ہوم << منزل نہیں رہنما چاہیے - مجیب الحق حقی

منزل نہیں رہنما چاہیے - مجیب الحق حقی

مجیب الحق حقی انسان کی یادداشت عمومی طور پر کمزور ہوتی ہے اسی لیے عوام کی روزمرّہ کی استعمال کی چیزوں کے اشتہارات تسلسل سے دیے جاتے ہیں تاکہ خریدار کے ذہن میں کوئی خاص پراڈکٹ کی مانگ زندہ رہے۔ اسی خریدار کو جیتنے کے لیے تجارتی ادارے کروڑوں کے اشتہار بنواتے ہیں تاکہ توجّہ حاصل کی جائے۔ اپنی اثرانگیزی کی وجہ سے کچھ نقش ایسے گہرے ہوجاتے ہیں کہ ذہن سے مٹتے نہیں اور بہت سے معدوم ہوجاتے ہیں الّا یہ کہ ان کو یاد دلایا جائے۔ یہ تو ہوا انسان کا عام یادداشتی پہلو جس میں افراد، خیالات اور اشیاء ظاہر اور غائب ہوتے رہتے ہیں۔
کسی جملے کو مسلسل دہرانے سے انسان اس کا ایک مثبت یا منفی تائثر لیتا ہے جو اس کے لاشعور میں ایک نقش چھوڑتا ہے۔ یہی نقش اگر گہرا ہوتا رہے تو ایک یقین کی حیثیت پاتا جاتا ہے۔ یہی یقین اپنی انتہا پر ایمان اور عقیدہ بن جاتا ہے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کسی بات کی تکرار کی اثر انگیزی اپنی انتہا پر جاکر مثبت یا منفی عقیدے کا روپ دھار لیتی ہے۔ کسی فرد یا گروہ کی صحبت کا اثر پذیر ہونا بھی اسی کی شکل ہے کہ انسان ایک مخصوص ماحول میں کسی مخصوص نظریے کی مسلسل تاکید اور اعادہ یا اصرار میں ویسے ہی خیالات کا حامل ہوتا جاتا ہے جیسا کہ اس ماحول میں تکرار کے ساتھ بیان کیا جاتاہے۔ یہی ذہن نشینی اب ایک علم اور سائنس کا روپ دھار چکی ہے۔ گوئبلز کا مشہور قول تو یاد ہی ہوگا کہ جھوٹ کو اتنی بار بولو کہ سچ لگنے لگے۔ اسی لیے اچھی صحبت اور اچھے لوگوں میں اْٹھنے بیٹھنے کی تاکید ہمارے بڑے کرتے رہے ہیں کیونکہ وہاں پر صرف اچھی باتوں کی تاکید ہوتی رہتی ہے۔ مذہب میں بھی عبادات کا تواتر اور وعظ کے ذریعے انسانوں کا مثبت ذہنی غسل ہی ہوتا ہے، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہنا بھی صحیح ہوگا کہ تمام درسگاہیں انسانوں کا مثبت ذہنی غسل کرتی ہیں تاکہ برائی کی جگہ مثبت طرز حیات کی سمجھ دی جائے۔
سیاست تو ہے ہی پروپیگنڈے کا کھیل جس میں سیاسی پارٹیاں اپنے کارکنوں کو سرگرم اور اپنے ساتھ رکھنے کے لیے نعرے ایجاد کرتی ہیں جو ان کے مقاصد کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اپنے کارکنوں کو سرگرم رکھنے کے لیے ہر سیاسی پارٹی نعرے بازی کراتی ہے جس سے جوش و خروش پیدا ہوتا ہے۔ تمام سیاسی نعرے بھی اپنی تکرار کے باوصف ایک اثر رکھتے ہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ کا نعرہ اپنے اندر ایک پیغام رکھتا تھا جس نے ایک ملک بنوادیا، جس کی آج بھی تکرار پاکستانی کو ایک مقصد کی یاد دلاتی رہتی ہے۔آمریت پرست جماعتیں شخصیت کو ابھارتی جبکہ مقصدیت پسند جماعتیں منزل کی طرف توجہ مبذول کرانے والے نعرے بناتی ہیں جیسے رہبر و رہنما مصطفٰی مصطفی وغیرہ۔ آمریت کی ترویج اور شخصیت پرستی کی ترویج کے لیے لیڈر کے نام کے نعرے بنائے اور لگائے جاتے ہیں۔ جیسے قدم بڑھائو نواز شریف، مظلوموں کا ساتھی الطاف، مرد مومن مرد حق وغیرہ۔ آج کل باقاعدہ سیاسی نغمے بھی بنائے جاتے ہیں۔ ان سب کا مقصد کارکن یا حامی کو نفسیاتی طور پر ایک سحر میں گرفتار کر کے اس کی حمایت کو یقینی اور مضبوط بنانا ہوتا ہے۔ اسی لیے کارنر میٹنگز اور جلسوں میں بہت پہلے سے نعروں اور نغموں کے ذریعے ایک اثر انگیز اور جذباتی ماحول تخلیق کیا جاتا ہے کہ جب لیڈر وارد ہو تو حمایتی اس کی ہر بات پر آمنّا و صدقنا ہی کہنے کو تیّار رہیں۔
منزل نہیں رہنما چاہیے، ایک نہایت اچھوتا نعرہ ہے جس کا بہت چرچا رہا ہے اور بہت سے لوگ اس کی حمایت اور مخالفت میں رائے زن بھی رہے ہیں۔ اس کی بڑے پیمانے پر وال چاکنگ بھی ہوتی رہی ہے۔ بظاہر یہ نعرہ ایک لایعنی بات لگتی ہے۔ لیکن دوسری طرف اگر انسان کی نفسیات کو سامنے رکھیں تو یہ بہت سوچا سمجھا نعرہ بھی ہے۔ مندرجہ بالا نعرے کی ہمہ گیریت یہ ہے کہ یہ کسی ایک لیڈر کے متعلق اتنا اعتماد تشکیل دیتا ہے کہ اس کے حمایتی اس کے اندھے معتقد بن کر ایک گہرے سحر میں ایسے مبتلا ہوتے ہیں کہ عمومی حالات میں کسی اور کی بات سننا گوارہ نہیں کرتے۔ ا س میں منزل ثانوی اور لیڈر اوّل ہو جاتا ہے۔ انسان اپنی تمام خواہشیں اور اختیار غیرمشروط طور پر رہنما کے سپرد کر کے اپنی انفرادی سوچ کو قربان کردیتا ہے۔ اس صورتحال کے حصول کے بعد سارا انحصار اب اس رہنما پر ہو جاتا ہے کہ اس کے خیالات کیا ہیں؟ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟ کیونکہ اس کے پیچھے مسمرائسڈ Mesmerized اور جذباتی انسانوں کا جم ِغفیر ہوتا ہے جو اس کے اشارے پر سب کچھ نچھاور کرنے کو تیّار ہوتے ہیں کہ جدھر لیڈر کا اشارہ ہوگا لوگ اسی طرف چل پڑیں گے۔ اس نعرے کی خرابی یہ ہے کہ اگر رہنما بہک کر غلط راہ پر جائے تو اس کے حامیوں کا بھی راہ راست پر آنا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ اس کے سحر میں گرفتار اور اس کی حمایت کو عقیدے کا درجہ دینے کے بعد ایک قدم بھی پیچھے ہٹنا ان کے لیے ایمان کا سودا کرنے کے مترادف ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں حامیوں کے ردّ ِعمل کا انحصار ان حامیوں کے درجہ اعتقاد پر ہوگا کہ کون اس سحر میں کتنا غرق ہے۔ ایک مکمل مرعوب کارکن یا حامی ہر حال میں ہزار تاویل سے خود کو اور رہنما کو درست ثابت کرتا رہے گا جبکہ دوسرے مخمصوں کا شکار ہوجائیں گے الّا یہ کہ حالات ہی آنکھ کا پردہ نوچ پھینکیں۔ ایسے کسی سحر سے نکلنے کے لیے کسی غیر معمولی جھٹکے یا جھٹکوں ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کے تناظر میں اس نعرے کے ساتھ جڑا دوسرا نعرہ ہے جس میں کارکن کی مخالفت کو غدّاری قرار دیا گیا ہے اور اس کی سزا بھی بتا دی گئی ہے۔ اس طرح انتہائی باریک بینی سے کارکنوں اور حامیوں کی ذہن سازی کی گئی کہ وہ آنکھ کے سامنے کی حقیقت کو بھی ماننے پر تیّار نہ ہوں
ہمارے یہاں موجودہ صورتحال سب کے سامنے ہے کہ اس نعرے کے پیچھے جانے اور اس کو سچ ماننے والے کیسی شرمندہ کرنے والی صورتحال کا شکار ہوگئے ہیں کہ یہ نعرہ نہ نگلا جارہا ہے اور نہ اُگلا یعنی:
اب یہی صورتحال ہے کہ یا تو پاکستان کو توڑ نے کی حمایت کرو یا قائد کو چھوڑ دو! ،
یا پھر ایک اور راستہ ہے کہ منافقت کا وطیرہ اختیار کرو اور نہ قائد کو چھوڑو نہ پاکستان کو توڑو!
اس صورتحال میں یہ نعرہ ہی متنازعہ بن گیا اور اس کی شکل بدل گئی یعنی اب رہنما نہیں چاہیے بلکہ منزل چاہیے!
یہاں نہ کسی کی تحقیر مقصود ہے اور نہ تنقید، بس ایک تجزیہ اور اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ اگر دیکھا جائے تو ایک کامل انسان ہی ایسے ہمہ گیر نعرے کا مستحق ہونا چاہیے کیونکہ ایک کامل ہستی ہی انسانوں کو فلاح کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھ سکتی ہے۔ وہ کامل ہستی کون ہوسکتی ہے۔ ایسی ہستی جو خالق کے علاوہ کسی اور طرف نہ بلائے اور جس کے راہ ِراست سے ہٹنے کا کوئی امکان نہ ہو۔ جس کی اتّباع ہر حال میں ابدی فلاح کی ضامن ہو۔ بہ حیثیت مسلمان اللہ کا فرمان سامنے رکھیے کہ اللہ نے اپنے آخری نبی ﷺ کو اپنی کتاب میں اعزاز عطا کیا ہے کہ وہی انسانوں میں بہترین اخلاق کے حامل ہیں، اس لیے وہی کامل بھی ہیں اور انسانوں سے محبت کرنے والے بھی۔
تو اس نعرے کو ایک ابدی مثبت معنی دیجیے اور نبی ﷺ سے منسوب کر دیجیے۔ ان کے علاوہ کوئی اس نعرے کا مستحق ہو ہی نہیں سکتا۔ یاد رکھیں کہ انسان کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے کہ جدھر چاہے پھیر دے۔ انسان کے نہ خیالات اور نہ ہی صحت کا پتہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں کیا شکل اختیار کرلیں۔ لہذٰا ہمیشہ ایسے نعروں کو قبول کریں جو آپ کو بےدام کا غلام نہ بنائیں۔ اپنی توقیر کی حفاظت ہمیں ہی کرنی ہے۔