ہوم << گدھے اور صرف گدھے‌ - شیخ نوید

گدھے اور صرف گدھے‌ - شیخ نوید

%d8%b4%db%8c%d8%ae-%d9%86%d9%88%db%8c%d8%af مثل مشہور ہے کہ گدھے کو گدھا کھجلاتا ہے،اب اس مقولے میں کتنی حقیقت اور سچائی ہے،یہ کوئی ’’پروفیشنل‘‘ گدھا ہی آپ کو بتا سکتا ہے۔کسی نان پروفیشنل گدھے سے الجھنے کی کوشش مت کیجیے گا وگرنہ معلومات کے بجائے ’’لات ‘‘ آپ کا مقدر ہو سکتی ہے۔یہاں جو بات قابل غور ہے کہ ایک گدھے کو دوسراگدھا صرف کھجلاتا ہے لات نہیں مارتا،جیسا کہ بعض ’’ کھجلی پسند ‘‘ شعراء کے نزدیک کھجلی کا عمل لڈو اور برفی کے ہڑپ کرنے سے زیادہ مرغوب اور پسندیدہ ہے۔آخر گدھوں میں اتنا پیار کہاں سے آگیا ؟ اصل بات یہ ہے کہ گدھا صرف گدھا ہوتا ہے نہ کہ.....پیدا تو انسان ہو اور پھر گدھا بن جائے۔
گدھوں کے متعلق ایک اور کہاوت مشہور ہے ’’ گدھا کیا جانے زعفران کیا ہے ؟‘‘۔ عموماً یہ جملہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب ایک ’’ڈیڑھ ہوشیار‘‘ ایک گھٹیا سی شے انتہائی مہنگے داموں میں خرید کر لائے اور لوگوں میں اس شے کی نمائش کرتا پھرے۔ لوگ جب اُس ’’ عقلمند‘‘ کو سمجھائیں کہ تیرے ساتھ اس چیز کے سودے میں ہاتھ ہوگیا ہے تو وہ ’’فرزند ِالو‘‘ سینہ پھلا کر بقراطی لہجے میں جواب دیتا ہے کہ’’ گدھا کیا جانے زعفران کیا ہے؟۔ــ‘‘
لوگ یہ فقرہ ایسے ٹھاٹ سے کہتے ہیں جیسے گدھوں نے ان کے آبائو اجداد سے زعفران چیک کرنے کی تنخواہ مقرر کروائی تھی!ہمارے دوست شیخ صاحب کو اس کہاوت پر شروع کے دن سے ہی اعتراض ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ گدھے کا تعلق زعفران کے ساتھ نہیں ہوسکتا،کیونکہ جس طرح ہماری وزارتِ قانون کا تعلق قانون کے ساتھ اور ہمارے سیاستدانو ں کا تعلق عوام کے ساتھ نہیں ہے،اسی طرح گدھے کا تعلق بھی زعفران کے ساتھ ممکن نہیں ہے۔
بقول شیخ صاحب ،اگر آپ گدھے کا تعلق زعفران کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کریں گے تولامحالہ کچھ چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ خود بخود جڑنے کی کوشش کرینگی جو کہ’’ سسٹم کی بقا ‘‘کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔مثلاًپولیس کا کا م مجرم کی سرکوبی ہے حالانکہ مجرم سے زیادہ عام شہری پولیس سے بچنے کے لئے لاحول ولاقوۃ کا وِرد کرتے ہیں۔وزارتِ داخلہ کا کام ملک کے اندرونی حالات درست رکھنا ہے، جبکہ آج کل اس محکمے کا ایک ہی کام رہ گیا ہے اور وہ ہے ہر واقعے میں بیرونی ہاتھ کو ملوث کرنا ہے،کیو نکہ اِنہیںبخوبی معلوم ہے کہ بیرونی دہشت گردوں سے نمٹنا اندرونی (داخلہ ) لوگوں کی ڈیوٹی نہیں ہے۔وزارتِ خارجہ کے وزیر جب تک ملک سے باہر نہ ہوںان کو ملک کے مسائل نظر ہی نہیں آتے۔وزارتِ خزانہ کا تعلق ملکی خزانے کی حفاظت اور بڑھوتری ہے لیکن وہ خزانے کے بجائے روز بہ روز ملکی قرضے بڑھانے کے مشن پر عمل پیرا ہیں۔
ویسے ہمیں بھی گدھے اور زعفران والی کہاوت کی’’ پریکٹیکل اپروچ‘‘ پر شکوک و شبہات ہیں،کیونکہ گدھا اگر زعفران کو جان بھی لے تو اس کا مالک کونسا اسے روز روززعفران کھلائے گا۔ گدھا اگر گھاس کے ساتھ زعفران بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کھا جاتا ہے تو آپ اسے گدھے کا ’’طرز ِ تغافل‘‘ سمجھ سکتے ہیں،یعنی گدھا جان بوجھ کر اس طرح کرتا ہے۔بلکہ اگر مہنگائی نے اب تک آپ کو قبرستان کا راستہ نہیں دکھایا تو جان لیجئے کہ یہ گدھوں کی ایک دلچسپ سیاسی ’’ہابی ‘‘ ہے۔مثال کے طور پر ہمارے لیڈران کو دیکھئے ،نام .....عوام کی غربت میں لتھڑی جھونپڑیوں کا لیتے ہیں لیکن خود عالیشان بنگلوں میں رہتے ہیں۔ بات .....بھوک سے نڈھال فاقہ کشوں کی کرتے ہیں لیکن عشائیے اور ظہرانے ان ہی کے پیسوں سے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں اڑاتے ہیں۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ہم نے اچھے خاصے مضمون کو ’’گدھوں والا ‘‘ بنادیا ہے ۔ہمیں ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں ہمارے کالم کو لوگ اِسی موصوف جانور کے نام سے مشہور نہ کردیں ۔ لہٰذاہم اپنی بات کا رخ گدھوں کے بجائے سیاستدانوں کی طرف پھیر رہے ہیں۔احباب یہ نہ سمجھیں کہ ہم گدھوں اور سیاستدانوں میں کوئی فرق نہیں کرتے ۔بخداسیاستدانوں سے ہمیں بڑی محبت ہے۔اس کا واضح ثبوت یہی ہے کہ جب ہم کسی گدھے کو ظالم مالک کے بوجھ کو اُٹھائے بے بسی ولاچاری کی تصویر بنے دیکھتے ہیں تو فوراً اُسے جاکر یہی مفید نصیحت کرتے ہیں کہ اگر تو ہمارے لیڈروںکے بیانات روز اخبارات میں پڑھ لیا کر تو زندگی بھر کی بدنامی سے بچ جائے گا اورممکن ہے کل ہم تیرے بیانات کو بھی غور سے پڑھنے لگیں ۔ہماری صحافیانہ خوشامد کورد کرتے ہوئے گدھا ہمیں یوں گھورتاہے جیسا کہ کہہ رہا ہوا ؎
تجھے ہم ولی سمجھے جو نہ یوں ’’خوار‘‘ ہوتا
پچھلے دنوں ہماری ملاقات ایک گدھے سے ہوئی ۔ہم نے مساوات کے جذبے سے سرشار ہوکر اُسے مخاطب کیا ’’مزاج کیسے ہیں جناب!‘‘۔گدھے نے انتہائی حقارت سے ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ہم پر ڈالی اور کہنے لگا:’’کیا کوئی سیاستدان نہیں ملا جو مجھ سے گفتگو کی احتیاج پڑگئی ؟‘‘۔ہم نے لہجے میں مصنوعی خوش مزاجی کو بھرتے ہوئے عرض کیا ’’میں رواداری پر یقین رکھتا ہوں ،انسانوں اور جانوروں میں تفریق کو فرقہ واریت سمجھتاہوں ‘‘۔گدھے نے حیرت کے ساتھ وضاحت طلب نظروں سے میری طرف دیکھا اورپوچھا’’گویا تمھارے نزدیک گدھے اور انسان برابر ہیں!‘‘لاجواب ہونے سے بچنے کے لئے میں نے فوراً پینترابدلا’’بات برابری کی نہیں ہے ،بات حقوق کی ہے۔میرے نزدیک جانوروں کو بھی تمام حقوق ملنے چاہیئیں ‘‘۔گدھے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
میں نے مزید حوصلہ کرکے کہا ’’تم گدھوں کو اپنی حالت سدھارنی چاہئے ۔اور نہیں.....دوچار جلسے جلوس نکال کر ایک آدھ سیاسی تنظیم ہی بنالو ،جوتمھارے حقوق کے لئے آواز بلند کرے ‘‘۔گدھے نے میرے جوش وخروش کو نظر انداز کرتے ہوئے سردمہری سے کہا ’’ہمیں گدھا بن کے رہنا پسند ہے لیکن ہم سیاست میں داخل نہیں ہوناچاہتے ‘‘۔’’آخر کیوں..... !‘‘ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ۔گدھے نے دوٹوک انداز میں کہا ’’کل کہیں لوگ یہ نہ کہنا شروع کردیں کہ گدھوں نے بھی سیاستدانوں والے کام شروع کر دیے! ‘‘۔
(شیخ نوید روزنامہ جنگ کراچی سے وابستہ ہیں)

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment