ہوم << قربانی کے نام پر تماشا - کاشف نصیر

قربانی کے نام پر تماشا - کاشف نصیر

کاشف نصیر مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر پاکستان کے تمام امراء درست زکواہ ادا کریں تو وطن عزیز میں کوئی تنگ دست باقی نہیں رہے گا۔ لیکن بدقسمتی سے درست ادائیگی کی شرح پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ اس بنیادی فریضے کے مقابلے میں آپ قربانی کا معاملہ دیکھیں تو شدید حیرت ہوتی ہے، اتنا جوش و خروش، بھاگ دوڑ اور انتظام کسی اور عبادت میں نظر نہیں آتا۔
گو فقہائے کرام کے مابین قربانی کے واجب اور سنت ہونے کی بابت اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک عظیم عبادت ہے۔ افسوس کہ اسراف، کھیل تفریح، نمود و نمائش اور مقابلہ بازی کے باعث آج یہ اپنی اصل روح سے خالی صرف ایک رسم رہ گئی ہے۔ مطلوب تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس فقید المثال جذبے کی یاد تازہ کرنا تھی جو بندے کو عشق حقیقی کی چاہ میں ہر دوسری محبت سے بےگانہ کردے لیکن ہم کن دھندوں میں لگے ہوئے ہیں۔ جانور بعد میں اترتا ہے، قیمت پہلے پوچھی جاتی ہے۔ منڈیوں کا رخ کرلیں تو الایمان و الحفیظ، کہیں فلمی ستاروں کا نام چل رہا ہے، کہیں کیٹ واک اور کہیں میوزک اینڈ وارئٹی شو۔
یہ دس اور بیس لاکھ کی گائے اور پانچ لاکھ کا بکرا۔ کچھ کہو تو کہتے ہیں کہ ہم خدا کے سامنے خوب سے خوب تر پیش کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ خدا نے ایسی پیشی مانگی بھی ہے یا نہیں۔ صاحب اگر اتنا ہی شوق ہے تو اوسط درجے کے زیادہ جانور قربان کر دیں جیسا کہ خود رسالت ماب صلی اللہ و علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر مسلمانوں کی طرف سے اوسط درجے کے سو اونٹ قربان کیے تھے۔ یوں بھی آپ کی کافی واہ واہ ہوسکتی ہے۔
خدمت کے نام پر جانوروں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوتی ہیں، وہ الگ تماشہ ہے۔ دیہاتی اور پہاڑی جانوروں کو کئی کئی دنوں اور ہفتوں پہلے شہری ماحول میں لاکر پریشان کردیا جاتا ہے۔ کہیں ساری ساری رات اوباش لڑکے ان بےچاروں کو گھماتے پھرتے ہیں تو کہیں دو ہزار واٹ کے برقی قمقمے ان کے سروں پر منڈلاتے ہیں۔ پھر کہیں یہ بھاگ نکلتے ہیں تو تفریح کا ایک نیا سامان پیدا ہوجاتا ہے۔ شرع کے برخلاف ایک جانور کے سامنے ہی دوسرے جانور کو گرادیا جاتا ہے اور مذبح گاہ قربانی کی سیج کے بجائے جائے تماشا نظر آتی ہے۔ پچھلے دنوں ناظم آباد میں اونٹ کی قربانی کچھ یوں ہوئی کہ ہڈیوں کو خاص ترتیب میں نکالا گیا اور اگلے روز اسکا ڈھانچہ بناکر نمائش کے لیے پیش کردیا گیا۔ گویا یہ تکریم ہے اس جانور کی جسے خدا کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
دکھ اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ علمائے دین کی اکثریت ان امور میں حوصلہ افزائی کرتی نظر آتی ہے۔ کوئی ان خرابیوں کی طرف نشان دہی کردے تو اسے سیکولر اور ملحد ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر متحرک عالم دین برادرم محمد اسحاق عالم کی اس موضوع پر تحاریر پڑھ کر کافی خوشی ہوئی تھی۔ کل مولانا طارق جمیل نے بھی ایک ویڈیو پیغام میں یہی بات کی ہے۔ اللہ کرے یہ اظہار حق قربانی اور ایثار کی اصل روح کو ہمارے معاشرے میں بحال کردے۔

Comments

Click here to post a comment