ہوم << شاگرد تو بس شک پھیلانا چاہتا ہے - مولوی انوار حیدر

شاگرد تو بس شک پھیلانا چاہتا ہے - مولوی انوار حیدر

مولوی انوار حیدر شاگرد: فرض کریں آپ کا واجب الادا ایک ہزار روپیہ میں نے ادا کردیا ہے۔
استاد: ٹھیک ہے، کرلیا فرض، تو؟
شاگرد: تو جائیے یہاں کیوں کھڑے ہیں۔
ایسا ہی آج کل کے خودساختہ دانشور کرتے ہیں۔ فرضی کہانیاں اور خیالی باتیں، نہ بنیاد نہ بِیم مگر چھت ڈال دی جاتی ہے، جیسا کہ
√ شاگرد نے فرض کرلیا کہ پاکستانیوں کے نزدیک دوقومی نظریہ کی بقا جنگ و جدل پہ ہی منحصر ہے لہذا جنگِ مسلسل لازم ہے اور ہندوستان سے ہمسائیگی مفاہمت، رواداری اور صلح جوئی کی کوئی ضرورت نہیں۔ حالانکہ دوقومی نظریہ کی ایسی تشریح ہم نے کسی استاد سے سنی نہ کہیں پڑھی۔ دینِ فطرت کے وسیع تر نظامِ سیاست و معاشرت کو یکسر نظرانداز کرکے مسلمانوں کے دوقومی نظریہ کو جنگ و جدال سے تعبیر کرنا کسی ایسے شاگرد کا ہی کمال ہوسکتا ہے۔
√ شاگرد نے فرض کرلیا کہ ہندو نے بغل سے بت اور چھری دونوں نکال پھینکے ہیں، لہذا مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ مشرک کی نجاست ختم ہوئی اور ہندو مسلم جپھی ڈالنے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی حالانکہ ہندو کی کمینگی روزِ روشن کی طرح آج بھی عیاں ہے. ہندوستان اور مقبوضہ کشمیر میں اقلیتوں پہ جاری مظالم ہندو سفاکیت کی کھلی دلیل ہے۔
√ شاگرد نے فرض کرلیا کہ معرفتِ ایمانی اٹھالی گئی ہے۔ نمک حرام کا تعیُّن کرنے کی کوئی دلیل نہیں، بےشک بار بار دھوکہ کھاتے جائو مگر سانپ پالتے جائو۔
√ شاگرد نے فرض کرلیا کہ سورة المنافقون منسوخ ہوچکی ہے لہٰذا ناصبی، خارجی اور رافضی فرقوں کا تصور چھوڑدیں۔
√شاگرد نے فرض کرلیا کہ ایران محبت و مفاہمت کا علمبردار ہے، لہٰذا خلافتِ راشدہ کے آخری ایام سے شروع کیا گیا فارسی تقویم کا کیلنڈر، ہر مسلم خلافت سے بغاوت کی روِش، زمانہ ماضی میں علاقائی مسلم حکومتوں سے چھیڑخانی اور فی زمانہ پاکستان، افغانستان، عراق، شام، یمن، سعودیہ، بحرین، لبنان میں خفیہ و اعلانیہ سازشیں، اور فوجی آپریشنز اولمپک گیمز سمجھ کے قبول کرلیے جائیں، اِس فرض آرائی میں شاگرد اپنا دو دن قبل کا کمنٹ بھول گیا کہ القاعدہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور ایران اُس کا بہرحال حمایتی ہے۔
√ شاگرد کی دانش وری عروج پہ پہنچتی ہے اور بدلتے بگڑتے فوری حالات کے تناظر میں مسلمانوں کی جانب سے کفار سے کیے گئے جزوقتی معاہدہ جات کو بنیاد بناکر شاگرد کلامِ الٰہی کی نص پہ طنزیہ سوال زن ہوتا ہے کہ یہودونصاری سے متعلق یہ عقیدہ کہ وہ ہمارے دوست نہیں ہوسکتے، یہ تو موضوعِ ممنوع ہے اور اِس پہ بات کرنا کفر ہے، شاگرد یہاں طنز کرتے ہوئے بھول جاتا ہے کہ مسلمانوں کی یہود و نصاری سے حادثاتی اور عارضی مفاہمت اُن کا معاون بننے کے لیے نہیں ہے بلکہ انتہائی ضرورت کے وقت اپنا کام نکالنے کےلیے ہے، اسے ڈپلومیسی کا ایک خاص پہلو کہا جا سکتا ہے،
جی جی اسلام میں صرف ادائیگی عبادات نہیں ہے، حکمت بھی ہے، مفاہمت بھی ہے، سیاست بھی ہے۔
√ شاگرد نے فرض کرلیا کہ استاد انڈیا سے سیاسی، سفارتی اور معاشی تعلقات کے باعث سعودی عرب کو ناقابل اعتبار سمجھتا ہے، یہاں شاگرد فراموش کرگیا کہ سعودی عرب کی مضبوط معیشت اور اقتصادی استحکام حقیقتاً مسلمانوں کے لیے ہی مفید ہے، مودی کو دیے گئے ایک میڈل کی کھنکناہٹ میں شاگرد یہ بات گول کرگیا کہ بےشک ہندوستانی لیبر سعودی عرب میں ہے لیکن وہاں سے مالی امداد مسلم ممالک کو ہی بھیجی جاتی ہے۔
√ کسی ایک عالِم کی بعض کتب پر پابندی کو شاگرد اسلامی اخوت کے خاتمے کی ازخود بنیاد بنا کر پیش کرتا ہے جبکہ وہاں بعض کتب پر پابندی اس سے پہلے بھی لگتی رہی ہے،
√ شاگرد حکومتِ پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کے اثرات کو وحدتِ امت کی کمزوری بتاتا ہے، کشمیر کے لیے دعا نہ کیے جانے کا طنز کرتا ہے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ حرمین شریفین کی پاسبانی اب بھی ہمارے ذمہ ہے، نیز شاگرد یہ فراموش کرجاتا ہے کہ سعودیی عرب سے مسلمانوں کی جذباتی وابستگی مسلکی کتب کی وجہ سے نہیں بلکہ حرمین شریفین کی نسبت سے ہے۔
√ یہود و نصاری سے روایتی مذہبی اختلاف ملحوظ رکھو تو شاگرد کا دم گُھٹتا ہے اور وہ اشارتاً نصِّ قرآنی پہ سوال زن ہوجاتا ہے، اگر یہود و نصاری مثلاً امریکہ و اسرائیل سے مسلمان سفارتی تعلقات جوڑ لیں تو شاگرد لطیفہ بازی پر آجاتا ہے، شاگرد دونوں مقام پر یہ بات فراموش کردیتا ہے کہ نہ تو ہر وقت جنگ جاری رہتی ہے اور نہ ہی سیاسی سفارتی تعلقات دائمی ہوتے ہیں۔
√ دریائے آمو میں سرخ ریچھ کے ڈوبنے سے شاگرد بِلبلا اٹھتا ہے اور خاتونِ مِصر کی طرح واویلا مچادیتا ہے، شاگرد تاریخ کو جبل السراج کی پہاڑیوں میں پھینک آتا ہے، چھپانا چاہتا ہے کہ سوویت یونین نے قریبی مسلم ممالک میں کتنا ظلم ڈھایا تھا اور اُس کے فرسودہ فکری دستور نے کتنے خستہ حال مسلمانوں کا ذہن اسلام سے اجنبی کر دیا تھا۔
√ اپنے خودساختہ پیرامیٹر پر شاگرد نے استادوں کے ہرایک معاملہ کو خوامخوا غلط ثابت کرکے استاد کی ہرکوشش، ہر امنگ اور جینے کی جستجو کو چیلنج کردیا کہ کیا قدرت کے پاس جتنی بھی اچھائیاں تھیں وہ ساری پاکستان کو ودیعت کردی ہیں؟
یاحیرت! یاعجب! دنیا کا کون سا ملک ہے جس میں نقص و عیوب نہ ہوں، خامیوں کو دور کرنے کی جستجو کرتے ہوئے زندگی جینا ہر فرد ہر معاشرے کا فطری حق ہے لیکن شاگرد چاہتا ہے کہ تم اپاہج ہو اس لیے خودکشی کرلو، سنبھلو نہیں سرنڈر کردو۔
√ حیرت کا اصل مقام تو آگے ہے جب شاگرد انڈیا اور ایران کی جانب سے پاکستان کے خلاف کی گئی سازشوں کو ریڑھے پہ لاد کر بحیرہ عرب و فارس کے عین درمیان پھینک آتا ہے۔ سادگی پر تو ہر کوئی مرتا ہے مگر میرا دل کہہ رہا ہے کہ شاگرد کی چلاکی پہ مرمٹوں۔ ہمسائیگی کی آڑ میں ہمسائے کی سازشوں کو بڑی ہوشیاری سے الم غلم کر دیا، شاگرد نے تنہائی میں بیٹھ کر یہ کیوں نہ سوچا کہ ہمسایہ بھی کمینہ ہوسکتا ہے، میرا کوئی دوست شاگرد سے پوچھ کر مجھے بتائے کہ وہ جو شریر ہمسائے ہوتے ہیں وہ کہاں پائے جاتے ہیں۔
√ شاگرد کا اگلا سوال پڑھنے سے پہلے ذرا ہنس لیں کیونکہ سوال پڑھنے کے بعد آپ سوچنے اور ہنسنے کے قابل ہی نہیں رہیں گے، حیرت آپ کو بےحواس بھی کرسکتی ہے، شاگرد کا سوال یہ ہے کہ دوقومی نظریہ آج بھی زندہ ہے تو کیا پاکستان ابھی آزاد نہیں ہوا؟ اگر پاکستان آزاد ہوگیا ہے تو دوقومی نظریہ کیوں کر زندہ ہے؟
یہ سوال اِتنا اہم اور جاندار ہے کہ اکیس توپوں کی سلامی شاگرد کا حق ہے، شاگرد چاہتا ہے کہ پاکستان آزاد ہوچکا، اب دوقومی نظریہ ختم ہوجانا چاہیے، شاگرد نے یہ سوال کرتے ہوئے یہ مگر نہ سوچا کہ دوقومی نظریہ چھوڑنے کے بعد پاکستان کے قرار اور بقا کا کوئی جواز نہ رہے گا، اور پھر اکھنڈ بھارت بنانے میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔
سب بولو کالی ماتا کا منہ کالا
پاکستان کا ہے رب رکھوالا
√ شاگرد یہاں ایک سوال کرتا ہے کہ اگر جنگ کا طبل بج گیا تو خدا پاکستان کے انیس کروڑ مسلمانوں کی سنےگا یا انڈیا کے پچیس کروڑ مسلمانوں کی؟
شاگرد کو کوئی سمجھائو کہ ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کے نظام بارے جگت مارنے سے اور بےمقصد سوال اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ دو جھگڑنے والوں میں اچھا فیصلہ کرنے پر مطلقاً قادر ہے، وہ کس کی مدد کرے گا، یہ اُس کی مرضی اور اختیار کی بات ہے. مگر ہم نے تو ظاہر پر فیصلہ کرنا ہے. مذہب کو درمیان سے نکال بھی لیا جائے تو انڈیا کی حیثیت جارح کی ہے، کشمیر اور پاکستان کے شہری مسلمان نہ بھی ہوتے تو مظلوم تو تھے ہی. شاگرد کو اسلام پر یقین نہیں رہا تو پاکستان کو نیشن اسٹیٹ سمجھ کر ہی اس کا ساتھ دے دے.
√ شاگرد ایک مرتبہ پھر یہودونصار سے وابستہ رویے پر شاکی نظر آتا ہے۔ کہتا ہے کہ یہود و نصاری سے دوستی نہیں ہوسکتی تو اُن کے ایماء پر جہاد و قتال جیسا فریضہ کیسے انجام دیا جاسکتا ہے؟ یہود و نصاری سے دوستی کی نوعیت تو اوپر کہیں ذکر ہوچکی ہے کہ وہ اُن سے ہمدردی نہیں بلکہ ضرورت اور مجبوری کی حالت میں ہی ممکن ہے۔ یہاں ہم افغان جہاد کی بات کریں گے. قارئین جانتے ہیں اور یہ ابھی کل ہی کی بات ہے جب افغانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت روس کے خلاف جوابی کارروائی شروع کی تھی اور پھر سارے مفادپرست افغانستان میں جمع ہوتے گئے اور اُس وقت کے افغان سرداروں نے کمال عقلمندی سے کام لیتے ہوئے ایک دشمن کو اُس کے دیگر دشمنوں کی مدد سے شکست سے دوچار کردیا۔ اگر یہ فتح امریکہ کے مرہون منت تھی تو امریکہ خود 50 ممالک کی افواج کے ساتھ فتح کیوں نہ حاصل کر سکا۔ افغانستان میں شکست خوردہ اور ہندوستان سے بداعتماد ہوئے روس نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اور انڈیا و ایران کے اثر کو توڑنے کے لیے پاکستان نے یہ نئی دوستی گانٹھ لی ہے تو یہاں بھی شاگرد حیرت کا شکار ہے، افغان مجاہدین اور اُن کے معاونین کی اِس کامیاب حکمت عملی پر بجائے داد دینے کے شاگرد طعن کرتا ہے۔ شاگرد کی ساری ہی فلاسفی عجیب ہے، مسلمان عاجزی و مروت اختیار کرے تو شاگرد مداہنت کا طعنہ دیتا ہے اور مسلمان حکمتِ عملی سے کام لے تو شاگرد حاکمیت کا طنز مارتا ہے۔
پانی دستیاب ہو تو وضو کیا جاتا ہے لیکن تب شاگرد تیمم نہ کرنے کا سوال کرتا ہے اور حالتِ سفر میں قصر کرنے پر سوال زن ہوتا ہے۔ عبادت گاہوں اور درسگاہوں کو خون میں نہلانے والے ان پڑھ فسادیوں کو اساتذہ کے کھاتے ڈال دیتا ہے، اپنے تئیں کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی تائید کرتا ہے لیکن تحریکِ حریت پر خفا ہوتا ہے اور حریت پسندوں کے قتلِ عام کی مذمت تک نہیں کرسکتا۔ دن کے وقت رات کی اور رات کے وقت دن کی ڈیمانڈ کرتا ہے، شرماتا بھی نہیں جی ہاں ذرا جرات تو دیکھیں کہ گائے ذبح کرنے کے الزام میں قتل کیے گئے اترپردیش کی آفتاب احمد شہید کو پاکستان میں گائے ذبح کرنے والوں کے قصاص میں پیش کرتا ہے،حساب برابر کتاب ردی میں۔ سُستی کو حمیت پر فوقیت دیتا ہے اور غیرت کو جذباتیت پر قربان کرتا ہے۔ فراموش کردیتا ہے کہ مسلمانوں کے ہاں ایک سفیر کے قتل کی افواہ پر بیعتِ مرگ کی جاتی ہے، بہن کی چادر پہ پائوں رکھنے والے خناس یہودی کو حرمِ مدینہ میں کاٹ دیا جاتا ہے، ستر کی تعداد والے لشکرِ جرار کے آگے ڈٹ جاتے ہیں اور نہتے تین سو تیرہ سینکڑوں تلواروں کے آگے جم جاتے ہیں اور اُنہی دین پرستوں کے ہاں یہ بھی حکم ہے کہ سارے لڑائی میں نہ نکلا کرو، کچھ رک جایا کرو اور تعلیم حاصل کرو۔
شاگرد سرحدوں کی بات کرتا ہے، ہمارے ہاں تو گھر کی چاردیواری بھی حد بندی کر دیتی ہے۔ آپ استادوں کا پڑھایا ہوا بھول گئے تو میں یاد دلاؤں کہ فتح مکہ کے دن حکم ہوا تھا کہ جو گھر کا دروازہ بند کردے، اُسے کچھ نہ کہو اور جو ہتھیار پھینک دے اُسے بھی کچھ نہ کہو۔
المختصر کہ شاگرد نہ صرف سبق فراموش ہے بلکہ چکر بھی دیتا ہے، کتاب کے ابواب الٹ دیتا ہے، فصل توڑ دیتا ہے، کتاب پھاڑ ڈالتا ہے، اور پھر دعویٰ کرتا ہے کہ شاگرد کتاب میں پھول رکھنا چاہتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شاگرد کے پاس کتاب ہے ہی نہیں، کتاب تو شاگرد نے پھاڑ پھینکی ہے، شاگرد تو فرضی کہانیوں کا حافظ ہے۔ شاگرد تو بس شک پھیلانا چاہتا ہے۔