رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی نیکیوں میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ لوگ مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ فرائض کے علاوہ نوافل کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ زکوٰ ۃ ادا کرنے کے لیے بھی رمضان المبارک کا انتخاب ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نفلی صدقہ خیرات بھی کثرت سے کیے جاتے ہیں۔ الغرض ، نیکیوں کا موسمِ بہار آ جاتا ہے۔ میں نے اس سال چند ایسے واقعات دیکھے جن سے دل خوش ہوگیا اور یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ ہمارے معاشر ے میں اب بھی خیر خواہی اور اخوت کے جذبات موجود ہیں۔ ایک مسجد میں کوئی شخص روزانہ دیگیں پکوا کر افطاری سے پہلے غریبوں میں تقسیم کرتا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ ضرورت مندوں کو کھینچ کھینچ کر اپنے دسترخوان پر لا بٹھاتے کہ ہمارے پاس افطاری کر جاؤ۔ ایک پٹرول پمپ پر لکھا ہوا تھا "افطاری ہمارے پاس کیجیے۔"
ان نیک کاموں کے لیے بہت زیادہ مال و دولت کا ہونا بھی ضروری نہیں۔ ہر شخص اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اپنا مال و دولت اللہ کی راہ میں خرچ کر سکتا ہے۔ ایک مزدور اپنی پرانی سائیکل پر گزر رہا تھا کہ ایک موٹر سائیکل سوار اس کے پاس رکا۔ اس نے اپنے پاس موجود ایک چھوٹا سا افطاری کا پیکٹ ( جو کہ غالباً ایک جوس کے ڈبے اور چند کھجوروں پر مشتمل ہوگا) اسے تھمایا اور آگے بڑھ گیا۔ کچھ نوجوانوں نے ایک جگہ ٹھنڈے مشروب کا ایک دیگچہ بنایا۔ افطاری کا وقت ہوا تو یہ نوجوان، مسافروں کے لیے مشروب کے گلاس پیش کرنے کے لیے آدھی آدھی سڑک تک جاتے اور ان کی پیاس بجھاتے ۔ ضروری نہیں کہ افطاری صرف غریبوں کو کروائی جائے۔ افطاری کی چیز یں امیر لوگوں کو بھی بھیجی جاسکتی ہیں۔ افطار ی ان لوگوں کو بھی دی جاسکتی ہے جو اپنے گھر سے دور ہوں۔افطاری کے وقت پولیس چوکی پر ایک گاڑی رکی اور انہیں افطاری کے لیے ایک ڈبہ دے کر آگے بڑھ گئی۔ یہ تو چند مثالیں ہیں جو ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ کتنے ہی اور لوگ ایسے موجود ہوں گے جو اپنی اپنی بساط کے مطابق یہ نیک کام سرانجام دیتے ہیں۔
یہ سب خرچ کرنے والے لوگ خوش نصیب ہیں کہ اللہ نے انہیں خرچ کرنے کی توفیق بخشی ہے۔تجربہ شاہد ہے کہ انسان میں مال کی شدید محبت پائی جاتی ہے۔ اپنا مال دوسروں پر خرچ کرنا جہاں ایک طرف خدا کی رضامندی کا باعث ہے،وہاں دوسری طرف خلقِ خدا کی خدمت کی وجہ سے دل کے سکون کا باعث بھی ہے۔ یقینا ً ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے ہمارا معاشرہ چل رہا ہے۔ جب میں ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو دل سے دعا نکلتی ہے کہ خدا یہ سلسلہ جاری و ساری رکھے اور مجھے بھی اس طرح مال دولت دے اور پھر اسے تقسیم کرنے کی توفیق بھی عطا کرے۔ حدیث کا مفہوم ہے: حسد دو شخصوں کے علاوہ کسی اور سے جائز نہیں۔ (ایک) وہ شخص جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا ہو اور اسے نیک کاموں میں خرچ کرنے پر لگا دیا ہو۔ (دوسرا) وہ شخص جسے اللہ نے علم وحکمت کی دولت دی ہو اور وہ اس سے فیصلے کرتا ہو اور اسے ( دوسروں کو) سکھاتا ہو۔ (بخاری: 1409)
رمضان اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے۔ عید کی خوشیاں ہمارے لیے اللہ کی طرف سے تحفہ ہیں۔ رمضان میں ہم نے بہت سے اچھے کاموں کی عادت بنا لی تھی۔ نیکی صرف رمضان تک محدود نہیں ۔ نیکی تو مسلمان کا ایک طرزِعمل ہے جو رمضان کے بعد بھی ساری زندگی جاری رہنا چاہیے۔ رمضان ختم ہونے کے بعد بھی اپنے انہی نیک کاموں کو جاری رکھیں۔ اگر وقت نکالنا مشکل ہے تو وقت بدل کر اپنی فراغت کے وقت میں یہ نیک کام سرانجام دیں۔ اگر آپ صرف رمضان میں خرچ کرنے کے لیے مال و دولت کا ایک حصہ الگ کرتے ہیں اور رمضان کے علاوہ آپ کے پاس اتنے زائد پیسے نہیں ہوتے کہ بڑے پیمانے پر خرچ کرسکیں۔ تو سوچ بچار کرکے کوئی ایسی صورت نکالیں کہ آپ چھوٹے پیمانے پر خرچ کر سکیں، لیکن یہ خرچ کرنا جاری رکھیں۔ ہم یہ نیکیاں جاری رکھ کر رمضان المبارک کی یہ برکتیں عید کے بعد بھی سمیٹ سکتے ہیں۔ یہی نیکیاں ہمارے اسلامی معاشرے کی خصوصیات ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کو ایسے اعمال سب سے زیادہ پسند ہیں جو مسلسل کیے جاتے رہیں، اگرچہ وہ مقدار میں تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں۔ (بخاری:6464) اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔
"آپ کے پاس اتنے زائد پیسے نہیں ہوتے کہ بڑے پیمانے پر خرچ کرسکیں۔ تو سوچ بچار کرکے کوئی ایسی صورت نکالیں کہ آپ چھوٹے پیمانے پر خرچ کر سکیں، لیکن یہ خرچ کرنا جاری رکھیں."
بہت اچھی نصیحت... جزاك الله!