ہوم << ٹوپی اور شانٹی کا قومی دن - احمد سلیم سلیمی

ٹوپی اور شانٹی کا قومی دن - احمد سلیم سلیمی

%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85 قومی روایات کسی بھی تہذیب کا رومانس ہوتی ہیں۔ اس سے قوموں کے رویوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی رویے آئینہ بن کر قوم کے اچھے اور برے چہرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ روایات وقت اور اس کی دھول میں گم قوموں کا پتا بتاتی ہیں۔گئے زمانوں کی گم گشتہ یادوں کو تازہ کرتی ہیں۔ ہم انہیں بھول کر بھی بھلا نہیں سکتے۔
یہ شہر تمنا یہ گلگت، اس کے دامن میں دکھوں، تلخیوں اور زہریلے رویوں کے شعلے بھی لپکتے رہے ہیں۔ خوشیوں، روایتوں اور خوش کن رویوں کی بارش بھی ہوتی رہی ہے۔ یہاں ایک ہی فضا میں سانس لینے والے ایک دوسرے پر زہر بھی تھوکتے رہے ہیں، اور یہی لوگ کبھی کھیتوں اور سڑکوں پر، کبھی بازاروں اور محفلوں میں، کبھی شندور، شاہی پولوگراونڈ اور چنار باغ میں ساتھ ساتھ ہنستے، جوش سے مسکراتے اور خوشیوں سے ناچتے بھی رہے ہیں۔
pic-03 ”شاپ“ ہو ”'نسالو“' ہو ”بوئے“ اور ”ڈاڈا“ ہو، یہ تہذیبی تہوار تھے۔ ان سے عوام کی اجتماعیت معلوم ہوتی تھی۔ ان کے سماجی رویوں کا پتا چلتا تھا۔ ان کے ذریعے گلگت کے لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوتے تھے۔ کبھی لباس ان کی پہچان تھا۔ ”شوکہ“، ”چنری“ دیسی ٹوپی اور شلوار قمیص ان کا تمدنی اثاثہ تھا۔ اس کا ایک اپنا حسن تھا۔ ایک رومانس تھا۔ اب وقت بدل گیا ہے۔ میڈیا کی چمک دمک نے تہذیبی رویوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ترقی یافتہ قوموں کی فاسٹ ٹیکنالوجی اور اس کے بھرپور استعمال نے ہماری جیسی کمزور قوموں کا کباڑا کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمارا کلچر، ہماری قدریں اور رسوم و رواج اپنی اصل سے دور ہو چکے ہیں۔ کیبل ٹی وی اور انٹرنیٹ نے ایک جدید کلچر کی بھیڑ چال سے آشنا کرا دیا ہے۔ پہلے ایک star plus کو قصوروار ٹھہرایا جاتا تھا۔ اب تو پاکستان کے سبھی چینل اپنے ڈراموں اور شوز سے بے چارے سٹار پلس کو بھی شرمندہ کرا رہے ہیں۔ مردوں کا بھی عورتوں کا بھی لباس، حلیہ،گفتگو اور حرکتیں غیروں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ہم کیا تھے؟ ہماری بھی کوئی تہذیبی پہچان تھی۔ ہم بھی کسی روایت کے امین تھے۔ مگر اب کیا ہیں؟ ایک بے ہنگم بھیڑ، جس کی اپنی کوئی سوچ نہیں۔ ویسے تو دنیا کی دیکھا دیکھی ہم بھی بھاگ رہے ہیں مگر بے سمت۔ المیہ یہ ہے کہ سب کچھ کھو کے بھی احساس زیاں نہیں۔ کبھی کے اچھے موسموں میں شاید قوم کی صورت تھے۔ مگر اب تو ٹکڑے اور کئی ٹولیوں میں تقسیم ہیں۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ہر ٹولہ اپنے علاوہ کسی کو کچھ مانتا ہی نہیں۔ اور کسی کی مانتا بھی نہیں۔ ایسے میں ٹوٹ پھوٹ تو ہونی ہی ہے۔
img_6311 اس ماحول میں وزیر اعلی گلگت بلتستان حفیظ الرحمن نے یکم اکتوبر کو ٹوپی اور شانٹی کے دن کے طور پر منانے کی روایت ڈالی ہے، جو اس لحاظ سے لائق تحسین ہے کہ ایک بھولی بسری اور متروک روایت کے احیا کی طرف یہ ایک قدم ہے۔ دیسی ٹوپی تو کئی ایک کے سروں پہ دکھائی دیتی ہے مگر اکثر بڑے بوڑھے ہوتے ہیں۔ کچھ کچھ ”فارغ البال“ جوان بھی بادل ناخواستہ پہنے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شانٹی کا رواج عام نہیں۔ کبھی کبھار اپنی شادی یا پھر کسی خصوصی تقریب کے تقاضے کے مطابق ٹوپی کی زینت بناتے ہیں۔
اب ایک اجتماعی شکل میں اس روایت میں نئے رنگ بھرے جا رہے ہیں تو اس کی قدر کرنی چاہیے۔ اسے لٹے قافلوں کی دھول میں گم ایک انمول یاد سمجھنا چاہیے۔ اسے اپنا کر اپنے تہذیبی رویوں کی بقا کے قافلے میں شامل ہونا چاہیے۔ سرکاری سرپرستی میں یہ دن منایا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اسے جبر اور بے دلی سے منائیں۔ یہ ہماری پہچان ہے، اس لیے شعوری ذوق بھی لازمی ہے۔ اس کے اندر سیاست، مفاد یا پھر حکومتی نیک نامی کا حربہ تلاش کر کے رنگ میں بھنگ ڈالنا دانش مندی نہیں۔ بالفرض ایسا ہے بھی تو مضائقہ نہیں کیونکہ اس کا زیاں اتنا نہیں، جتنا اپنی ثقافت کی احیا کا ایک موثر اظہار ہے۔
میں ناچیز بطور ایک قلمکار، اپنے ماضی کا حسن اکثر تلاش کرتا ہوں۔گئے رتوں کی بےخود کر دینے والی یادوں کا اسیر ہوں۔ اپنے آج میں سانس لیتا ہوں مگر گئے دنوں کی جنت میں رہتا ہوں۔گزرتی ساعتیں آگے دھکیل دیتی ہیں مگر گزری باتیں پیچھے کھینچ لیتی ہیں۔ یہ ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ خود میں ہو کر بھی خود سے کھویا کھویا ہوتا ہے۔ روح عصر زندگی کا احساس دلاتی ہے تو یاد رفتہ کبھی زندہ دلی اور کبھی زنداں دلی بن کر تڑپاتی ہے۔ اپنے آج میں کچھ اچھا نظر آتا ہے تو دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ پھر جب ماضی کی کوئی اچھائی نئے رنگ میں سامنے آتی ہے تو شوق سے دل دھمال کرنے لگتا ہے۔ اس ٹوپی شانٹی کی روایت بھی کچھ ایسی تاثیر کی اکسیر بنی ہے۔ امید ہے یہ محض سیاسی شعبدہ بازی نہیں ہوگی بلکہ گلگت بلتستان کی ثقافت، اس کے تہذیبی اور تمدنی رویوں کی حیات نو کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوگی۔

Comments

Click here to post a comment