ہوم << فرمانبردار بیٹا اور خود ساختہ مفکرین - عظیم الرحمن عثمانی

فرمانبردار بیٹا اور خود ساختہ مفکرین - عظیم الرحمن عثمانی

ایک شخص کے تین بیٹے تھے. ایک روز اس نے ان تینوں کو جمع کرکے تلقین کی کہ دیکھو میں شام تک کے لیے گھر سے باہر جارہا ہوں. اگر میری غیرموجودگی میں کچھ مہمان آجائیں تو تم لازمی مہمان نوازی کے حقوق ادا کرنا. یہ کہہ کر وہ شخص اپنا کام نمٹانے گھر سے چلا گیا. کچھ دیر بعد کسی نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا. معلوم ہوا کہ کچھ مہمان ملنے آئے ہیں. اب ان بیٹوں نے جب مہمانوں کی صورت دیکھی تو پہلا سب سے بڑا بیٹا تو جلدی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا. دوسرا منجھلا بیٹا کمرے میں تو نہ چھپا مگر واجبی سا سلام کرکے کونے میں بیٹھ کر لاتعلقی سے اپنا ناول پڑھنے لگا. ان دونوں بڑے بیٹوں کے برعکس چھوٹے بیٹے نے جو اپنی عمر اور طاقت کے لحاظ سے بہت کم تھا، نہ صرف مہمانوں کا پرجوش استقبال کیا بلکہ اپنی ٹوٹی پھوٹی گفتگو سے ان کا دل بھی بہلانے لگا. گو چھوٹا ہونے کے سبب اسے ٹھیک سے بات کرنا نہیں آتا تھا. پھر وہ اٹھا اور جا کر مہمانوں کے لیے چائے بنانے لگا لیکن اسے تو چائے بنانا بھی ٹھیک سے نہ آتی تھی. لہٰذا اس نے پانی سے پہلے دودھ ڈال دیا اور دودھ کے بعد پتی ڈالی. چینی بھی کچھ زیادہ گرگئی اور اس نے پیالی بھی زیادہ بھر دی. اب وہ اس چائے کو بامشکل سنبھالتا، لڑکھڑاتا، ڈگمگاتا مہمانوں کے پاس لانے لگا. اس کے ہاتھ توازن نہ رکھ پاتے تھے اور چائے تھوڑا تھوڑا اچھل کر طشتری میں پھیلتی جاتی تھی. اس نے بسکٹ بھی پیش کیے مگر جس برتن میں انہیں رکھا وہ چٹخا ہوا تھا. ان سب کوتاہیوں کے باوجود وہ مہمانوں کی ہر ممکنہ تواضع کرتا رہا. شام ڈھلے باپ واپس آیا تو اسے اندازہ ہوگیا کہ کچھ مہمان گھر آئے تھے. اس نے بیٹوں سے استفسار کیا کہ تم میں سے کس نے مہمان نوازی کے حقوق ادا کیے؟
.
قارئین! آپ کا کیا خیال ہے کہ ان تینوں بیٹوں میں سے وہ کون تھا جس نے حقیقی معنوں میں مہمان کے حقوق ادا کرنے کی سعی کی؟ مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے ہر ایک کا جواب یہی ہوگا کہ چھوٹے بیٹے نے حقوق ادا کیے. اس نے چاہے کتنی ہی غلطیاں کی ہوں مگر کم از کم اس نے اپنی صلاحیت کے مطابق مقدور بھر کوشش تو کی. دوستو! اس فرضی کہانی کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جو افراد عملی طور پر بہتری کی کوشش کرتے ہیں، وہ اپنی اس کوشش میں کسی ممکنہ کمی اور غلطی کے باوجود بھی ان افراد سے بہرحال ہزار درجے بہتر ہیں جو صرف فصیح و بلیغ باتیں بگھارتے ہیں. افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے خود ساختہ مفکرین تنقید کرنے میں تو سب سے آگے ہیں مگر عملی میدان میں ان کا اپنا کردار صفر بٹا صفر ہے. یہ لوگ فلاحی (چیریٹی) اداروں میں کیڑے نکالتے ہیں مگر خود کسی فلاحی کام کا عملی حصہ نہیں بنتے. یہ تعلیمی شرح کے کم ہونے پر طعنہ کستے ہیں مگر خود کسی غریب کی تعلیم کا بندوبست نہیں کرتے. یہ ملک میں بڑھتی بیروزگاری کا رونا روتے ہیں مگر ذاتی وسائل رکھنے کے باوجود کسی مجبور کی نوکری کا بندوبست نہیں کرتے. علی ہذا القیاس
.
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے