یہ شہر تمنا یہ گلگت، اس کے دامن میں دکھوں، تلخیوں اور زہریلے رویوں کے شعلے بھی لپکتے رہے ہیں۔ خوشیوں، روایتوں اور خوش کن رویوں کی بارش بھی ہوتی رہی ہے۔ یہاں ایک ہی فضا میں سانس لینے والے ایک دوسرے پر زہر بھی تھوکتے رہے ہیں، اور یہی لوگ کبھی کھیتوں اور سڑکوں پر، کبھی بازاروں اور محفلوں میں، کبھی شندور، شاہی پولوگراونڈ اور چنار باغ میں ساتھ ساتھ ہنستے، جوش سے مسکراتے اور خوشیوں سے ناچتے بھی رہے ہیں۔
اب ایک اجتماعی شکل میں اس روایت میں نئے رنگ بھرے جا رہے ہیں تو اس کی قدر کرنی چاہیے۔ اسے لٹے قافلوں کی دھول میں گم ایک انمول یاد سمجھنا چاہیے۔ اسے اپنا کر اپنے تہذیبی رویوں کی بقا کے قافلے میں شامل ہونا چاہیے۔ سرکاری سرپرستی میں یہ دن منایا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اسے جبر اور بے دلی سے منائیں۔ یہ ہماری پہچان ہے، اس لیے شعوری ذوق بھی لازمی ہے۔ اس کے اندر سیاست، مفاد یا پھر حکومتی نیک نامی کا حربہ تلاش کر کے رنگ میں بھنگ ڈالنا دانش مندی نہیں۔ بالفرض ایسا ہے بھی تو مضائقہ نہیں کیونکہ اس کا زیاں اتنا نہیں، جتنا اپنی ثقافت کی احیا کا ایک موثر اظہار ہے۔
میں ناچیز بطور ایک قلمکار، اپنے ماضی کا حسن اکثر تلاش کرتا ہوں۔گئے رتوں کی بےخود کر دینے والی یادوں کا اسیر ہوں۔ اپنے آج میں سانس لیتا ہوں مگر گئے دنوں کی جنت میں رہتا ہوں۔گزرتی ساعتیں آگے دھکیل دیتی ہیں مگر گزری باتیں پیچھے کھینچ لیتی ہیں۔ یہ ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ خود میں ہو کر بھی خود سے کھویا کھویا ہوتا ہے۔ روح عصر زندگی کا احساس دلاتی ہے تو یاد رفتہ کبھی زندہ دلی اور کبھی زنداں دلی بن کر تڑپاتی ہے۔ اپنے آج میں کچھ اچھا نظر آتا ہے تو دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ پھر جب ماضی کی کوئی اچھائی نئے رنگ میں سامنے آتی ہے تو شوق سے دل دھمال کرنے لگتا ہے۔ اس ٹوپی شانٹی کی روایت بھی کچھ ایسی تاثیر کی اکسیر بنی ہے۔ امید ہے یہ محض سیاسی شعبدہ بازی نہیں ہوگی بلکہ گلگت بلتستان کی ثقافت، اس کے تہذیبی اور تمدنی رویوں کی حیات نو کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوگی۔
تبصرہ لکھیے