ہوم << بھاری مینڈیٹ اور سیاسی جماعتیں - ارشدزمان

بھاری مینڈیٹ اور سیاسی جماعتیں - ارشدزمان

ارشد زمان پاکستان پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ کہتے ہیں کہ لیگی اس وقت کہاں تھے جب لاہور کے مال روڈ پر کلثوم نواز کو گاڑی سمیت کرین کے ذریعے اٹھا کر کئی گھنٹے لٹکائے رکھا گیا اور ان کی تذلیل کی گئی۔
وہ منظر اور وقت ساری دنیا کو یاد ہے جب جنرل پرویز مشرف نے بھاری مینڈیٹ کی حامل حکومت پر شب خون مارا، منتخب وزیراعظم کو نہ صرف پابند سلاسل کیا گیا بلکہ انتہائی ذلت امیز سلوک بھی کیا گیا. جب نواز شریف کو پتہ چلا کہ تمام موسمی بٹیرے ادھر ادھر بھاگ نکلے ہیں اور ”جانثاران“ اور ”فدایان“ بلوں میں گھس گئے ہیں اور سب اپنی جان بچانے کی فکر میں ہیں تو بھاری مینڈیٹ کے حامل وزیراعظم کو جلاوطنی کی ڈیل کرنی پڑی. ایک عرصہ بعد جب انھوں نے وطن واپسی کا اعلان کیا اور انھیں توقع تھی کہ اب لیگی فدائین دما دم مست قلندر کرکے انھیں کندھوں پر بٹھا کر ائیرپورٹ سے باہر لائیں گے مگر ان کے یہ سب ارمان خاک میں مل گئے، کوئی بھی باہر نہ نکلا اور انھیں ”باعزت“ طریقے سے جہاز میں بٹھا کر واپس سعودی عرب بھیج دیا گیا۔
مسلم لیگی سیاستدانوں نے نوازشریف کا ساتھ دینے کے بجائے ق لیگ کی چھتری تلے جمع ہوکر پرویزمشرف کو کاندھوں پر بٹھایا۔ اس پورے عرصے میں صرف ایک باغی مزاج جاوید ہاشمی کھڑا رہا مگر انھیں بھی بےچارگی سے دوچار کر دیا گیا، کوئی اور ایک نحیف آواز بھی نوازشریف کے حق میں بلند نہ ہوسکی۔
جناب کائرہ نے اگرچہ مسلم لیگیوں پر پھبتی کسی ہے اور طنز کے نشتر چلائے ہیں مگر بات تو صد فیصد درست کہی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ یہ کہتے وقت انھیں پیپلزپارٹی کا ماضی بھی یاد رہا ہوگا جب وقت کے بےباک، جارح مزاج، دبنگ سول ڈکٹیٹر، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پابند سلاسل کیاگیا، پھر پھانسی کی تیاریاں ہو رہی تھیں تو خیال تھا کہ اگر لاکھوں نہیں تو کم از کم ہزاروں جیالے جان ہتھیلی پر رکھ کر سڑکوں پر نکل آئیں گے، اگرچہ چند جانثاروں نے باقاعدہ خود سوزی کا اعلان بھی کیا تھا مگر بھٹو صاحب سولی پر جھول گئے اور خود سوزی کیا کوئی مؤثر احتجاج بھی نہ ہوسکا۔
میاں نوازشریف ہوں یا قمر زمان کائرہ، پرویزمشرف ہوں یا الطاف حسین یا ہمارے قبلہ خان صاحب، سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ مختلف ہتھکنڈوں، چالوں، منصوبوں، لالچ، دھونس، دھاندلی اور خوش نما نعروں کے ذریعے عوام کو ورغلا کر ان سے ووٹ تو حاصل کیا جاسکتا ہے مگر یہ توقع رکھنا کہ گرفت میں آتے ہی کوئی ان پر اپنی جان نچھاور کرے گا، یہ خیام خیالی اور احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
اسلامسٹ صدر مرسی اور طیب اردگان کا معاملہ الگ ہے کہ وہاں نظر بھی ہے، فکر بھی ہے، شخصیت بھی ہے، کردار بھی ہے اور تحریک بھی جبکہ یہاں تو سب کچھ الٹ ہے۔
جانیں ایسی تو نچھاور نہیں کی جاتیں۔