ہوم << تدبیر اولیٰ - ابو محمد مصعب

تدبیر اولیٰ - ابو محمد مصعب

12003294_10204732813258553_3770925726005018371_nمیرا ایک افغانی دوست ہے۔ عیال دار ہے۔ محنت مزدوری کرکے کنبہ پروری کرتا ہے۔ دبئی سے کوئی ستر کلومیٹر دور ایک چھوٹے سے قصبہ میں رہائش رکھی ہوئی ہے۔ عربی اچھی بول لیتا ہے اس لیے یہاں کی لوکل آبادی کے ساتھ بھی گہرے مراسم ہیں۔ ان کے مزاج اور کلچر کو سمجھتا ہے۔ میں نے سوچا کہ اس بار کیوں نہ عید اس کے ساتھ منائی جائے۔ یہ سوچ کر عید کی رات رخت سفر باندھ لیا اور جا پنہچا اس کے آستانے پہ۔
رات کو دیر تک گپ شپ ہوتی رہی اور نماز فجر سے کوئی ایک گھنٹہ قبل میں نے کمر سیدھی کرنے کی اجازت چاہی۔ آذان فجر ہوئی تو اس نے مجھے آواز دے کر اٹھایا، میں نہایا دھویا اور گھر کے قریب ہی مسجد میں نماز فجر پڑھی۔ یہاں چوں کہ سورج نکلتے ہی عید کی نماز ادا کرلی جاتی ہے، لہٰذا تھوڑی دیر کے لیے گھر واپس آئے، پھر واپس مسجد گئے اور نماز عید ادا کی۔ نماز کے بعد اس نے مجھے دن کے شیڈول سے مطلع کیا۔ پھر ہم دونوں اس کی گاڑی میں سوار ہو کر پانچ منٹ کی ڈرائیو پر اس کے ایک ہم وطن دوست کے گھر پنہچ گئے۔ جہاں ہم سے پہلے ہی کچھ لوگ، افغان روایت کے مطابق فرشی نشست پر تشریف رکھتے تھے۔ ایک وسیع دسترخوان تھا جس کے چاروں کناروں پر پھلوں کے بڑے بڑے طشت، انواع اقسام کے میووں سے بھرے رکھے تھے۔ چائے کے تھرماس اور کپ، ایک ترتیب کے ساتھ دھرے تھے۔ بڑی بڑی گول رکابیوں میں لبنانی بیکری کے بسکٹ بھی وہیں جڑے تھے۔ پشتو کی تو ہمیں سدھ بدھ نہیں اس لیے گفتگو میں کم ہی حصہ لیا، البتہ کھانے کی چیزوں کے ساتھ ہم نے خوب انصاف کیا۔ کوئی ایک گھنٹہ وہاں رہنے کے بعد ہمارے دوست نے اجازت چاہی اور پھر قریب ہی ایک دوسرے افغان دوست کے گھر میں جا گھسے۔ وہاں بھی وہی ماحول تھا۔ فرشی نشست۔ گاؤ تکیے۔ انواع اقسام کی پر تکلف ماکولات۔ ایک گھنٹہ وہاں گزارنے کے بعد گھر کی طرف چل پڑے۔ تھوڑی دیر کے لیے آرام کیا۔ اتنے میں ظہر کی نماز کا وقت بھی ہوا چاہتا تھا۔ نماز کے بعد دوست نے گاڑی اسٹارٹ کی اور کہنے لگا کہ چلو!۔ میں نے پوچھا، کہاں؟ کہنے لگا اسی گھر میں کھانے کے لیے۔ میں نے حیران ہوکر کہا: کھانا؟ تو پھر یہ کیا تھا جو ہم نے ابھی دو تین گھنٹے قبل کھایا تھا؟ کہنے لگا، او بھائی یہ بھی کوئی کھانا تھا، یہ تو بس ایسے ہی مہمان نوازی تھی۔ کھانا اب ہے۔ کوئی خاص طلب تو نہیں تھی مگر جانا پڑا۔ کہ ہمارے افغان بھائی مہمانوں کو گن پوائنٹ پر چلاتے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم کھانے والی جگہ پر پنہچ گئے۔ دس بارہ افراد پہلے ہی سے موجود تھے۔
افغان کلچر کے مطابق جب بھی کوئی فرد مجلس میں داخل ہوتا تو باآوازِبلند سلام کرتا اور تمام اہل مجلس اپنی اپنی جگہوں سے اٹھ کر کھڑے ہوتے۔ اس کے بعد ایک ایک فرد سے ملتا۔ بیٹھنے کے بعد، نیا آنے والا فرد ایک فرد کی طرف متوجہ ہو کر کچھ الفاظ کہتا جو مجھے تو کچھ اس طرح لگے:
حاجی صیب، جوڑ اے، تکڑا اے، راضی اے وغیرہ۔ یہ عمل وہ باری باری سب کے ساتھ کرتا۔ اگر مجلس میں دس افراد پہلے سے موجود ہوں اور پانچ نئے افراد آ جائیں تو یہی کچھ کرتے ہیں۔ ہر فرد دوسرے کی طرف دیکھ کر اسی طرح حال احوال پوچھ رہا ہوتا ہے اور ایک ہی وقت میں جب پانچ افراد دس افراد کو مخاطب کرکے یہ مشق کر رہے ہوں تو یہ منظر بڑا دلچسپ ہوتا ہے جس کو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے، الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا لگتا ہے کہ چاروں طرف سے ایک دوسرے کے اوپر فرینڈلی کراس فائر ہو رہے ہیں۔
کھانے میں صرف ایک سالن کی ڈش باقی افغانی پلاؤ جس پر کشمش کے دانے چمک رہے ہوتے ہیں۔ بغیر مسالے کے بھنا ہوا گوشت جو اتنا لذیذ کہ آدمی انگلیاں چاٹتا رہ جائے۔ چاہے جتنا کھالے نہ چبانے میں مشکل نہ معدے پہ بھاری۔ الگ پلیٹ میں کھانے کے بجائے، دو دو افراد مل کر ایک رکابی میں کھاتے ہیں اور آپس میں گپ شپ بھی کرتے جاتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو مشرقی کلچر کے ان پرخلوص مناظر نے روح کو وہ سرور بخش دیا ہے کہ وجدان اب تک اس کی سرشاری کی لذت میں جھوم رہا ہے۔
میرا یہ افغانی دوست بھی عجیب شے ہے۔ محفل کی رونق اور زندہ دل انسان۔ روزگار کا کوئی خاص ذریعہ نہ ہونے کے باوجود ہمیشہ خوش و خرم اور مطمئن رہتا ہے۔ میں نے توکل کا سبق اسی سے سیکھا ہے۔ اس کے بروقت اور چست جملے بڑے زبردست ہوا کرتے ہیں اسی لیے یہ اپنے ہم وطن لوگوں میں بہت جلد مقبول ہوگیا ہے۔ مگر اس کی ایک علت ہے جو کہ تقریباََ ہر پشتون کے اندر پائی جاتی ہے وہ ہے نسوار کی عادت۔ محفل میں بیٹھتے ہی سب سے پہلا کام یہی کرتا ہے کہ چٹکی لے کر ہونٹ کے نیچے دبا لیتا ہے۔ پھر وہیں پڑے اگدان میں اگلتا رہتا ہے۔ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بھی باز نہیں آتا۔ ابھی بتا رہا تھا کہ میرے ساتھ ایک بہٹ بڑا حادثہ ہوگیا۔ میں ڈر گیا اور پوچھا، کیا ہوا۔ کہنے لگا، رمضان میں میری نسوار ختم ہوگئی پھر بڑی مشکل سے ایک دوست سے لے کر آیا۔ آج ہی جب نماز ظہر کے لیے آذان ہوچکی اور میں وضو کے لیے اٹھا تو اس نے نسوار لے کر منہ میں ڈال لی۔ میں نے کہا: بندہء خدا!، ادھر تکبیر اولیٰ ہونے والی ہے اور تم نے نسوار منہ میں رکھ لی ہے؟ کہنے لگا کہ تکبیر اولیٰ سے قبل یہ ’’تبدبیراولیٰ‘‘ کرنی پڑتی ہے۔ اور میں مسکرا کر رہ گیا۔
باتوں باتوں میں یہاں کے عربوں کی اچھائیاں گنوانے لگا۔ کہنے لگا آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ ان میں کتنے خداترس اور اچھے لوگ موجود ہیں جو راہ خدا میں اس خاموشی سے مال خرچ کرتے ہیں کہ ایک ہاتھ کی خبر دوسرے کو نہیں ہوتی۔ بتا رہا تھا کہ میرے ساتھ اکثر یہ ہوتا ہے کہ جب میں بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے گیا تو میرے حساب سے تین چار ماہ کا بل میرے ذمہ تھا۔ لیکن مجھے بتایا گیا کہ تمہارا بل کسی شخص نے ادا کردیا ہے۔ اس کے بعد ایک بار پھر یہی ہوا۔ کسی اللہ کے بندے نے میرا بل ادا کردیا اور میں اب تک سوچتا رہتا ہوں کہ کون فرشتہ صفت ہے جو مجھ پر اتنا مہربان ہے۔
کہنے لگا کہ یہاں ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جو اسکولوں میں جاتے ہیں اور اپنا تعارف کروائے بغیر انتظامیہ سے ان بچوں کے ناموں کی فہرست طلب کرتے ہیں جن کے ذمہ اسکول کی فیس ہو۔ پھر اپنی طرف سے ان کی فیس ادا کرکے رسید لے کر چلے جاتے ہیں۔ نہ اپنا نام بتاتے ہیں اور نہ ہی بچے کو یا اس کے والدین کو معلوم پڑتا ہے کہ کس نے ان کے واجبات ادا کیے۔
اسی طرح کریانہ کی دوکانوں اور گروسریوں پہ چلے جاتے ہیں۔ دوکاندار سے مقروضوں کی لسٹ لیتے ہیں۔ کئی نام ہوتے ہیں جن کے آگے معمولی معمولی رقوم لکھی ہوتی ہیں۔ یہ لوگ وہیں کھڑے کھڑے ان غریب لوگوں کے بقایہ جات ادا کر دیتے ہیں۔ ان کے بقول یہ ہیں وہ اصل مستحق افراد جو بھکاری نہیں، لوگوں کے پیچھے پڑ کر پیسے نہیں مانگتے مگر اتنی آمدن بھی نہیں رکھتے کہ سو پچاس کی رقم ادا کرسکیں، لہٰذا ایسے افراد کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔
سچ ہے کہ یہ دنیا یوں ہی نہیں چل رہی، اللہ کے ہزاروں نیک بندے ایسے ہیں جو محتاجوں اور مسکینوں کی مدد اس طرح کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کی عزت نفس مجروح ہونا تو درکنار ان کو خبر تک نہیں ہوتی کہ کون فرشتہ ان کی دستگیری کر گیا۔