سی پی این ای کا لاہور میں اجلاس تھا جس میں خبریں گروپ کے سربراہ ضیاء شاہد نے کہا کہ ایسے ملازمین جو معاشی طور پر کمزور ہیں، ان کو مستحکم کر نے کے لیے اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ میڈیا سے وابستہ حلقے بخوبی جانتے ہیں کہ صحافتی کارکنان کا معاشی طور پر سب سے زیادہ استحصال اگر کسی ادارے میں ہوا ہے، تو وہ خود ضیاء شاہد کا ملکیتی خبریں گروپ ہے۔
عمران خان نے کرپشن کے خلاف ملک گیر مہم شروع کر رکھی ہے، جبکہ کرپشن میں لتھڑے لوگ ان کے دائیں بائیں ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔
مولانا طاہر اشرفی چیئرمین علماء کونسل ہیں، یعنی کہ معاشرے کی اصلاح کے ٹھیکیدار، اور کس کو نہیں کہ کیا چیز ان کی سب سے بڑی کمزوری ہے، اور کس کے نشے میں مدہوش وہ کئی دفعہ سڑک پر پائے گئے ہیں۔
ملک میں موجود سیاسی جماعتیں (سوائے جماعت اسلامی کے ) جمہوریت کا اتنا راگ الاپتی ہیں کہ سن سن کر کان پک گئے ہیں اور اس بات کو کون نہیں جانتا کہ جمہوریت تو پارٹیوں میں نہیں ہے، ون مین شو کے زیراثر پارٹیاں اپنی سوچ میں جمہوری خیال نہیں لا سکتیں، حقیقی جمہوریت کی توقع بے سود ہے۔
پہلے ”بناتے“ ہیں ، پھر ”ختم“ کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں اور دوسری صورت (ختم کرنے کی صورت میں ) میں ملک بھر سے تحسین بھی سمیٹی جاتی ہے۔ فاٹا سے کراچی تک اس کی کئی مثالیں ہیں۔ لیکن اگر کوئی سوال کر لے کہ بنایا ہی کیوں تھا؟ تو غداری کا سرٹیفیکٹ تھما دیا جاتا ہے، یعنی سوال تک سننے کے رودار نہیں۔
ملک کے وزیراعظم کی ذاتی ”اسٹیل ملیں“ کامیاب اور نفع دے رہی ہیں، اور ملک کی ”اسٹیل مل“ خسارے میں ہے اور ملازمین کو چھ چھ ماہ تنخواہ کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
وزیراعلی پنجاب سادگی اور کفایت شعاری کا جتنا چرچا کرتے ہیں، لیکن قومی خزانے سے شریف خاندان کی سکیورٹی پر آٹھ سال میں سات ارب سے زائد رقم لگائی جا چکی ہے۔
کسان پیکیج کے نام سے ملک بھر میں جتنے اشتہار پنجاب حکومت نے دیے، اتنے ہی مظاہرے کسانوں کے پنجاب حکومت کے خلاف ہوئے ہیں۔
بلاول زرداری ایسے وقت میں سندھ فیسٹیول پر اربوں خرچ کر رہے ہیں جب تھر میں بھوک سے بلکتے بچے مر رہے تھے۔
یہ ایک سطحی سا خاکہ ہے، ان تضادات کا جو آئے روز ہم دیکھتے، سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔ لیکن ملکی سطح پر سیاسی جماعتیں اور ادارے ہی تضادات کا شکار نہیں ہیں، بلکہ پورا سماج تضادات میں لتھڑا نظر آتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ تضاد ہمارے معاشرے میں دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور اس کو بغیر کسی کڑواہٹ یا تلخی کے قبول کر لیا گیا ہے۔ حالات اسی ڈگر پر چلتے رہے، اور رویوں اور فکرمیں تبدیلی نہ لائی گئی تو ہم اپنے ہی تضادات کے ملبے تلے دب جائیں گے۔
(ساجد ناموس دنیا نیوز سے وابستہ ہیں اور معاشرتی مسائل پر لکھتے ہیں)
تبصرہ لکھیے