ہوم << مستنصر حسین تارڑ کے نام - عظمیٰ طور

مستنصر حسین تارڑ کے نام - عظمیٰ طور

چند سال قبل میں اندھیرے میں ڈوبے کمرے میں بیٹھی دروازے کی درز سے آتی روشنی میں کتاب ہاتھ میں لیے ہر سطر کے بعد کسی خیال میں ڈوب کر اس مقام پر پہنچ جاتی جہاں وہ سطر ٹھہری ہوتی. ورق پہ پھیلے لفظ مجھے جمع کرنے پڑتے تھے. بار بار اور ہر بار دھیان کی گرہ لگا کر اس کے سہارے صفحوں کی چوٹی سر کرنا پڑتی تھی. میرا تخیل میری پختگی پہ سر اٹھائے مان کرتا تھا. میرے ارد گرد برف کی ٹھنڈک میرے ناخن نیلے کرتی تھی. مجھے میرے پیروں میں برف پانی چلتا محسوس ہوتا تھا. میں ہر صفحے کے بعد آنکھیں بند کیے لمبی لمبی سانس کھینچتی اور اپنے تخیل کے گرد شالیں لپیٹتی تھی. پھولوں سے ٹکرا کر آتی صفحوں پہ محسوس ہوتی ہوائیں مجھے اکساتیں، بہلاتیں، رلاتیں.
میں آج بھی بک شیلف کے قریب رکھی کرسی پہ بیٹھی کتاب ہاتھ میں لیے وہی سوال دہراتی ہوں جو کئی سال قبل دل بچے نے پوچھا تھا.
”زندگی کیا ہے سر“
زندگی پہاڑ ہے؟
زندگی جھیل ہے؟
جھیل کا پانی ہے؟
یا پانی پہ چلتی ناؤ ہے؟
چپو ہے یا سیفٹی جیکٹ ہے؟
کوئی برفیلی چوٹی ہے؟
پھولوں میں سے ہو کر گزرتا رستہ ہے؟
زندگی جوگرز میں مقید سفر کی چاہ کرتے پاؤں ہیں؟
یا ہائیکنگ اسٹک ہے؟
زندگی خطرناک پُل سے گزرنے کے لمحے کو گزرنے دینے کا نام ہے؟
زندگی برف کی سفیدی ہے؟
برف کی ٹھنڈک ہے؟
یا برف کے موسم میں کسی مہربان کی سلگائی ہوئی آگ ہے؟
زندگی سبزے سے پھوٹتا گلاب ہے؟
زندگی نیلے رنگ کی طرح پھیلا باب ہے؟
زندگی گاڑی کا وہ پہیہ ہے جو زور پر گھسنے لگتا ہے؟
یا پھر نیچے اترتے ہوئے بریک کو کنٹرول کرنے کا ہنر ہے؟
زندگی کونسا گیئر ہے؟؟
زندگی بیک ویو مرر تو نہیں؟؟
زندگی گرم کمرے میں بیٹھ کر قلم کی سیاہی سے دامن بھرتے کاغذ کی پھڑپھڑاہٹ ہے؟
یا ہاتھ میں پکڑی کتاب ہے؟؟