہ تکفیری رجحان برصغیر پاک و ہند میں پایا جاتا ہے، حالانکہ یہاں کے اکثریتی دیوبندی اور بریلوی مسالک تصوف کے علمبردار ہیں۔ صوفیان ِکرام کے اسی ہندوستان میں ایسی سیکڑوں مساجد ہیں، جہاں امن و محبت کے داعی صوفی حضرات دوسرے مکاتب فکر کے مسلمانوں کو داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ یاد رہے نہ تکفیری فتووں پر مبنی کتاب حسام الحرمین مرتب کرنے والے اعلی حضرت رضا احمد خان (رح ) ابن تیمیہ سے متاثر تھے اور نہ گورنر سلمان تاثیر کو ناحق قتل کرنے والا ممتاز قادری۔
تاریخ کے باب میں بهی موصوف کی سطحیت نے نہایت حیران کیا۔ موصوف نے ترکوں کے ساتھ شریف مکہ کی بے وفائی کو بھی آل سعود اور آل سعود کے واسطے براہ راست ابن تیمیہ کے کھاتے میں ڈال دیا۔ حالانکہ آل سعود کا واسطہ شیخ عبدالوہاب نجدی (رح ) کی دعوت سے تها نہ کہ براہ راست ابن تیمیہ سے۔ مزارات کے حوالے سے آل سعود اور داعش کے طرز عمل میں خوامخوا کی مماثلت پیدا کرکے ابن تیمیہ کو کٹہرے میں کھڑا کرنا بهی سمجھ سے بالاتر ہے۔ آل سعود نے مزارات کے انہدام اور شرک و بدعات کی روک تھام کے عنوان سے جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ اقتدار پر کامل قبضے کے بعد کا ہے۔ ہم اس پالیسی سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن انہیں ہرگز ان خودکش حملوں اور بم دھماکوں کے مساوی تسلیم نہیں کرسکتے جو پاکستان سے لے کر شام تک داعش سمیت مختلف گروہوں کا خاصہ ہیں۔
جب صفین کے میدان میں کچھ شدت پسند سیدنا علی رضی اللہ کو چھوڑ کر جدا ہوگئے تو ان کے کسی بھی فعل کے ذمہ دار سیدنا علی (رض) نہ رہے۔ سلف صالحین نے انہیں خوارج قرار دیا اور آج تک انہیں اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہم موجودہ دور میں بھی عالمی منظرنامے پر شرق سے غرب تک جہادی قوتوں، اسلامی تحریکوں اور مذہبی جماعتوں کے باطن سے شدت پسند گروہوں کو جدا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ان گروہوں کی بنیاد ان کے سخت گیر مزاج، کج فہمی، مخصوص زمینی حالات اور بعض عالمی معروضات سے منسلک ہیں۔ انہیں اپنی سابقہ تحریک یا کسی مسلک، مکتب فکر اور صدیوں پرانی علمی شخصیات کی دعوت سے نتھی کرنا ہرگز مناسب نہیں ہے۔خاص طور پر یہ طرزعمل کسی ایسے شخص کو زیب نہیں دیتا جو تحقیق اور اعتدال کا دعوی رکھے اور روایتی مولویوں پر تنگ نظری کا الزام عائد کرے۔

Comments

Click here to post a comment