ہوم << مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (2) – مولوی روکڑا

مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (2) – مولوی روکڑا

اسی کی دہائی میں سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوئی تو ملکوں کے پوائنٹ آف انٹرسٹ کا اور ایک محاذ خلیج کی جنگ کی صورت میں کھل گیا. ایران اور عراق کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو امریکہ، اسرائیل اور دوسرے ممالک نے اپنے اپنے مفاد کے پیش نظر فیصلے کیے. امریکہ اور برطانیہ نے کیمیکل ویپن (Chemical weapon) عراق کو دیے اور ساتھ میں guaranteed loan یعنی امریکا کے ٹیکس payer کا پیسہ ڈبل کیا. فنانشل ٹائمز کے مطابق امریکہ کی جن کمپنیز نے چور دروازے سے عراق کو اپنی ٹیکنالوجی بیچی، ان میں نامی گرامی ہیولٹ پیکارڈ Hewlett - Packard، اور Tektronix اور میٹرکس (Matrix) شامل تھیں. فرانس نے عراق کو ہائی ٹیک فوجی سازوسامان اور یورینیم فروخت کی. پرتگال نے بھی یورینیم فروخت کیا. برطانیہ نے عراق کو Sodium cyanide for chemical weapons، اور پلوٹونیم، اور گیس سپیکٹرومیٹر ( gas spectrometer) فروخت کیے. جبکہ ایران کو اسرائیل نے 75 ملین امریکی ڈالر مالیت کے ہتھیار اسرائیل ملٹری انڈسٹریز کے اسٹاک سے فروخت کیے. اس خلیجی جنگ میں سعودی عرب کا پوائنٹ آف انٹرسٹ عراق کو سپورٹ کرنا تھا، وہاں پاکستان کا پوائنٹ آف انٹرسٹ ایران کو سپورٹ کرنا تھا، اس وقت کے صدر ضیاء الحق جس کو آج ہر سیکولر گالی دینا فرض بلکہ سیکولرزم کی معراج سمجھتا ہے، اس کے لیے عرض ہے کہ اسی ضیاء الحق نے عراق ایران جنگ میں ایران کا نہ صرف ساتھ دیا تھا بلکہ surface-to-air missile دیے اور خفیہ مالی امداد بھی کی، باوجود اس کے سعودی عرب اور امریکہ کا بہت زیادہ پریشر تھا. اس کے علاوہ چائنیز ہتھیار ، اور امریکہ کے وہ ہتھیار جو افغان جہاد کے نام پر لیے گئے تھے، وہ بھی ایران کو دیے گئے.
اس خلیجی جنگ کی گود سے مسلم ممالک میں جو تنازع پیدا ہوا، وہ سنی شیعہ جنگ کا روپ اختیار کرکے فرقہ وارانہ شکل میں ڈھل گئی. مذہبی رہنمائوں نے ایک دوسرے پر قسم قسم کے حملے کیے، اس کے اثرات پاکستان میں بھی ظاہر ہونے لگے، ایک طرف توہین آمیز لٹریچر، صحابہ کرام کو گالیاں، ازواج مطہرات پر بہتان سامنے آئے تو نتیجتا دوسری طرف سے کفر کے فتویٰ سر عام ہونے لگے. اس توہین آمیز لٹریچر کی وجہ سے پاکستان میں فرقہ وارنہ اختلاف کتابوں سے نکل کر سڑکوں اور تقریروں میں آ گئے، اور پاکستان کو ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش کی طرف دھکیلتے گئے. اس کےلیے تنظیمیں بنیں، جنھوں نے بعد ازاں مسلح جتھوں کی صورت اختیار کر لی. یہ تھی وہ سوغات جو ایران عراق کی صورت میں پاکستان کو نصیب ہوئی. اس فرقہ وارانہ جنگ میں جہاں دوسرے ممالک نے اپنا اپنا پوائنٹ آف انٹرسٹ تلاش کیا وہیں خود پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ان تنظیموں کو اپنے سیاسی فوائد کے لیے استعمال کیا اور ان کے ساتھ مل کر الیکشن لڑے اور جیتے. برادر اسلامی ممالک نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے اپنے فرقے کی تنظیموں کو نہ صرف فنڈنگ فراہم کی بلکہ گوریلا ٹریننگ سے بھی لیس کیا جس کے شواہد اب سامنے آ رہے ہیں. آج اس فرقہ واریت کا ملبہ ضیاء الحق اور افغان جہاد پر ڈالا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خلیجی جنگوں کا شیعہ سنی تنازعے کی شکل اختیار کرنا پاکستان میں اس فرقہ واریت کی بنیادی وجہ ہے. توہین آمیز لٹریچر کی اشاعت سے اشتعال پھیلا، شدت میں اضافہ ہوا اور اس نے باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر لی جس میں دونوں طرف مرنے والے عام شہری ہیں. اگر فرقہ واریت کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو نہ صرف بلاتفریق کالعدم تنظیوں کا خاتمہ کرنا ہوگا بلکہ توہین آمیز لٹریچر پر بھی پابندی لگانی ہوگی اور دیگر ممالک کی مداخلت کا بھی قلع قمع کرنا ہوگا.
نوے کی دہائی میں پاکستانی توجہ کشمیر جہاد اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کو سہارا دینے میں مرکوز رہی. پاکستان کے اندر فرقہ وارنہ تنظیموں پر سیاسی چھتر چھایا ہونے کی بدولت پولیس اور دوسرے اداروں نے اسے کنٹرول کرنے کو خاص ترجیح نہیں دی جس کی وجہ سے سنی اور شیعہ فرقے کے وہ نامی گرامی علمائے کرام، پروفیسرز اور ڈاکٹرز بھی قتل ہوئے جن کا فرقہ واریت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا. سیاسی جماعتوں نے اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کے لیے عسکری ونگز سے چشم پوشی کی. وہ ممالک جن کے پوائنٹ آف انٹرسٹ اس وجہ سے بڑھ گئے تھے انہوں نے بھی اس فرقہ وارانہ کشمکش کو بڑھاوا دیا، ان دنوں پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا تھا اور ریاستی ادارے ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مصروف رہے، اور اندرونی معاملات پولیس جیسے ادارے پر چھوڑ دیے گئے. سیاسی قیادت اور ایلیٹ کلاس نے ہر کیس میں سیاسی مداخلت کو جیسے فرائض میں شامل کر لیا ہو، مقصود اپنی قوت میں اضافہ ہو، اس تناظر میں معیشت کی مضبوطی پر توجہ نہ رہی، نتیجتا بےروزگاری بڑھتی گئی اور نوجوان ان تنظیموں کے ہاتھ چڑھتے گئے !
(جاری ہے)
پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں
تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں