ہوم << دل کی بات سنیں، اسی میں زندگی ہے - ارم فاطمہ

دل کی بات سنیں، اسی میں زندگی ہے - ارم فاطمہ

ایک سوال اس معاشرے کے ہر فرد سے، ایک لمحے کے لیے سوچیےگا ضرور! کیا کبھی کسی ایسے انسان سے ملاقات ہوئی آپ کی جو اپنے دل میں ہر ذی نفس کے دل کی بات لیے پھرتا ہو، جسے سن کر اور مل کر آپ کو لگے کہ ہاں یہ تو ہمارے ہی دل کی بات کر رہا ہے۔یہ کہنا تو بہت آسان ہے جو کہ اکثر لوگ کہتے ہیں!
’’ہم دل سے سوچتے ہیں‘‘۔
اس بات کی گہرائی تک جائیں تو ہم سب سے پہلے یہی سوچتے ہیں کہ وہ اگر سوچتا ہے تو یقینا اپنے دل سے سوچتا ہوگا۔ جب دل اسی کا ہے تو باتیں بھی اسی کی ہیں، وہ اپنے لیے سوچتا، اپنے لیے زندہ رہتا ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ دل میرا ہے مگر اس میں ابھرتی باتیں ہر اس انسان کی ہیں جو کہیں نہ کہیں سینے میں کسی خواہش کو دبائے ہوئے ہے، جس کا تعلق اس کی ذات سے کم اور اس سے جڑے رشتوں اور انسانوں سے ہے، جن سے اس کی زندگی رواں دواں ہے۔
کہیں یہ خواہش دل کی خوشی بنتی ہے، مکمل ہوتی ہے، اپنی منزل پاتی ہے، تو کہیں یہ خواہش دل کی حسرت میں تبدیل ہو جاتی ہے تب انسان زندگی گزار رہا ہوتا ہے، مسکراتا تو ہے مگر آنکھیں نامکمل رہ جانے والے خواب کی نمی سے جھلملاتی رہتی ہیں۔ ایسے انسان کو ہم کہتے ہیں کہ یہ حساس دل رکھنے والا ہے، اپنے لیے کم اور دوسروں کے لیے زیاد سوچتا ہے مگر اسے ہر دور اور ہر زمانے میں بہت نا قدری کا سامنا کرنا پڑا ہے.
کچھ لوگ جو اس دل میں حسد رکھیں، ان باتوں سے نظر چرائیں، وہ انسان کو ایک مقام دینے سے گریز کرتے ہیں۔ اکثر آپ نے سنا ہوگا، ایسے انسانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا رویہ نارمل نہیں ہے۔ نارمل ہم اسی کو سمجھتے ہیں جو میرے اور آپ جیسا ہو۔ اپنی خواہشات کو سوچتا ہو، اپنے خیالات بیان کرتا ہو۔ صرف اور صرف اپنی ذات کا تذکرہ کرتا ہو۔ فی زمانہ ایسا ہی انسان کامیاب ہے۔
کہں اسے معاشرے کے لیے ان فٹ کہا جاتا ہے. کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ بھائی ایسا سوچنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ زندگی اپنے لیے جینے کا نام ہے، خوشی سے جیو، اسے گزارو اور اگلے ٹھکانے کی تیاری شروع کردو۔ مگر شایہ وہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ انسانیت اپنا ایک اجر رکھتی ہے، خوشی کا احساس رکھتی ہے۔
آپ جاننا چاہتے ہیں؟
ایسا کون سا انسان ہے جو اپنے دل میں دوسروں کی بات لیے جیتا ہے۔
یہ وہ انسان ہے جو ہم میں سے ہی ہے، بس ہم اسے پہچان نہیں پاتے۔ یہ وہ انسان ہے جو ظاہری آنکھ رکھتے ہوئے بھی اپنے من کی آنکھ روشن رکھتا ہے۔ جو یہ سب دیکھتا ہے جسے ہم دیکھتے ہوئے بھی بنا دیکھے گزر جاتے ہیں.
یہ وہ انسان ہے جو دل میں درد رکھتا ہے، درد سہتا ہے جسے اکثر لوگ نظر انداز کر کے اپنے دل کو مادی لذتوں سے بہلاتے ہوئے زندگی گزارتے چلے جاتے ہیں۔
یہ وہ انسان ہے جو دیکھتا ہے کہ اس ملک میں کتنے ایسے بچے ہیں جن کی زندگی کچرے کے ڈھیر سے شروع ہوتی ہے اور قبرستان کی کسی نیم تاریک قبر پر چرس اور افیون کے دھوئیں میں ختم ہو جاتی ہے۔
یہ وہ انسان ہے جو یہ دیکھتا ہے کہ غربت اور عسرت میں پلی نوخیز کلیاں کہیں نظروں کی ہوس سے گھبرا کر موت کی آگوش میں پناہ لیتی ہیں یا پھر زندگی جینے کی خواہش میں اپنی روح کو کچل دیتی ہیں اور ہوس زدہ نظروں کے آگے ہار جاتی ہیں.
یہ وہ انسان ہے جس کے دل میں ہے کہ میرے ملک کے ہر نوجوان کا ایک خواب ہے جو اسے یہ کوشش کرنے پر اکساتا ہے کہ اسے بھی زندگی کی آسائشات سے لظف اندوز ہونے کا حق حاصل ہے اور اگر وہ چاہے تو ناجائز ذرائع بھی اختیار کر سکتا ہے۔
یہ وہ انسان ہے جو ایک عام انسان کے مسائل کی بات کرتا ہے، جس کے لیے صبح سویرے بجلی کا ہونا ہی بہت غنیمت ہے۔ نلکوں سے دھواں نہ نکلے، کپڑے استری کے انتظار میں سوکھتے نہ ہوں، اسے زندگی کی بنیادی سہولیات میسر ہوں۔
یہ وہ انسان ہے جس کے دل کی بات ہر انسان کے دل کی بات ہے، جس کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ کون اقتدار اور اختیارات کی کرسی کی بھاگ دوڑ میں آگے ہے اور کوں سب سے پیچھے ؟
سب اپنے مفادات کے ساتھ زندہ ہیں مگر یہ اپنے حساس دل کو لے کر کہاں جائے کیسے جیے؟
نہ اس کی نگاہیں ملک کے معاشی بحران سے ہٹی ہیں اور نہ ہی بجلی پانی کی بندش سے پیدہ ہونے والے مسائل سے وہ بے خبر ہے۔ نوجوان طبقہ کے مسائل بھی اس کے اپنے مسائل ہیں، جنہیں وہ سمجھنا اور ان کا حل بھی چاہتا ہے، اس کی امیدیں بھی اسی طبقے سے زیادہ ہیں کیونکہ وہ ایک زندہ انسان ہے۔
یہ ایک عام انسان کی باتیں ہیں جس نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ صرف مسائل کو دیکھنا سمجھنا اور اس کے لیے راہ نکالنا ہی ضروری نہیں بلکہ یہ احساس ہر اس انسان میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو صرف اپنے لیے نہیں اس معاشرے سے جڑے ہر فرد کے لیے سوچتا ہے۔
زندگی گذارنے کا عمل بہت تھکا دینے والا ہے۔ کہاں انسان اپنی کامیابی کے لیے جدوجہد کرنا خواب سمجھتا ہے، وہاں ہر فرد کے خواب سنبھالنا کسی آزمائش سے کم نہیں۔ اس کی نظر ملک میں بڑھتے جرائم پر بھی ہے۔ اور دہشت گردی کے سبب گرتی معاشی اور معاشرتی زندگی کے مسائل پر بھی گہری نظر ہے۔ وہ رشتوں کے مابین بڑھتی خلیج کو ختم کرنے کا خواہاں ہے جس کا سبب بے راہروہ مذہب سے دوری اور الیکٹرانک ضروریات زندگی ہیں
بد قسمتی سے ایسا انسان ہم میں سے ہوتا ہے، ارد گرد دکھائی دیتا ہے مگر ہم اس سے نظریں چراتے ہیں/ ہم میں حوصلہ نہیں کہ معاشرے کے اس بگاڑ کودرست کرنے کے لیے آواز بلند کریں۔ ایسے ہی انسانوں کے دم قدم سے معاشرے کی سانسیں چل رہی ہیں۔ معاشرہ زندہ ہے تو ہم زندہ ہیں. کوشش کریں کہ اپنے احساس آدمیت کو زندہ رکھیں تبھی معاشرے کے افکار و خیالات بدلے جا سکتے ہیں، ایک نئی زندگی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اسی لیے اپنے دل کی بات سنیں اور ڈھکے چھپے الفاظ میں بیان کریں تاکہ بات بھی پہنچ جائے اور اس کے اثرات بھی دوررس ہوں.
خدارا دل کی بات سنیں، اسی میں زندگی ہے۔