ہوم << شدت پسندی اور نیو اسلامی سیکولرز

شدت پسندی اور نیو اسلامی سیکولرز

دنیا میں شدت پسندی کی لہر کو کوئی سید مودودی ؒ کی فکر سے جوڑتا ہے، کوئی سید قطب کا نام لیتا ہے، کوئی دیوبند مکتب فکر کو منقار زیر پر رکھتا ہے، کوئی سلفی سوچ کو وجہ قرار دیتا ہے اور کوئی ابن تیمیہؒ سے اس کے ڈانڈے ملا دیتا ہے۔ اہل مغرب تو یہ کرتے ہی ہیں مگر ہمارے ہاں کے نئے اور پرانے سیکولرز اور ' نیو اسلامی سیکولرز' بھی دیکھا دیکھی یا سنی سنائی میں یہ راگ الاپ دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں کوئی بیانیہ ہوتا ہے جس سے تشدد پسند فکر غذا حاصل کرتی ہے برادر مکرم عمار خان ناصر نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہے، اور ان کا کہنا درست ہے۔ ISIS-Trucks-998x599
ایک بنیادی بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اور وہ ہے عمل، جو کسی فکر سے زیادہ ردعمل کا موجب بنتا ہے۔ دونوں لمحہ موجود میں جنم لیتے ہیں، تجزیہ کرتے ہوئے وقت موجود کے عمل اور معروضی حالات کا جائزہ لیا جائے گا اور اس سے نتائج اخذ کیے جائیں گے تو درست نتیجہ پر پہنچا جا سکے گا۔ جدت پسندی کے شوق میں مبتلا حضرات ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ صدیوں پرانی روایت کو چھوڑ دو اور جدت کے ساتھ قدم سے قدم ملائو مگر ضرورت پڑے تو خود گزری صدیوں سے تانے بانے ملانے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے، اور اپنے ہی اس بیانیے سے متعلق خیال نہیں رہتا کہ دنیا اب بدل گئی ہے اور بدلے ہوئے بھی صدیاں ہونے کو ہیں۔ اگر اہل مغرب کی گزشتہ صدی کی استعماریت کو ماضی سمجھ کر نظرانداز کر دیا جائے، امریکہ نے گزشتہ صدی میں دنیا بھر میں جو جنگیں مسلط کیں، اسے بھی ایک طرف رکھ دیا جائے، سوویت یونین نے کیا گل کھلائے اور اسرائیل اور بھارت کے جاری مظالم سے بھی نظریں ہٹا لی جائیں تو بھی اس وقت دنیا میں موجود انتہا پسندی کے پیچھے گزشتہ دہائی کی امریکہ و مغرب کی ریاستی دہشت گردی اور تشدد کی پالیسی ہے۔ اکثر و بیشتر مسلم ریاستوں نے بھی اس کا ساتھ دیا ہے۔ اس ایک دہائی سے پہلے اور مابعد کے ماحول کو دیکھ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ دنیا میں اس وقت جو تشدد نظر آتا ہے، اس کا تعلق کسی مکتب فکر سے نہیں بلکہ امریکہ و مغرب کے مسلم علاقوں پر حملوں اور حکومتوں کے خاتمے سے ہے۔ en-destruction-in-iraq2
افغانستان پر حملہ کرکے اس حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا جس نے ایک طویل عرصے کے بعد وہاں امن قائم کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے افغانستان اور پاکستان جس صورتحال کا شکار ہیں وہ ہمارے سامنے ہے۔ صدام حسین کو بھی جھوٹ کی بنیاد پر ہٹایا گیا۔ خود برطانوی انکوائری کمیشن نے اس کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔ پورے ملک کو تباہ کر دیا گیا، لاکھوں لوگ قتل اور شہر کے شہر برباد ہوئے، اور ملک کے ملک کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگے ہیں۔ بربادی کے اس ملبے سے دولت اسلامیہ و دیگر تنظیموں نے جنم لیا، پورا عرب خطہ اور یورپ اب جن کے نشانے پر ہے۔damaged-buildings-syrian-civil-war دولت اسلامیہ میں سابق عراقی فوجی شامل ہیں، وسعت اللہ خان نے بی بی سی پر اپنے حالیہ تجزیے میں آنکھوں دیکھا احوال بیان کرکے اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسے پال بریمر کے ایک حکم کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ نہ کیا جاتا یا کر دیا تھا تو اس کی ریاستی مشینری کو برقرار دہنے دیا جاتا تو اس انتہا پسندی سے بچا جا سکتا ہے، دنیا کو اس وقت جس کا سامنا ہے، اور جو عراق پر اس بلاجواز جنگ کے مسلط کرنے سے آئی ہے، جس کا ازالہ مغربی دنیا صرف ' سوری' کہہ کر کرنا چاہتی ہے۔ یہی عمل لیبیا میں دہرایا گیا، اور وہاں کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔
مغرب کے خوشہ چیں سیکولرز کا پروپیگنڈہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر اس باب میں بھی ' نیو اسلامی سیکولرز' کا پلڑا انھی کی جانب جھکا ہوا ہے، ایک لمحے کو اسے بدنیتی پر محمول نہ کیا جائے تو بھی انسان حیران ہوتا ہے کہ ان کا پلڑا ہمیشہ دوسری جانب کیوں جھکا رہتا ہے، دین اور اسلام کا نام لیتے ہیں تو کچھ تو مسلمانوں کے حق میں بھی آنا چاہیے۔ نئے بیانیے کی ترتیب میں کیا ضروری ہے کہ سیکولرزم کا حلیف بنا جائے، امریکہ و مغرب کو چھوٹ کیا، ایک لحاظ سے ان کا دفاع کیا جائے اور اپنا وزن ان کے بیانیے میں ڈال دیا جائے۔ کیا اس طرح سے کوئی نیا بیانیہ تشکیل پا سکتا ہے؟ اسرائیل اور بھارت میں تو آپ مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ ان کا طرزعمل درست نہیں، کوئی جواز اس کے بارے میں گھڑا جا سکتا ہے، مگر عراق، لیبیا اور شام وغیرہ کو کیسے کسی بیانیے کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ وہ تو وہاں کے معروضی حالات کا نتیجہ ہے۔ سبب اور خالق اس کے مغربی ممالک ہیں اور وہی اس کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور اسے بعض ممالک نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کےلیے پراکسی جنگ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہوگا کہ نئے بیانیے کی ترتیب آپ کی نہیں، ایک ظالم اور جارح کی ضرورت ہے اور اس کے ظلم اور عمل سے پردہ پوشی کر کے اس کے نتائج پر ذمہ داری ڈالی جا رہی ہے، اور اس کے لیے دور سے کوڑیاں لائی اور ملائی جا رہی ہیں۔ مسلم معاشرے میں اس طرز کے بیانیے کا مقدر حسب سابق ناکامی ہی ہے

Comments

Click here to post a comment