ہوم << اڑی کیمپ حملہ کے پسِ پردہ حقائق - سنگین زادران

اڑی کیمپ حملہ کے پسِ پردہ حقائق - سنگین زادران

ویسے سوچنے کی بات ہے کہ چار مسلح آدمی اگر بھارت کی بریگیڈ بھر نفری کی پتلونیں گیلی اور خون خشک کر سکتے ہیں تو ہماری آرمی ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گی؟ صرف چار آدمیوں کی کارروائی اور اڑی کیمپ سے لے کر بمبئی پارلیمنٹ تک ہر طرف شورشرابہ اور کارگردگی صفر۔ حملے کے وقت مارے جانے والے کیا نشے میں دھت تھے جو اتنی آسانی سے چار مسلح افراد نے پوری بریگیڈ فوج کو ٹارگٹ کر لیا؟ اڑی کیمپ حملے پر بات کرنے سے پہلے کچھ ایسے حقائق جن کا جاننا بے حد ضروری ہے:
1971ء میں پاک بھارت جنگ سے پہلے گنگا نامی ایک بھارتی فضائی طیارہ بھارتی خفیہ ایجنسی نے اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا۔ مقصد یہ تھا کہ پاک بھارت جنگ سے قبل طیارہ اغوا کر کے ملبہ پاکستان پر ڈالا جائے اور پاکستان کا بنگال سے فضائی رابطہ منقطع کر دیا جائے۔ لہٰذا گنگا نامی طیارہ جو مرمت کے لیے پہلے انڈرگراؤنڈ تھا، اسے مرمت کیا گیا اور آپریشنل کرنے کے بعد اسے اغوا کیا گیا۔ اس منصوبے کو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ آر کے یادیو نے اپنی کتاب مشن را میں تسلیم کیا ہے، اور را کا ایک شاہکار کارنامہ قرار دیا ہے۔ ویسے اپنا ہی طیارہ ہائی جیک کر کے طرم خان بننا کوئی را سے سیکھے۔ خیر طیارہ اغوا ہوا اور بھارت نے پاکستان کا بنگال سے فضائی رابطہ کاٹ دیا۔ بعد میں جو ہوا آپ سب کو پتہ ہے۔
20 مارچ سنہ 2000ء کی بات ہے. کشمیر میں ایک جگہ ہے چٹی سنگھ پورہ، اس میں سکھوں کا قتلِ عام ہوا، 36 سکھ قتل ہوئے اور الزام پہلے کی طرح پاکستان پر ڈال دیا گیا۔ 21 مارچ کو امریکی صدر بل کلنٹن بھارت کا دورہ کر رہا تھا اور 20 مارچ کو بھارت نے یہ ڈرامہ کر کے ملبہ ایک بار پھر پاکستان پر گرا دیا۔ وجوہات دو تھیں۔ ایک سکھوں اور پاکستان کے درمیان دوری پیدا کرنا اور دوسرا امریکہ کے سامنے پاکستان کو دہشت گرد ثابت کرنا۔ مگر بازی اس وقت الٹی ہوگئی جب بعد میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ ثابت ہوگیا کہ چٹی سنگھ پورہ میں سکھوں کا قتلِ عام بھارت نے کروایا۔ لیفٹینٹ جنرل کرتار سنگھ گل اور چیف جسٹس ریٹائرڈ اجیت سنگھ بائنس کی نگرانی میں بننے والے تحقیقاتی کمیشن نے ثابت کر دیا کہ یہ قتلِ عام بھارت نے خود کروایا تھا۔ رپورٹ کے صفحہ 12 پر آج بھی لکھا ہےکہ پاکستان کا اس سانحہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ اس سانحہ کا سب سے زیادہ فائدہ خود کو بھارت کو ہوا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ یہ بھارتی حکومت کی ملی بھگت تھی۔ مشہور امریکی خاتون سفارتکار اور سیاستدان میڈلین البرائیٹ نے بھی اپنی کتاب ”The Mighty and the Almighty: Reflections on America, God, and World Affairs“ میں یہی بات لکھی۔ مگر چونکہ کتاب بین الاقوامی سطح پر شائع ہوئی اس لیے بھارت نے شور مچا دیا اور بعد میں بھارت کے دفترِ خارجہ کی منت سماجت پر یہ حقائق کتاب سے نکال دیے گئے۔ البتہ چٹی سنگھ پورہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں یہ حقیقت آج بھی موجود ہے کہ پاکستان کو بدنام کرنے کےلیے بھارت نے اپنے لوگوں کو قتل کروایا۔
26/11 پر آجاتے ہیں جب 10 مسلح افراد نے ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے بمبئی کو 4 دن کےلیے مفلوج بنا دیا۔ حسبِ سابق بھارتی میڈیا نے بنا سوچے سمجھے الزام پاکستان پر ڈال دیا۔ ڈرامے کی انتہا دیکھیں کہ میڈیا پر کچھ کالیں بھی سنائی گئیں کہ دہشت گرد بھارت میں کھڑے ہو کر پاکستان رابطے کر رہے ہیں۔ ایک معمولی چور بھی ایسی حرکت نہیں کرتا کہ جائے واردات پر موبائل استعمال کرے جبکہ بھارتی میڈیا یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ دنیا کی سب سے منظم اور بہترین ایجنسی کے لوگ یہ کام کر رہے ہیں۔ اس مرتبہ بنا بنایا کھیل اجمل قصاب کی وجہ بگڑ گیا جس نے دوران انٹرویو سٹریچر پر لیٹے لیٹے روتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ اس غلطی پر بھگوان مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ رہی سہی کسر بھارتی ہوم منسٹری کے سینئر آفیسر نے نکال دی جس نے سپریم کورٹ میں بیان حلفی جمع کرا دیا کہ بمبئی حملے انڈین حکومت نے خود کروائے تھے۔
ب
ھارت کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے اور سب کا ذکر یہاں ممکن بھی نہیں اس لیے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ بھارت نے اڑی کیمپ پر حملہ ایک ایسے وقت میں کروایا جب کشمیر کا مسئلہ عالمی توجہ حاصل کر چکا ہے اور کشمیر پر بھارتی گرفت ہر بڑھتے روز کے ساتھ کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان اور کشمیر کا مشترکہ مؤقف کمزور کرنے کےلیے اڑی کیمپ جیسے منظم اور پہلے سے طے شدہ حملے کی بھارت کو اشد ضرورت تھی۔ لہٰذا بھارت نے اپنی تاریخ دہراتے ہوئے false flag operation کیا مگر شواہد اور زمینی حقائق اس مرتبہ بھی بھارت کے خلاف گئے۔
(جاری ہے)