انار کلی بازار میں داخل ہوتے ہی، بازار میں موجود ہوٹلز کے ویٹرز ہر آنے جانے والے فرد پر بھوکے گدھوں کی مانند جھپٹ پڑتے ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ بازار میں داخل ہونے والا ہر شخص ان کے کھانے سے لطف اندوز ہو۔ کوئی بھی شریف آدمی اس بازار میں اپنی فیملی کے ہمراہ داخل ہونے سے پہلے سو بار سوچے گا لیکن یہ تحریر انارکلی بازار کی خوبیاں یا خامیاں بیان کرنے کے لیے نہیں لکھ رہی بلکہ مغربی ملبوسات بنانے والی ایک برانڈ کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کیے جانے والے اخلاق باختہ اشتہار نے قلم اُٹھانے پر مجبور کیا ہے۔
اس اشتہار نے ہر ذی شعور پاکستانی اور لاہور کے غیور عوام کو انتہائی دکھ میں مبتلا کیا ہے۔ اشتہار اسی انار کلی بازار میں فلمایا گیا ہے، اس اشتہار کے مطابق بازار میں دکاندار معمول کے مطابق اپنی دکانوں پر مصروف ہیں۔ ایک دو کھانے کے ڈھابوں پر چار لڑکیاں کھانے میں مشغول ہیں۔ اچانک بازار میں ایک رکشہ آ کر رکتا ہے، اس سے ایک نوجوان لڑکی سر پر سیاہ چادر اُوڑھے بازار میں داخل ہوتی ہے۔ بازار میں موجود مرد ترسی ہوئی نظروں جبکہ کھانے کے ڈھابوں پر بیٹھی لڑکیاں کن اکھیوں سے اس نو وارد لڑکی کو دیکھتے ہیں، گویا کہ انارکلی بہ نفس نفیس بازار میں اتر آئی ہو یا ان کی پڑوسن نے قربانی کا نیا جانور لیا ہو اور وہ ان کے سامنے سے گزر رہا ہو۔ لڑکی چلتے چلتے بازار کے نصف میں پہنچتی ہے، ایک لڑکا اس کے پاس سے گزرتا ہے اور ماشاءاللہ کہہ کر اس پر جملہ بازی کرتا ہے۔ ماشاءاللہ کا لفظ سنتے ہی لڑکی کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو جاتی ہیں، وہ اپنی چادر اتار پھینکتی ہے اور پیچ بازار میں ٹھمکے لگانا شروع کردیتی ہے۔ کیوں کہ اس نے مذکورہ برانڈ کے ملبوسات زیب تن کیے ہوئے ہیں، اور ان ملبوسات کو پہننے کے بعد اس کے انگ انگ میں بجلی سی بھر گئی ہے اور اس بجلی سے وہ سارے بازار کو جھٹکے دے رہی ہے، اس کے سارے جسم پر رعشہ طاری ہے اور وہ مسلسل جھومے جار ہی ہے۔ یوں لگ رہا تھا کہ گویا اس برانڈ کا لباس زیب تن کرتے ہی جی مچل اٹھتا ہے اور سر بازار ٹھمکے لگانے کو من کرتا ہے، اور اس میں کوئی شرم کوئی حیا مانع نہیں ہوتی۔
واضح رہے کہ یہ اشتہار ایک منصوبہ بندی کے تحت ریکارڈ کیا گیا۔ بازار میں عام لڑکیوں کے روپ میں پہلے سے ہی ماڈلز کو بھیج دیا گیا۔ لڑکی ٹھمکوں کا آغاز کرتی ہے تو فوری باقی ماڈلز اس کے ساتھ ”رقص انارکلی“ میں شریک ہو جاتی ہیں، دائیں بائیں جھوم کر وہ سارے جسم کی نمائش کر تی ہیں گویا ماڈلنگ لباس کی نہیں بلکہ جسم کی کر رہی ہوں۔ برانڈ کا سلوگن اور نام (DO your own thing. DYOT) ہے یعنی اپنی مرضی کرو.
میں بطور لڑکی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ برانڈ پاکستانی عورت سے کیا کرانا چاہتا ہے۔ پہلے ہی نام نہاد آزادی کے نام پر عورت کو بازار کی رونق بنا دیا گیا ہے۔ اب برانڈ اشتہار کے نام پر اس کے جسم کو فروخت کیا جا رہا ہے۔ اشتہار کے نام پر اسے اخلاقی پستیوں کی تاریک وادیوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔ یورپی طرز کے ملبوسات میں سر عام جسم کی نمائش کا یہ طریقہ پہلے یورپ میں رائج تھا مگر اب مارکیٹنگ کا یہ طریقہ پاکستان میں رائج ہو رہا ہے، اور ہماری اقدار، روایات اور اخلاقیات کو دیمک کی طرح کھانے لگ گیا ہے۔ تہذیب کا سر عام جنازہ نکالا جا رہا ہے۔
برانڈ کے فیس بک صفحے پر اپ لوڈ کیے گئے اس گھٹیا اشتہار میں یہ مئوقف اختیار کیا گیا کہ آج کی عورت آزاد ہے، اسے ہر قسم کی آزادی دی جائے۔ عورت کو آزادی کا نیا تصور دیا جا رہا ہے، تاکہ وہ اپنی قدر کھو بیٹھے، اور مرد کی برابری کے چکر میں عزت کے بجائے ذلت و خواری اس کا مقدر ٹھہرے۔ آزادی کے اس نئے تصور کا مطلب فحاشی و عریانی پھیلا کر عورت کو ایک پراڈکٹ کی مانند پیش کرکے اشتہارات کی زینت بنانا ہے۔ محض اپنی پروڈکٹ فروخت کرنے کے لیے عورت کے جسم کو مقناطیسی طاقت کا حامل دکھایا جاتا ہے تاکہ زیادہ لوگ اشتہار دیکھیں اور پراڈکٹ خریدنے کی جانب مائل ہوں۔
آزادی کے اس نام نہاد تصور کا مقصد عورت کو تہذیب و مذہب سے آزادی کی ترغیب دلانا اور مغربی روایات کا غلام بنانا ہے تاکہ یہاں بھی وہ مرد کےلیے کھلونا بن جائے جس سے وہ اپنی مرضی سے کھیل سکے۔ ایسے اشتہار واقعی آزادی دیتے ہیں، مذہب و اخلاقیات سے بےزاری کی آزادی، تہذیب و روایات، اخلاقیات اور معاشرت سے آزادی۔ ٹی وی چینلز پر جو اشتہارات دکھائے جاتے ہیں وہ کوئی بھی شریف انسان اپنے خاندان کے ہمراہ دیکھ نہیں پاتا، اس کے تباہ کن اثرات کے باوجود اس کے بارے میں بات نہیں کی جا رہی۔ تقلید مغرب میں عورت کی آزادی کی خواہش رکھنے والے مغرب کے خاندانی نظام کی تباہی بھول گئے ہیں، جس نے مغرب میں عورت کو سر بازار ذلیل و رسوا کر دیا ہے۔ عدم تحفظ کے ساتھ اس نے مغرب کو اخلاقی پستیوں کی جانب دھکیل دیا ہے۔ عورت کو اعلیٰ مقام ملنے کے بجائے اسے زمانے کی گرد میں ذلیل و خوار کر دیا ہے۔
اس اشتہار پر حکومتی کردار لمحہ فکریہ ہے۔ حال میں متعارف کرایا جانے والا سائبر کرائم بل شخصی آزادیوں پر تو قدغن لگا رہا ہے مگر اخلاقیات کو نقصان پہنچانے پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے. عورت کی تذلیل کو کیوں برداشت کیا جا رہا ہے؟ کیا ہماری عورت ایسے ہی بازار میں ٹھمکے لگاتی ہے؟ کیا ایسے ہی اس کا تماشا دیکھا جاتا ہے؟ کیوں سائبر کرائم بل اور سیکورٹی ادارے اس اشتہار پر خاموش بیٹھے ہیں؟ آخر کیوں حکومت اس پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ذی شعور پاکستانی کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں مگر ان سوالات کے جوابات شاید باقی سوالوں کی طرح کبھی نہ مل سکیں. ہم یوں ہی بھوک ، پیاس اور چھت کی تلاش میں سرگرداں رہیں گے اور ہماری اقدار ماریکٹنگ کی دوڑ میں کہیں کھو جائیں گی۔ حکومت کی طرف دیکھنے کے بجائے ہمیں خود اپنی اقدار کے تحفظ کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا، شاید ہمارا جلایا ہوا ایک دیا ہی مستقبل میں چراغاں کرنے کا سبب بن جائے۔
(انعم احسن سپیرئیر یونیورسٹی کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ایم فل کی طالبہ ہیں)
تبصرہ لکھیے