ہوم << بچوں کے نام خط کی روایت - عاطف الیاس

بچوں کے نام خط کی روایت - عاطف الیاس

عاطف الیاس انسان اپنے تصورات کا اسیر ہے۔ اس کا ہر قول و فعل اس کے نقطہ نظر کا محتاج ہے۔ اسی لیے وہ خط لکھے یا نصیحت کرے، وہ اپنے دائرے سے باہر نہیں نکل پاتا۔ سو اگر وہ سیکولر عقیدے پر یقین رکھتے ہوئے، انسانی عقل کے مقدم ہونے، آزادیوں اور انسان کے لامحدود اختیارات کا قائل ہے تو اس کی نصیحت شخصی آزادیوں اور انسانی حقوق کے ڈھونگ سے لبریز سے ہوگی۔ اور اگر اس کا عقیدہ یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے جو دوسری لامحدود صفات کے ساتھ العلیم اور الخبیر بھی ہے، یومِ حساب کا مالک بھی ہے تو اس کی نصیحت لازما اسی فکر سے مزین ہوگی۔ جس میں حیا، شرم، اطاعت، بندگی اور مقصدیت کا پہلو نمایاں ہوگا۔
پچھلے دنوں انڈیا کے معروف اداکار امیتابھ بچن نے اپنی نواسی اور پوتی کے نام ایک خط لکھا جسے ویڈیو کی صورت میں بھی انٹر نیٹ پرجاری کیا گیا۔ چونکہ امیتابھ ایک معروف اداکار ہیں اور میڈیا کی پشت پناہی بھی انھیں حاصل ہے، اس لیے یہ خط دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں لوگوں تک پہنچ گیا۔ اس خط میں جو باتیں کی گئی ہیں، ان پر مختصر ترین تجزیہ تو یہی ہے کہ یہ سراسر کمرشل خط تھا۔ خود یہ خط بھی امیتابھ بچن کی آنے والی فلم کے تناظر میں ایک کمرشل ایکٹیویٹی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے. نسوانی آزادی یا برابری (Feminism) کا تصور آج کی سیکولر آزادیوں کے دور میں ہاتھوں ہاتھ بکنے والا نسخہ ہے۔ اور جسے مغربی ممالک اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی آشیر باد بھی حاصل ہے۔ خصوصا مشرقی معاشروں میں جہاں عورتوں کو اتنی ”آزادی“ میسر نہیں جتنی مغرب کی عورت کو ہے۔ مثلا: اسے بے لباسی اور بے حیائی کی ”آزادی“ میسر نہیں۔ اسے بوائے فرینڈ بنانے کی ”آزادی“ نہیں۔ اسے رات گھر سے باہر رہنے کی ”آزادی“ نہیں۔ اسے بغیر شادی کیے کسی مرد کے ساتھ رہنے کی ”آزادی“ نہیں، اسے دولت کمانے کے لیے جسم فروشی کی ”آزادی“ نہیں۔ اسے چند ٹکوں کی خاطر خود کو شمع محفل بنانے کی”آزادی“ میسر نہیں، اس لیے ایسے معاشرے میں عورت کی مظلومیت کے نام پر ایسی جذباتی باتیں ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔ اس لیے اس بات سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں کہ اسے لاکھوں لوگوں نے دیکھا یا سنا۔
اگرچہ مشرقی معاشروں میں مذہب کے نام پر عورتوں کے استحصال بھی کیا جاتا ہے، اسے تعلیم، وراثت، جائز حقوق، ایک حد میں تفریح، شادی کے لیے مرضی کے انتخاب جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے اور پھر دوسری طرف ریاستی سطح پر بڑھتی ہوئی لبرل اور سیکولر آزادیوں کی آگ میں ایمان، شرم و حیا اور عزت و عصمت بچانے جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر ابھی بھی ہمارے معاشرے میں شرم وحیا کے دائرے میں عورتیں عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں اور حالات مغربی معاشروں کی نسبت بہت بہتر ہیں۔
رہے وہ مسائل جن پر مغرب نواز این جی اوز عموما شور مچاتی ہیں، مثلا: عورتوں پر تشدد، تیزاب گردی، جنسی زیادتیاں وغیرہ، تو وہ ایسا شور ہے جو ڈالر ملنے پر مچایا جاتا ہے، ورنہ یہ این جی اوز سمیت ساری دنیا جانتی ہے کہ ان معاملات میں امریکہ سمیت مغربی ممالک میں عورتوں کی صورتحال کہیں زیادہ خراب ہے۔
تو خیر یہ خط سراسر کمرشل نقطہ نظر سے سیکولر عقیدے کی بنیاد پر لکھا گیا تھا جسے آپ سطحی فکر کا نتیجہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ جس میں امتیابھ نے اپنی بچیوں کے بہانے تمام بچیوں کو شتر بےمہار آزادی کی تلقین کی ہے، جو انڈیا اور پاکستان جیسے ممالک میں مغربی حکومتوں اور کمپنیوں کے زیرتکمیل منصوبوں کا ایک جزو ہے۔
دوسرا خط محترم عامر خاکوانی نے اپنی بیٹی لائبہ کے نام لکھا۔ جس میں انھوں نے اسلامی نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی بیٹی سمیت باقی تمام بیٹیوں کو شرم و حیا، اپنی حد میں رہنے، حجاب، ماں باپ کا فخر بننے کی تلقین کی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ خط کسی ایسے شخص کی طرف سے لکھا گیا ہے جو خود اللہ کے خالق ہونے، اس دنیا میں بندگی اور اطاعت جیسے عظیم مقاصد سے آگاہ اور روز آخرت اللہ کے سامنے پیش ہونے کی فکر سے آراستہ ہے۔
ایک اور خط اس کے جواب میں محترمہ فرحانہ صادق نے بھی لائبہ کے نام ایک آنٹی کے خط کے عنوان سے لکھا ہے۔ جسے عامر خاکوانی کے خط کا تکملہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ تکملہ اس لیے کہ عامر خاکوانی کے خط میں مخاطب بیٹی یا بیٹیاں تھیں، اسی لیے بیٹے نظرانداز ہوئے، سو فرحانہ صادق نے اس خلا کو پر کرنے کی کسی حد تک کوشش کی ہے۔ لیکن کہیں کہیں وہ خالصتا ایک آنٹی بھی نظر آئی ہیں۔
تیسرا خط حافظ یوسف سراج کی طرف سے لکھا گیا ہے۔ یہ خط بھی آنٹی کی طرح لائبہ بیٹی ہی کے نام ایک انکل کا خط ہے۔ لیکن یہ خط کسی ایسے انکل کا ہے جسے آنٹیوں سے سخت چڑ ہے اور ایسے انکل اس تاک میں رہتے ہیں کہ کسی طرح آنٹیوں کی غلطیوں کی نشاندہی کی جاسکے۔ اسی لیے اس خط میں آنٹی فرحانہ صادق کی غلطیوں کو گن گن کر لائبہ بیٹی کو بتایا گیا ہے تاکہ وہ ”خط“ کے پرچے میں بخیر و خوبی پاس ہوسکے۔
چوتھا خط برادر عامر امین نے اپنے بھانجے کے نام لکھا ہے اور اس کے ذریعے قوم کے بیٹوں کو مخاطب کیا ہے.
سو آج کل بچوں کے نام خطوں کی بہار آئی ہوئی ہے۔ حالانکہ یہ ای میل، چیٹ، وٹس ایپ اور فیس بک کا زمانہ ہے۔ لیکن میری عمر کے لوگ یہ جانتے ہیں کہ خط کی تاثیر کے سامنے سب کچھ ہیچ ہے۔ سوچتا ہوں کہ میں بھی اپنے بچوں کے نام خط لکھوں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لکھوں؟ کیا انھیں نصیحت کروں کہ بیٹا جب تم باہر نکلنا تو اپنی شرم و حیا اور حجاب کی حفاظت کرنا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ماحول کی تپش اتنی زیادہ ہے کہ ڈر لگتا ہے کہ سب تدبیریں کہیں الٹی نہ ہوجائیں، سو صرف اللہ کی ذات پر بھروسہ ہے۔ چونکہ کالج میں پڑھاتا ہوں اس لیے اچھی طرح جانتا ہوں کہ آج کسی نوجوان کو اپنے گھر میں، گھر سے باہر، تعلیمی ادارے میں اور آتے جاتے اپنا ایمان بچانا کتنا مشکل ہے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ گھر بھی محفوظ نہیں۔ کیا کیا جائے؟ کسے روکا جائے اور کسے نہیں؟ یہ آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور سوال ہے، لیکن اس موضوع کو پھر کسی دن پر اُٹھا رکھتے ہیں۔
سو آج کل بچوں کے نام خطوں کی بہار آئی ہوئی ہے۔ لیکن میں اس روایت میں سے ایک ایسے خط یا نصیحت کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جس کی اہمیت کا اندازہ آپ صرف اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس کا ذکر خود خالقِ کائنات کے کلام میں موجود ہے۔ یہ خط یا نصیحت حضرت لقمان کی طرف سے اپنے بیٹے کے نام ہے۔ جو قرآن کی سورہ لقمان کے دوسرے رکوع میں شامل ہے۔ یاد رہے یہ خط ایک ایسے شخص کی طرف سے ہے، جس کے نبی ہونے یا خود کسی نبی کے امتی ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ یہ ایک ایسے شخص کی حکمت آمیز نصیحت ہے جو اپنی فطرت کی پکار پر اپنے خالق، اس کی وحدانیت، خیر و شر کی کی پہچان اور کسی یوم حساب ہونے کی بارآور فکر تک پہنچ چکا ہے۔ اس خط میں انسانی تعلقات کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے جس پر حکمت انداز میں نصیحت کی گئی ہے وہ قابلِ تقلید ہے۔
حضرت لقمان فرماتے ہیں : میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ (کسی کو) شریک نہ کرنا۔ بےشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔ (اللہ فرماتا ہے کہ) ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کا دودھ چھڑانا دو برس میں ہے، کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ (کسی کو) شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہو۔ تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے۔ تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں آگاہ کردوں گا۔
پیارے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو، پھر وہ (بھی) خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو اسے اللہ تعالیٰ ضرور لائے گا۔ اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور باخبر ہے۔ اے میرے پیارے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا، اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آئے (اس پر) صبر کرنا، (یقین مان) کہ یہ بڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے۔
لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اکڑ کر نہ چل، کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔ اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست کر یقیناً تمام آوازوں میں سب سے بدتر آواز گدھے کی آواز ہے۔" (لقمان:12-19)

Comments

Click here to post a comment