بچوں کو عید کے دن کا انتظار تو سال بھر رہتا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ بچے عید الفطر کے لیے زیادہ بے تاب ہوتے ہیں یا عید الاضحیٰ کے لیے۔ ہر دو عید کی اپنی خصوصیات ہیں اور دونوں میں ہی دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ عید الفطر جسے چھوٹی عید بھی کہا جاتا ہے ، ”عیدی“ کی مناسبت سے یادگار ہوتی ہے۔ بڑی عید یعنی عید الاضحیٰ کی رونقیں قربانی کے جانوروں کی بدولت ہوتی ہیں۔
ہمارے خیال میں تو بچوں کے لیے بڑی عید اس لیے زیادہ مزیدار ہوتی ہے کہ ان کی عید کا آغاز تو اسی دن ہو جاتا ہے جب ان کے گھر قربانی کا بکرا آتا ہے چاہے بکرا دس دن پہلے آئے یا ایک دن پہلے۔ بکرے کی خدمت بچپن میں ہر دور کے بچےکا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ کئی ٹرینڈ بدلے۔ کچی سڑکیں پکی ہوگئیں، پگڈنڈیاں شاہراہیں بن گئیں، پیغام رسانی کے لیے کبوتر وں کے بجائے سمارٹ فون استعمال ہونے لگے، حال دل سنانے کے لیے خطوط کے بجائے واٹس ایپ کا سہارا لیا جانے لگا، جہاں کبھی تانگے چلا کرتے تھے، وہاں سے اب میٹرو ٹرین گزرتی ہے، پی ٹی وی دیکھنے والے جیو اور دنیا دیکھنے لگے، ٹیسٹ میچ کی جگہ ٹی20 رواج پا گیا، عمرو عیار اور ٹارزن کی کہانیاں پڑھنے والے فیس بک استعمال کرنے لگے، جو مرنڈا اور گولہ کھاتے تھے، اب شوارما اور پیزا کھاتے ہیں لیکن اتنا سب کچھ بدلنے کے بعد بھی گر کچھ نہیں بدلا تو بچوں اور بکروں کا محبت بھرا تعلق نہیں بدلا۔
عید سے کم و بیش دس دن پہلے ہی بچوں کے دیرینہ مطالبے کاآغاز ہوجاتا ہے کہ بکرا کب آئے گا؟ محنت مشقت سے رزق حلال کمانے والے ایک کثیر متوسط طبقے کو یہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ ا س ہوش ربا مہنگائی کے دور میں محدود آمدنی میں بکرے کے لیے رقم کا انتظام کیسے کیا جائے ؟ ؟ شہروں میں رہائش پذیر خواتین اس غم میں غلطاں ہوتی ہیں کہ بکرا آئے گا تو اس کی دیکھ بھال کون کرے گا ؟؟ اس کو کہاں رکھا جائے گا اور اس کی صفائی کا انتظام کیسے ممکن ہوگا؟؟ لیکن بچوں کی طلب اتنی صادق ہوتی ہے کہ بکرا خریدنے کے لیے پیسے بھی میسر آجاتے ہیں اور بکرے کو رکھنے کے لیے گھر میں جگہ بھی دستیا ب ہو جاتی ہے۔ الغرض بکرا آہی جاتا ہے۔
بچے عید قرباں تک بکرے کی مسلسل آو بھگت کرتے ہیں ۔ بکرے کے گلے میں دیدہ زیب ہار باندھا جاتا ہے ، اس کو حسین بنانے کے لیے مختلف جتن کیےجاتے ہیں ۔ عید تک بکرے کو صحت مند بنانے کے لیے انواع و اقسام کے کھانے اس کی خد مت میں صرف کیے جاتے ہیں ۔ بکرے کو ہر تھوڑی دیر بعد گلی میں آوٹنگ کرائی جاتی ہے ۔بکرے کی آوٹنگ کرانا اور گھمانا پھرانا بچوں کا سب سے پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے ۔اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ غریب گھرانوں کے بچے بھی آوٹنگ کے عمل میں حصہ دار بن جاتے ہیں اور ایک کا بکرا سب کا بکرا بن جاتا ہے۔ ایک اور اہم چیز بکروں کی خوبصورتی کا مقابلہ بھی ہوتا ہے جس میں ہر بچہ ہی دعویدار ہوتا ہے کہ اس کا بکرا سب سے خوبصورت ہے۔ بچوں کی خوشی دیدنی ہو جاتی ہےجب کوئی بکرا سینگ دکھاتے ہوئے کسی دوسرے بکرے کی جانب لپکتا ہے اور یہ منظر اس وقت تک بچوں کی جذباتی گفتگو کا موضوع رہتا ہے جب تک ایسا کوئی دوسرا منظر پیش نہیں آجاتا۔ جو بچے کسی وجہ سے اس منظر کو نہیں دیکھ پاتے ، وہ کافی دیر تک حسرت بھری نگاہوں سے ایکشن ری پلے کے لیے بکرے کو دیکھتے رہتے ہیں۔ بکرے کی خدمت میں مگن بچوں کو عید کے دن تک کھانے پینے سمیت کسی شے کا ہوش نہیں ہوتا۔
بالآخر عید کا دن آجاتا ہے، بچے اس دن ”مغموم خوشی“ کی عجیب کیفیت میں ہوتے ہیں جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ، عید کے دن کی خوشی بھی اور بکرے کی جدائی کا غم بھی۔ بڑوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ نماز عید کے بعد قصائی فوراً آجائے اور بچوں کی یہ دعا ہوتی ہے کہ طوفان آجائے ،آندھی آجائے پر قصائی نہ آئے۔ لیکن ، قصائی فرشتہ اجل کی مانند بالآخر نمودار ہو ہی جاتا ہے ۔ کچھ چھوٹے بچے تو رونے ہی لگ جاتے ہیں کہ ہمارے بکرے کو ہم سے جدا مت کرو اور بڑے بچے اپنے ہاتھوں سے اپنے محبوب بکرے کے گلے میں چھری پھیر کر اسےاداس دل کے ساتھ الوداع کر دیتے ہیں۔ بکرا ذبح ہوتے وقت محلے کے بچوں کی کثیر تعداد نم آنکھوں کے ساتھ بکرے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے موجود ہوتی ہے۔محلے کے ہر گھر میں بچوں کی جانب سے بکرے کو اسی طرح خراج عقیدت پیش کر کے رخصت کیاجاتاہے۔
یہ ہوتی ہے عید ۔۔۔۔ مسلمانوں کا تہوار ۔۔۔ یہ خوشی بھی ہے ۔۔۔ ایثار بھی ۔۔۔ اپنی خواہشات کو قربان کرنے کی تعلیم بھی ۔۔۔ رب کی خوشنودی کی خاطر خون بہانے کا جذبہ بھی۔۔۔براہیمی سنت کو زندہ و تازہ کرنے کا درس بھی ۔۔۔۔توحید کی اساس پر ایک امت کی تیاری کا قدرتی انتظام اور خدائی عمل بھی۔۔۔!!
تبصرہ لکھیے