ہوم << لاشیں انقلاب نہیں لاسکتیں - شیخ خالد زاہد

لاشیں انقلاب نہیں لاسکتیں - شیخ خالد زاہد

شیخ خالد زاہد تمام حسیات کا تعلق انسان کی روح سے ہے۔ جب روح جسم کا ساتھ چھوڑ دے تو جسم کو لاش کہا جاتا ہے۔ دنیا کے ہر دین و مذہب میں لاش کو ٹھکانے لگانے کا الگ الگ طریق کار رائج ہے۔ لاشوں کو مسخ کردو، کاٹ کر پھینک دو، جلا دو ، بےحرمتی کرو، چیل کوؤں کو کھلا دو، ان کی بلا سے۔ لاشوں کے ساتھ جو دل چاہے سلوک کرو۔ لاش تو لاش ہوتی ہے، اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دور ِحاضر کی ایک جدید ایجاد مشینی انسان (روبوٹ) ہے جس میں برقی توانائی سے حرکت پیدا کی جاتی ہے۔ روبوٹ آپ کے کاموں میں بتدریج بھرپور ساتھ دیتا ہے بلکہ انجام دیتا ہے، مگر یہ مشینی انسان محبت اور نفرت سے آزاد ہوتا ہے۔ یہ کسی کے ملنے کی خوشی اور بچھڑنے والے کے غم سے آزاد ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ انسان کے زندہ ہونے کی دلیل بغیر روح کے ناممکن ہے۔ روح ہے تو محبت بھی کرے گی اور نفرت کا اظہار بھی برملا کرے گی، ملنے کی خوشی اور بچھڑنے والے کا ماتم بھی کرے گی۔
جسم کو لاش کے مرتبے پر اس وقت فائز کیا جاتا ہے جب اس کا عملِ تنفس بند ہوجائے، جب وہ بےحس اور بےجان ہو جائے، کسی عمل سے کوئی ردِ عمل نہ آئے۔ دیگر عزیز و اقارب کو مطلع کیا جاتا ہے، تہجیز و تدفین کا انتظام بڑے منظم طریقے سے سرانجام دیا جاتا ہے، پھر ایک وقت آتا ہے کہ مرنے والے کی لاش کو اس کی آخری آرام گاہ تک لے جایا جاتا ہے، اور پھر لحد کے سپر د کرکے دیگر امور کی تیاری شروع کی جاتی ہے۔
مذکورہ بالا معاملات طبعی موت کے حوالے سے لکھے گئے۔ اب اگر کوئی جیتے جی بےحس و بے حرکت ہوجائے، کسی عمل پر کوئی ردِعمل ظاہر نہ کرے، اور مزے سے سانس لیتا رہے، کہیں کوئی مردہ دیکھا تو منہ دوسری طرف کر کے آگے بڑھ جائے، کہیں کسی کو مار کھاتا دیکھے تو راستہ بدل کر چلا جائے، کوئی آپ کے سامنے آپ کی جیب سے پیسے نکال لے، آپ اسے مسکرا کے اپنی دوسری جیب کا احوال بھی بتا دیں، کسی کی موت پر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر سمجھ لینا کہ تمام فرائض ادا ہوگئے، زیادتی ہوتے ہوئے دیکھنا زیادتی کرنے کے مترادف ہے۔ اپنے محلوں میں بیرئیر یا ڈنڈے نصب کرنے سے کیا آپ محفوظ ہوگئے۔ کیا آپ کا دفترمحلہ میں ہی ہے۔ کیا آپ کے بچے کا اسکول پڑوس میں ہی ہے۔ کیا ڈاکٹر آپ کے سامنے والے مکان میں بیٹھتا ہے۔ کیا دھوبی کے لیے، پرچون، گوشت، سبزی وغیرہ کے لیے کہیں نہیں جانا۔ جانا ہے سب کو کہیں نہ کہیں جانا ہے۔ بیرئیر اور یہ ڈنڈے آپ کی کچھ حفاظت نہیں کر سکتے۔
ہم لوگ انقلاب کی باتیں کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ابھی انقلاب کا وقت نہیں آیا۔ کوئی کہتا ہے کہ انقلاب آنے کے لیے یہ ہونا باقی ہے۔ کوئی کہتا ہے یہ ہونا باقی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ایران میں انقلاب آیا، کوئی فرانس کے انقلاب کی باتیں کرتا ہے، کسی نے کہا کہ انقلاب عرب ریاستوں میں پہنچ گیا تو اب پاکستان کی باری ہے۔ میں صرف اتنا جاننا چاہوں گا کہ کیا انقلاب باتوں سے آتا ہے۔ کیا انقلاب ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر آہستہ آہستہ میز بجانے سے آتا ہے۔ کیا انقلاب بلٹ پروف گاڑیوں میں گھومنے سے آتا ہے۔ کیا انقلاب معاملات کو دبانے سے آتا ہے۔ کیا انقلاب کمیشن کھانے سے آتا ہے۔ کیا انقلاب اپنے اثاثے دشمن کے ہاتھ فروخت کرنے سے آتا ہے۔ کیا انقلاب اپنے ملک کے ہیروز کو غدار ٹہرانے سے آتا ہے۔
میں تو انتہائی دکھ کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ لاشیں انقلاب نہیں لاسکتیں۔ ہماری روحیں ہماری ہڈیوں کے پنجر سے آزادی پا چکی ہیں۔ شاید انہیں ان ہڈیوں کے پنجر سے کراہت آتی ہوگی۔ آج ہم لوگوں میں وہ تمام کمزوریاں جو معاشرے اور اخلاقیات کے تنزلی کا ماضی میں سبب بنی ہیں، ہمارے اندر جڑیں بنا چکی ہیں، اور کسی چیز کو جڑ سے نکالنا کتنا مشکل کام ہے، یہ ہم سب جانتے ہیں۔ تو ہمیں اپنے آپ کو لحد کے حوالے کردینا چاہیے۔ خود اپنے لیے اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھود لینی چاہیے۔ ہم نے قدرت کی عطا کردہ عقل کو بیچ دیا ہے۔ ہم نے اپنی اقدار دفن کر دی ہیں۔ ہم ان بےروح جسموں کو لیے سڑکوں پر بھلے بیٹھے رہیں۔ کوئی فرق نہیں پڑنے والا کیونکہ لاشیں انقلاب نہیں لاسکتیں۔

Comments

Click here to post a comment