ہوم << اسلام اور بیٹیوں کا وراثت میں حق - حافظ سلیمان طاہر

اسلام اور بیٹیوں کا وراثت میں حق - حافظ سلیمان طاہر

%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85%d8%a7%d9%86-%d8%b7%d8%a7%db%81%d8%b1 مخلوق کو پیدا کرنے والا اللہ رب العزت ہے جس نے پیدا کیا ہے ،اسی نے روزی کا بندو بست کیا ہے، اسی نے وراثت کے احکام اپنی کلام باری تعالیٰ میں بیان کیے ہیں، اسلام سے قبل ایک ظلم یہ بھی موجود تھا کہ عورتوں اور بچوں کو وراثت سے محروم کردیا جاتا تھا پھر قرآن نے آکر ان کو حصہ دلوایا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے’’ اللہ تعالیٰ تمہیں تمھاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگر لڑکیاں دو سے زیادہ ہوں تو ان کو متروکہ مال کا دوتہائی حصہ ملے گا اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کو نصف ملے گا متروکہ مال میں سے ( النساء :11) یہ آیت بہت بڑی نص ہے اس بات کی کہ بیٹیوں کا وراثت میں حق ہے جیسا کہ تفسیرابن کثیر میں منقول ہے یہ بات کہ جاہلیت میں بچیوں کو وراثت سے حصہ لوگ انھیں مہیا نہیں کرتے تھے۔ دور جاہلیت میں لوگ بیٹی کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔ تاریخ مذاہب عالم اور تہذیبوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بیٹی جو کہ ہمیشہ مظلومیت سے دوچار رہی، اس پر تاریک ترین اور سخت برے ادوار بھی آئے ہیں لیکن دین اسلام کا بیٹی پر بہت بڑااحسان ہے۔ وہ بیٹی جس کو مجسم گناہ، زہریلی ناگن، ہزاروں مکاریوں کا محل نظر، جہنم کا دروازہ اور بدی کا منبع تصور کیا جاتا رہا تھا، اس کے لیے نبی اکرمﷺ نے فرمایا:’’ جس شخص کی دوبیٹیاں جوان ہوجائیں، وہ ان سے اس وقت تک اچھا سلوک کرتا رہے جب تک وہ اس کے ساتھ رہیں، وہ اسے جنت میں ضرور داخل کروا دیں گی۔ ( سنن ابن ماجہ؛ 3670)
اسلام نے بچیوں کی تمدنی حالت پر نہایت مفید اور گہرا اثر ڈالاہے اور انھیں ذلت کے بجائے عزت و رفعت سے نوازا ہے۔ کم و بیش ہر میدان میں ترقی سے ہمکنار کیا۔ چنانچہ قرآن کا قانون وراثت و حقوق نسواں یورپ کے قانون وراثت و حقوق نسواں کے مقابلہ میں بہت زیادہ مفید اور زیادہ وسیع تر ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے آیت میراث میں بیٹی کے لیے دوثلث جب ایک سے زیادہ ہو، اگر ایک ہو تو نصف حصہ بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیٹی کو بالکل وراثت سے محروم نہیں کیا بلکہ اس کا جتنا حق تھا وہ اس کو عطا کیا ہے۔ احادیث میں بھی بیٹی کی وراثت کے احکام وارد ہوئے ہیں۔ جیسا کہ:
سیدنا سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی دو بیٹیوں کو لے کر نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ یہ سعد کی بیٹیاں ہیں۔ وہ غزوہ احد میں آپ کے ساتھ جہاد کرتے جام شہادت نوش کر گئے تھے. اب سعد کے بھائی نے سارا مال اپنے قبضے میں کر لیا ہے۔ مال کے بغیر عورت کا نکاح بھی نہیں ہوتا۔ نبیﷺ خاموش ہو گئے یہاں تک کہ آیت میراث نازل ہو گئی. آپﷺ نے سعد کے بھائی کو بلایا اور فرمایا کہ سعد کی دو بیٹیوں کو دو ثلث ترکہ سے دو، اس کی بیوی کو آٹھواں حصہ، باقی خود رکھ لو ( سنن ابی داود2891، جامع ترمذ ی؛ 2092، مسند احمد؛ 14798)
ایک آدمی سیدنا ابو موسیٰ اشعری اور سیدناسلمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے بیٹی، پوتی اور سگی بہن کی وراثت کے متعلق سوال کیا۔ انہوں نے کہا کہ بیٹی کے لیے نصف اور باقی سارا بہن کے لیے ہے اور سائل سے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاؤ اور امید ہے کہ وہ ہماری تائید کریں گے۔ اس آدمی نے سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا اور ان دونوں کی بات بھی بتلائی. ابن مسعودؓ کہتے ہیں۔ تب تو میں گمراہ ہو جاؤں گا۔ میں فیصلہ وہ کروں گا جو رسول کریمﷺ نے کیا تھا۔ بیٹی کے لیے نصف اور پوتی کے لیے چھٹا حصہ جس سے دو ثلث پورے ہو جائیں گے، باقی ماندہ متروکہ بہن کے لیے ( صحیح البخاری:6737)۔ اس حدیث سے بیٹی اور بہن کی وراثت کا علم ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث میں بیٹی و بہن کی وراثت ہے۔
سیدنا سعد بن وقاص ؓ کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوگیا۔ اللہ کے نبیﷺ میری تیمار داری کے لیے حاضر ہوئے۔ میں نے کہاکہ اے اللہ کے رسولﷺ اللہ مجھے ایڑیوں کے بل نہ لوٹائے۔ آپ نے فرمایا ہو سکتا ہے کہ اللہ تجھے بلندی دے اور تیرے ذریعے سے لوگوں کو نفع دے۔ صحابی رسول کہتے ہیں کہ ایک میری بیٹی ہے، میں چاہتا ہوں کہ اپنے مال میں سے نصف کی وصیت کردوں۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ زیادہ ہے۔ میں نے کہاکہ ثلث کی، فرمایا کر دو ( صحیح البخاری)
امام بخاری نے اپنی جامع میں باب قائم کیا ہے ( باب میراث البنات) امام ترمذی نے بھی اپنی جامع میں باب قائم کیا ہے ( باب ما جاء فی میراث البنات). ان تمام باتوں کا حاصل یہ ہے کہ بیٹی کی وراثت بہت اہمیت کی حامل ہے۔ فتح الباری میں لکھاہے کہ جاہلیت میں بیٹیوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا ( جلد 15 صفحہ 437) لیکن نبی کریم ﷺ نے بیٹی کو حصہ دلوا کر اس کی حوصلہ افزائی کی لیکن آج بیٹی کو حصہ نہیں دیا جاتا۔ اس کو جاہلیت والے انداز سے منحوس سمجھا جاتا ہے۔ یہ صرف ہماری دین سے دوری کی وجہ سے ہے وگرنہ دین نے ہر ایک کا حق بیان کیا لیکن ہم قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنے سے غافل ہیں۔ دین اسلام میں ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ آج کل پڑھا لکھا طبقہ اور دینی ذہن رکھنے والے افراد بھی بیٹی اور بہن کو وراثت میں حصہ دینے سے لیت ولعل سے کام لیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺکی محبت کا دم بھرنے والو! نبی محمد کریم ﷺ کی تعلیمات ہی دینی و دنیاوی کامیابیوں کا سبب ہے۔ اپنی عورتوں کو وراثت میں شریعت اسلامیہ کے مطابق حصہ دیں تاکہ روز قیامت اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے اس شرمندگی سے بچ سکیں اور معاشرہ بھی اخلاقی بگاڑ سے محفوظ رہ سکے۔ اللہ ہم کودین کی سمجھ عطا فرمائے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے (آمین )

Comments

Click here to post a comment