ہوم << خواجہ سرا کا خط، افسانے کی حقیقت - ابوالاعلی صدیقی

خواجہ سرا کا خط، افسانے کی حقیقت - ابوالاعلی صدیقی

%d8%a7%d8%a8%d9%88%d8%a7%d9%84%d8%a7%d8%b9%d9%84%db%8c-%d8%b5%d8%af%db%8c%d9%82%db%8c سوشل میڈیا پر کچھ لکھنا میرے لیے بہت مشکل ہوتا ہے، دل ہی نہیں کرتا۔ ہر فرد پاپولر بیانیے کو اپنانا ہی بہتر سمجھتا ہے یا پھراس کا جواب دینے سے گریز کرتا ہے۔ غامدی طبقہ فکر پاپولر بیانیے کے مطابق اپنے خیالات کو پیش کرنے میں مہارت رکھتا ہے اور ایک ایسی ہی نئی کوشش”خواجہ سرا کا اپنی ماں کے نام خط“ کے نام سے ایک افسانہ ہے۔ معاملہ یہ ہےکہ اصل زندگی میں حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
پہلی بات تو یہ جان لینی چاہیے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں تیسری جنس کی پیدائش کا تناسب زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ میں ایک ہوتا ہے۔ امریکہ، جہاں کا شماریاتی ادارہ معلومات کے حصول میں سب سے بہتر ہے، اس کے مطابق امریکہ میں یہ اوسط ہر ایک لاکھ چالیس ہزار پیدائش میں ایک ہے۔ حساب کی آسانی کے لیے ہم اگر ہر ایک لاکھ پیدائش پر بھی ایک تیسری جنس کی پیدائش کو مان لیں تو پاکستان میں اس وقت ہر عمر کے تیسری جنس کی زیادہ سے زیادہ تعداد 2 ہزار ہو سکتی ہے۔ اور یہ تعداد بھی اس وقت بہت کم ہونی چاہیےجب تمام متمول افراد اپنی ایسی اولادوں کا پیدائش کے کچھ سالوں میں ہی تبدیلی جنس کا آپریشن کرا لیتے ہیں۔
اب آتے ہیں پاکستان میں نام نہاد خواجہ سراؤں اور ان کے گھناؤنے کردار کی طرف۔
2006ء میں راقم الحروف نے ایک مارکیٹ ریسرچ پروجیکٹ ایک مشہور فاؤنڈیشن کے لیے کیا تھا۔ پاکستان میں خواجہ سراؤں کی زندگی کی مشکلات اور ان کا ممکنہ ازالہ۔ اس سروے کے دو حصے تھے، پہلے میں فوکس گروپس اور دوسرے میں 600 خواجہ سراؤں سے انٹرویو۔ ریسرچ سے انتہائی بھیانک حقائق سامنے آئے۔ سب سے پہلے تو یہ معلوم ہوا کہ تقریباً نصف تعداد کو لڑکپن یا بچپن میں اغوا کر کے زبردستی آپریشن کروا کر خواجہ سرا بنایا گیا تھا۔ باقی نصف میں ایک بڑی تعداد گھروں سے بھاگے ہوئے لڑکوں کی تھی جو آسان کمائی کی خاطر خواجہ سرا بن جاتے ہیں۔ آپ خود بھی یہ بات بڑی آسانی سے مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں آپ کو کوئی مہاجر زنخا نہیں ملے گا اور لاہور میں اگرچہ پنجابی تو ملیں گے مگر کوئی بھی مقامی نہیں ہوگا۔ ہمیں اس پورے سروے میں ایک بھی خوجہ سرا ایسا نہیں ملا تھا جو پیدائشی خواجہ سرا ہو۔
بچوں کے اغوا کار گروہ کو جو بے بس سمجھتا ہے، وہ خیالوں کی اس دنیا میں تو رہ سکتا ہے جہاں سے غامدی صاحب قرآنی آیات منسوخ کرتے رہتے ہیں مگر حقیقی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس سروے نے یہ بھی بتایا تھا کہ خواجہ سرائوں کی تھانوں اور سرکاری محکموں میں ہی نہیں، خفیہ اداروں تک بھی رسائی ہوتی ہے۔ اس کی واضح مثال اورنگی ٹاؤن کا واقعہ ہے (سن مجھے یاد نہیں مگر کراچی کے بہت سے صحافیوں کو یاد ہوگا، پچھلے دور حکومت کا واقعہ ہے) جس میں ایک خواجہ سرا اورنگی ٹاؤن میں ایک آدمی کے ساتھ باقاعدہ شادی شدہ زندگی گزارنے لگا تھا۔ اہل محلہ کی شکایت پر ایم کیوایم کے مقامی یونٹ نے اس جوڑے کو منع کیا، بات نہ مانے جانے پر دونوں کو قتل کر دیا گیا۔ چنانچہ صورتحال یہ پیدا ہو گئی کہ ایک طرف سارے اہل محلہ اور وقت کی سب سے بڑی قوت ایم کیو ایم اور دوسری طرف خواجہ سراؤں کا گرو، جس کے مطابق اگرچہ مرنے والے خواجہ سرا نے گرو کی نافرمانی کی تھی اور گرو کا گروہ چھوڑ کر صرف ایک مرد کا ہو گیا تھا مگر پھر بھی وہ کسی کو اس طرح خواجہ سراؤں پر چڑھنے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔ اس کیس میں خواجہ سرائوں کی جیت ہوئی اور ایم کیو ایم سے وابستہ وہ تمام کارکنان جن کا اس میں نام آیا تھا، خود ایم کیوایم کے ہی نامزد کردہ ایس ایچ او کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔
صرف میرے کیے گئے سروے کے مطابق ہی نہیں، جنگ اور نوائے وقت دونوں نے ہی اس موضوع پر مضامین شائع کیے تھے جو یہ بدیہی حقیقت بیان کرتے ہیں۔ پاکستان کی حد تک، سو فیصد خواجہ سرا کمیونٹی مہلک جنسی بیماریاں کا شکار ہے اور پاکستان میں جنسی بیماریوں کے پھیلاؤ کا بنیادی سبب ہے۔ ان کی اوسط عمر (سروے کے مطابق) 39 سال ہوتی ہے اور انتہائی تکلیف دہ موت کا شکار ہوتے ہیں۔ child abuse کے اس سب سے بڑے پاکستانی گروہ کو تقریباً تمام غیرملکی این جی اوز کی کھلی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ پولیس اور دیگر محکموں میں یہ گروہ بچے فراہم کر کے ہی تعلقات بناتا ہے۔ اہل فکر و دانش اور ارباب اختیار کو اس غیر فطری طرز زندگی کا سد باب کرنا چاہیے نہ کہ افسانوں کے ذریعے اس گروہ کو بڑھوتری دی جائے.
(ابوالاعلی صدیقی سعودی عرب میں مارکیٹ ریسرچ کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس سلسلے میں مختلف ممالک کا وزٹ کر چکے ہیں)