مصنف و شاعر مُنّو بھائی سے ملاقات کے لیے سُندس فائونڈیشن کی انتظار گاہ میں بیٹھے ہوئے میں نے گِردو پیش کا جائزہ لینا شروع کر دیا جیسا کہ ہم عموماََ نئی جگہوں پر کرتے ہیں۔ سامنے کی نشستوں پر پریشان حال والدین اور ہاتھ یا بازو پرڈرِپ کے لیے لگائی گئی سُوئی کے ساتھ ننھے بچے معصومانہ چہروں پر مسکراہٹیں اور آنکھوں میں صحت کی بہتری کے خواب سجائے بیٹھے نظر آئے تو دِل جیسے مُٹھی میں آ گیا۔ تھیلیسیما کے بارے میں پہلے بہت دفعہ سُن اور پڑھ چُکا تھا مگر کہتے ہیں نا کوئی ایک لمحہ بعض اوقات بہت اثر پذیر ہوتا ہے، تو ایسا ہی ہوا، جس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ اس ساری صورتحال کو دیکھنے کے بعد میرے ذہن میں جو پہلا خیا ل آیا، وہ یہ تھا کہ اگر اِن والدین کی جگہ میں خود ہوتا تو کس کرب سے گزر رہا ہوتا؟ کیا دُنیا میں اس سے بڑی آزمائش بھی کوئی ہو سکتی ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں آپ کا عزیز ترین سرمایہ ، آپ کی اولاد سسک رہی ہو اور آپ اس کے لیے کچھ بھی نہ کر سکیں۔ کہتے ہیں اولاد تو ماں باپ کے جسم ہی کا حصہ ہوتی ہے، تو یہ والدین کس طرح سے اس تکلیف کو سہہ رہے ہوں گے جس میں اُن کے بچے مبتلا ہیں۔ صورتحال اس قدر اثر انگیز تھی کہ میں نے فوراََ سوچا کہ میں اور میرے جیسے دوسرے صحت مند انسان کیسے ایسے مریضوں کی مدد کر سکتے ہیں۔
ہم خون کے عطیات کے لیے اپیل میں ’’سماجی ذمہ داری‘‘ اور ’’انسانیت کی خدمت‘‘ جیسے ثقیل الفاط تو روز سنتے ہیں مگر خون کا عطیہ کرنے سے ضرورت مند مریضوں کی مدد کے علاوہ عطیہ کرنے والے کو خود جتنے فوائد حاصل ہوتے ہیں اُن کا اندازہ شاید ہمیں قطعاََنہیں ہے، آئیے ایسے ہی کچھ ’’مادی‘‘ فوائد پر کچھ نظر ڈالتے ہیں۔
جسم میں اضافی فولاد کی وجہ سے اعضائے رئیسہ جیسے دِل اور جگر کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ خون دینے سے فولاد کی مقدار متوازن ہو جاتی ہے جو کینسر جیسے موذی مرض سے بھی بچاتی ہے۔ وزن میں کمی کے لیے بھی عطیہء خون ایک موثر کردار ادا کرتا ہے کیونکہ ایک دفعہ کے عطیہ جسم میں 650 کلو کیلوریز کم ہوتی ہیں۔ عطیہء خون سے پہلے آپ کا ایک میڈیکل چیک اَپ بھی مفت میں ہو جاتا ہے۔ خون دینے سے قبل درجہء حرارت، نبض کی رفتار، بلڈ پریشر، خون کا گروپ اور ہیمو گلوبن کی سطح کا تجزیہ کیا جاتا ہے جبکہ خون کا نمونہ لینے کے بعد اس کا مزید تفصیلی معائنہ کیا جاتا ہے جس میں متعددی بیماریاں جیسے ایچ آئی وی، ہیپا ٹائیٹس اور ملیریا کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اگرخدانخواستہ ہیپاٹائیٹس پازیٹو ہو تو ایسے افراد کے لیے PCR ٹیسٹ کی سہولت انتہائی کم قیمت پر مہیاکی جاتی ہے جس سے ہیپاٹائیٹس کے جرثوموں کی حالت مزید واضح ہوتی ہے۔
اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے SUNMAC Lab کے اِنچارج فضل الٰہی چودھری نے کہا: ’’جن افراد سے خون کا عطیہ لیا جاتا ہے ان کے نمونوں کو نہ صرف متعدد بیماریوں کے لیے جانچا جاتا ہے بلکہ اس کا DNA Analysis بھی کیا جاتا ہے جس سے ’’تھلیسیمیا مائنر‘‘ ہونے یا نہ ہونے کا پتا چلتا ہے۔ یہ ٹیسٹ اس سلسلے میں عام طور پر کیے جانے والے CBC ٹیسٹ سے کہیں بہتر اور تفصیلی نتائج فراہم کرتا ہے۔‘‘
زیرِ بحث تمام ٹیسٹ بازار سے کروائے جائیں تو ان کی لاگت 25 سے 30 ہزار ہو سکتی ہے، چنانچہ یہ مفت میڈیکل چیک اَپ آپ کے عطیہء خون کا انعام بھی تصور کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو ایسا مرض ہے جسے کوئی امیر آدمی بھی افورڈ نہ کرسکے تو مملکتِ خداد میں جہاں دُودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں، صحت کی ’’بہترین‘‘ سہولیات چپے چپے پر دستیاب ہیں اور تیزی سے ترقی کی حدیں پھلانگتی ہوئی معیشت ہے، سو ،دو سو روپے دیہاڑی کمانے والا طبقہ ایسے روگ کو لے کر کہاں جائے۔ ہر بار خون لگواتے ہوئے والدین یہی سوچتے ہوں گے کہ پتا نہیں اگلی بوتل کہیں سے ملے گی یا نہیں اور خدانخواستہ کبھی خون کی دستیابی کی کوئی صورت نہ بن پا رہی ہو تو اُن کے دِلوں پر کیا بیتتی ہوگی۔ ان کی پہلی اور آخری اُمید میں اور آپ ہی ہیں۔ ریڈ کریسنٹ کے مطابق عموماََ خون کی ایک بوتل سے تین افراد کی جان بچائی جا سکتی ہے۔ اور جان بچانے والے کی کیا اہمیت ہے یہ ہم سب نے قرآنِ کریم کی اس آیت میں پڑھ رکھا ہے۔
’’اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی، گویا اس نے تمام انسانیت کی جان بچائی‘‘ (پارہ: 5، آیت:32)
انسانیت سے ہٹ کر - شاہنواز سرمد

تبصرہ لکھیے