افغانستان، بھارت اور ایران کی بڑھتی ہوئی قربتیں ہمارے لیے انتہائی خوفناک منظرنامہ پیش کر رہی ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ ہمارے تعلقات میں بہتری آنے کے بجائے، روزبروز تناؤ آتا جا رہا ہے۔ اشرف غنی، مودی اور روحانی تینوں اس اتحاد کو اسٹریجک شراکت داری سمجھتے ہیں۔ بھارت ایران میں چاہ بہار کے ساتھ ساتھ افغانستان میں عسکری اور معاشی منصوبوں پر بھرپور سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بھارت اس اتحاد کو پاکستان کے تین اطراف سے گھیرنے کے منصوبے کے ساتھ ساتھ مغربی ایشیا میں معاشی نفوذ کے موقع کے طور پر بھی لے رہا ہے۔
اس سارے منظر نامے میں ہم چین کے ساتھ پینگیں بڑھا کر ہر طرح کے خطرات سے نچنت ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ ہماری قیادت اس پیچیدہ بساط پر دشمنوں کے بیسیوں مہروں میں گھری صرف راہداری منصوبے کی توپ سے شہ مات کرنے کا سوچ رہی ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ دوڑو زمانہ قیامت کی چال چل گیا۔ جناب! معاملہ اتنا سیدھا سادہ نہیں رہا۔
ہماری حکومت نے برضا و رغبت ہمسائیوں کے باب میں خارجہ پالیسی کو عسکسری قیادت کو سونپ رکھا ہے۔ حکومت کی خارجہ معاملات میں عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ کوئی ڈھنگ کا وزیرِخارجہ تک تعینات نہیں کیا سکا۔ بہت سے خارجہ معاملات میں وزیرِ داخلہ کو بیان دینا پڑتا ہے۔ لیکن عسکری قیادت سے اس ضمن بہت زیادہ توقعات رکھنا بھی زیادتی ہوگی۔ عسکری ذہن کو حکم دینے یا حکم لینے کی تربیت دی جاتی ہے۔ خارجہ امور کے داؤ پیچ سے عسکری ذہن کلیتاً نابلد ہوتا ہے۔ ماضی میں عسکری حوالوں سے جنرل ضیاءالحق شاید وہ شاذ مثال ہیں، جو خارجہ امور میں عدیم النظیر مہارت کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے چار میں سے تین ہمسائے ہمارے خلاف محاذ بنا چکے ہیں اور ہمارا سارا انحصار چوتھے ہمسائے پر ہو چکا ہے۔ جو بجائے خود ایک خطرناک بات ہے۔ چین کی اپنی مجبوریاں اور مفادات ہیں۔ جہاں تک اس کے مفادات اجازت دیں گے وہ ہمارے ساتھ کھڑا رہے گا، لیکن اس سے زیادہ اس سے کوئی توقع رکھنا زیادتی ہوگی۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ چین بتدریج بھارت سے بھی اپنے سیاسی اور معاشی تعلقات کونئی جہتیں دے رہا ہے۔ بقول اکرم ذکی، پہلے ہند چین بھائی بھائی کا نعرہ مقبول ہوا تھا، اب ہند چین بائے بائے (Buy, Buy) کا نعرہ مقبول ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو ایک عظیم تر معاشی اکائی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ دونوں ممالک میں سالانہ باہمی تجارت 100 ارب ڈالر کا ہندسہ چھونے کو ہے، جبکہ ہمارے پاس لے دے کے بیالیس ارب ڈالر کا معاشی راہداری منصوبہ ہے، جس کی تکمیل میں کئی برس درکار ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد سینکڑوں اربوں کا کاروبار اس راستے سے ہوگا۔
چین کے بھارت کے ساتھ ہی نہیں، ایران کے ساتھ بھی گہرے معاشی تعلقات ہیں۔ 2015ء کے آخر میں چینی صدر نے ایران کے دورے کے دوران، اگلے دس سال میں باہمی تجارت کو 600 بلین ڈالر تک بڑھانے کے منصوبے پر دستخط کیے ہیں۔ علاوہ ازیں گوادر کے التوا کی صورت میں ایران کی چاہ بہار کی بندرگاہ چین کے لیے گوادر کا نعم البدل بن سکتا ہے۔
:
ان حالات میں پاکستان کو اپنے ہمسائیوں سے دوستانہ تعلقات بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اور نہیں تو کم از کم اس مکروہ اتحاد کو توڑنے کی ضرورت ہے۔ ایران کے پاس تیل ہے، بھارت کے پاس سستی افرادی قوت ہے، ہمارے پاس کیا ہے؟ ہم صرف ذہانت سے ہی اپنا رستہ بنا سکتے ہیں۔ سمارٹ موو ہی ہماری بقا اور کامیابی کی ضمانت بن سکتی ہے۔
:
افغانستان کا پاکستان سے محبت اور نفرت کا پیچیدہ رشتہ ہے۔ افغان جہاد کے دنوں میں خاد پاکستان میں دھماکے کرواتی تھی۔ اس کے بعد جب موقع آیا کہ ہم اپنی دوست حکومت قائم کروا لیں، ہم نے امریکی خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مفلوج حکومت قائم کروائی، جس کا نتیجہ افغانستان میں خون خرابے اور باہمی مناقشوں کی صورت میں سامنے آیا۔ حتٰی کہ ہمیں ساری بساط الٹ کر نئی بساط بچھانی پڑی جس میں بادشاہ کا مہرہ طالبان کو بنایا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد ہم نے اس بساط کو بھی الٹ دیا اور نئی بساط بچھائی جس میں بادشاہ کا عہدہ اپنے مخالفین کو بخشا۔ شاید ہمارے کارپرداز یہ سمجھتے تھے کہ اس طرح سے مخالفتیں ختم ہو جائیں گی اور محبت کے زمزمے بہنا شروع ہو جائیں گے۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ بہرحال ماضی سے آگے بڑھتے ہیں۔
ابھی حالیہ دنوں میں افغانستان میں ایک مثبت پیش رفت گلبدین حکمت یار کی حزبِ اسلامی کا افغان حکومت سے معاہدہ ہے۔ پاکستان پندرہ سال پہلے اپنے دوستوں (طالبان) کی حکومت ختم کروا کے مخالفین کی حکومت قائم کروانے کا جو سیاسی گناہ کر چکا ہے، آج اس کے کفارے کا وقت ہے۔ گلبدین حکمت یار ہمیشہ پاکستان کے دوست رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ پاکستانی حکومت ہمیشہ ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں میں شامل رہی ہے۔ اپنے محسنین اور مہمانوں کو دشمن بنانا تو کوئی ہم سے سیکھے۔ پاکستان میں تیس لاکھ کے قریب افغان پناہ گزین موجود ہیں۔ بہت سے یہیں رچ بس گئے ہیں۔ یہاں ان کے گھربار اور کاروبار موجود ہیں۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ پاکستان مہمان نوازی کے بعد جب پیٹھ پھیرنے پر آتا ہے تو اپنی مہمان نوازی پر ہی مٹی ڈال دیتا ہے۔ چند ماہ سے افغان پناہ گزینوں کو پاکستان سے نکال باہر کرنے کے نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔ یوں باور کرایا جا رہا ہے کہ گویا پاکستان کے سب مسائل کی وجہ یہ پناہ گزین ہیں۔ بخدا، اپنی نیکی کو ضائع مت کیجیے۔ پناہ گزینوں کو واپس بھیجنا ہی ہے تو دھکے تو مت دیجیے۔ عزت و احترام اور گفت و شنید سے اس مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں افغاستان میں اپنے دوستوں کو سیاسی عمل میں شامل کروا کے حکومتی حلقوں میں اپنا رسوخ بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ایران کی پاکستان سے سردمہری کی وجوہات میں (سعودی ایران پراکسی وارکے پس منظر میں) پاکستان کا سعودیہ کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنا، ان کی چاہ بہار کے مقابلے میں گوادر بندرگاہ اور معاشی راہداری کا منصوبہ بنانا اور ایران، پاکستان، بھارت گیس پائپ لائن کو التوا میں رکھنا شامل ہے۔
پاکستان نے ایران اور سعودیہ کی پراکسی وار میں انتہائی محتاط موقف اپنایا ہے۔ حتٰی کہ یمن کے معاملے میں پاکستانی فوج سعودیہ بھیجنے سے انکار پر سعودی حکومت کو بھی دھچکا پہنچا۔ امارات کے وزیر نے تو برسرعام پاکستانی پالیسی پر تنفر کا اظہار کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری کمزور سیاست کے سبب ہمیں ایران سے بھی اس پالیسی پر کوئی داد نہ مل سکی۔
اب وقت ہے کہ ایران کو دیرینہ دوست اور ہمسایہ ہونے کی نسبت سے اعتماد میں لیا جائے۔ سعودی ایرانی کشمکش کو کم کروانے کے لیے ثالثی مہم شروع کی جائے۔ ایران بھی پاکستان کی معاشی راہداری میں شمولیت میں دلچسپی ظاہر کر چکا ہے۔ ایران سے پہلے وسطی ایشیا کی ریاستیں بھی اس منصوبے میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کر چکی ہیں۔ ایران کی یہ خواہش پاکستان، چین اور ایران تینوں کے مفاد میں ہے۔ یہ تینوں فریقین کے لیے ایسی win-win صورتحال ہے کہ اس سے ایسی علاقائی معاشی اکائی وجود میں آئے گی جس سے ایران کے بہت سے مفادات بھی وابستہ ہوں گے۔ اس سے بھارت کے ایران پر بڑھتے ہوئے سائے یقیناً سمٹنا شروع ہو جائیں گے۔ ایران پر عالمی پابندیوں کے خاتمے کے بعد پاک بھارت ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو بھی دوبارہ شروع کرنا چاہیے۔ کسی استعماری طاقت کو اس سے تکلیف ہوتی ہے تو ہو، ہمیں اپنے مفادات میں قدم قدم آگے بڑھتے جانا چاہیے۔
اس تکون کا تیسرا اور اہم ترین ملک بھارت ہے۔ ہمارا اختلاف قدیم ہے اور اس کے جلد حل ہونے کی کوئی توقع نہیں ہے۔ اس سے دوستی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ دونوں ممالک میں کشمیر کا ایسا مسئلہ ہے کہ پاکستانی نقطہ نظر سے جس کا، بادی النظرمیں، جنگ کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ اس وقت تک جب تک ہم اس مسئلہ کو حتمی طور پر حل کرنے کے قابل نہیں ہو جاتے، بھارت کو اس کے اندر ہی مصروف رکھنے کی پالیسی اپنانی پڑے گی۔ جب تک یہ پالیسی موجود تھی، پاکستان میں امن و شانتی تھی، پاکستان نے جب سے یہ پالیسی چھوڑی، پاکستان دہشت گردی کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔
پاکستانی قیادت سے گزارش ہے کہ وزارت خارجہ کو بےوزیر رکھنے کے بجائے صاحبزادہ یعقوب سا کوئی وزیرِ خارجہ تعینات فرمائیے۔ صاحبزادہ کے ساتھ کوئی ضیاء الحق کی سوجھ بوجھ والا حکمران بھی تو ہو۔ خیر، جو میسر ہے، اسی پر گزارا کرنا پڑے گا۔ عسکری قیادت سے گزارش ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور اس میں ارتکاز کی ضرورت ہے۔ خارجہ معاملات کو سیاسی حکومت کو سنبھالنے دیں۔ اگر یہ معاملات مکمل طور پر حکومت کے سر پر نہیں چھوڑے جا سکتے تو بھی دونوں قیادتوں کو مشورے اور میل ملاقاتوں کے ذریعے ایک صفحے پر آ جانا چاہیے ورنہ ہمارا دشمن اتنا بےرحم ہے کہ ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
مکرر عرض کروں گا کہ مخالفین کے پاس وسائل ہیں، ہمارے پاس استعمال کرنے کے لیے صرف ذہانت بچی ہے۔ دل کھول کر اس خزانے کو استعمال کر لیجیے۔ کوئی بہت توپ ذہانت بھی درکار نہیں ہے۔ بس یہی ذہانت عامہ ہی کافی ہے۔
تبصرہ لکھیے