ہوم << بن کھلے مرجھا جانے والی کلیوں کا نوحہ - عمار راجپوت

بن کھلے مرجھا جانے والی کلیوں کا نوحہ - عمار راجپوت

نت نئی ایجادات کی بھرمار ہے، زندگی آسان سے آسان تر ہوتی جا رہی ہے. سہولیات نے انسان کو اس قدر سہل بنا دیا ہے کہ اب تو کسی کے آنے پر دروازہ کھولنے کے لیے بھی اٹھ کر دروازے پہ نہیں جانا پڑتا. حضرت انسان اللہ کے عطا کردہ علم سے چاند پر قدم رکھ کر اپنی عظمت کا لوہا منوا چکا ہے. زمانہ ارتقائی منازل تیزی سے طے کر رہا ہے. ہر بعد میں آنے والا پہلے والے کو مات دیتا آ رہا ہے. پرانی سوچوں کی پختگی اور لکیر کی فقیری ختم ہوتی جا رہی ہے. آج کا ہر انسان خود کو باشعور سمجھتا ہے اور کسی بھی قسم کی ذہنی فکری اور جسمانی غلامی قبول کرنے سے انکاری ہے.
مگر یہ تصویر کا اک رخ ہے کیونکہ دوسری طرف ابھی بھی بھوک افلاس اور تنگدستی جیسی لعنتوں نے لوگوں کی سوچوں پر تالے ڈالے ہوئے ہیں. ارتقائی منازل تو دور بقائی منازل پر بھی قدم جمانا مشکل ہوتا جا رہا ہے. لوگ آج بھی چودہ سو سال پہلے کی جہالت والی زندگی جی رہے ہیں جس میں بیٹی جیسی عزت اور نعمت کو پیدا ہوتے ہی گلا دبا کر قتل کر دیا جاتا ہے، ایسے میں صرف تصویر کا پہلا رخ دیکھ کر ہی ”سب اچھا ہے“ کا راگ الاپنا انصافی تقاضوں کے خلاف ہے.
رات میرے اک عزیز دوست جس کی والدہ نجی ہسپتال میں گائناکالوجسٹ ہیں نے جب مجھے میسج پر یہ بتایا کہ”رات امی نے ایک آپریشن کیا تو بیٹی پیدا ہوئی“. اب اس خبر میں ظاہر ہے ایسی کوئی خاص بات تو تھی نہیں تو میں مزاحیہ کمنٹ لکھ ہی رہا تھا کہ اگلا میسج آیا ”جسے اس کے باپ نے گلا دبا کر قتل کر دیا“ موصول ہوا تو میرے کی بورڈ پہ چلتے ہاتھ اچانک مارے خوف اور غم کے رک سے گئے. حیرانی و پریشانی کا ایک زوردار جھٹکا لگا کہ نہیں یارب! آخر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی باپ اپنی ہی نومولود ننھی جان کو اپنے ہی ہاتھوں سے قتل کر دے؟ مگر فورا میرے ذہن کے ٹیبل پر قبل از اسلام کے دور جہالت کے حالات و واقعات کا نقشہ کھل گیا کہ کیسے کافر لوگ بیٹی کی پیدائش پر اپنے گال پیٹتے اور اسے اپنی بہت بڑی بے عزتی سے تعبیر کرتے ہوئے لوگوں کو پتہ چلنے سے پہلے اللہ کی بھیجی اس فرشتہ صفت ننھی جان کو منوں مٹی تلے زندہ درگور کر دیتے تھے، اس کی معصوم سسکیوں اور آہوں سے یقینا عرش الہی بھی ہل جاتا ہوگا مگر ان مردہ ضمیر اور احساس سے عاری لوگوں کے دل نہ ہلتے تھے.
میں یہ سب کچھ سوچنے کے ساتھ ساتھ ایک بات اور بھی سوچ رہا تھا کہ وہ تو کافر تھے، عورت کے مقام و مرتبہ سے نابلد تھے اور انھیں بیٹی کی قدر و منزلت بتانے اور سمجھانے کے لیے آقا دوجہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے مگر آج کے مسلمان کو کیا ہوگیا کہ اللہ کے قول ”بےشک میں جسے چاہتا ہوں بیٹیاں دیتا ہوں اور جسے چاہتا ہوں بیٹے دیتا ہوں“ (القران) کو بھلائے کیوں بیٹھے ہیں۔ آقا علیہ الصلوۃ السلام کا فرمان عالیشان کہ ”جس نے اپنی دو بیٹیوں کی اچھی پرورش کی اور ان کے ساتھ حسن سلوک والا معاملہ کیا تو جنت میں وہ اور میں یوں ساتھ ہوں گے جیسے ایک ہاتھ کی دو انگلیاں.“ (مسلم شریف) کو خاطر میں کیوں نہیں لاتے؟
کیا ایسا قبیح فعل کرنے والے بدبخت یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اللہ کی عدالت قائم نہیں ہوگی یا وہ ننھی جانیں کل روز حشر زندہ نہیں کی جائیں گی؟ یقینا ہوگی اور ضرور وہ ننھی جانیں انصاف لینے اللہ کے سامنے حاضر ہوں گی اور تب ہی ایسے لوگ جو صریح ہدایت کے پہنچ جانے کے بعد بھی گمراہ رہے، بڑے خسارے کے مارے جہنم کے گھڑوں میں اوندھے منہ پھینک دیے جائیں گے.