ہوم << بنگلہ دیش میں حکومتی بربریت اور قتل کی داستان - خالد ارشاد صوفی

بنگلہ دیش میں حکومتی بربریت اور قتل کی داستان - خالد ارشاد صوفی

%d8%ae%d8%a7%d9%84%d8%af-%d8%a7%d8%b1%d8%b4%d8%a7%d8%af-%d8%b5%d9%88%d9%81%db%8c گزشتہ ہفتے کی رات جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ایک اور رہنما 63سالہ میر قاسم علی کو پھانسی دے دی گئی۔ بنگلہ دیشی حکومت کے قائم کردہ متنازعہ جنگی ٹریبیونل میں میر قاسم علی پر 1971ء کی جنگ کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا تھا۔ انہوں نے بنگلہ دیشی صدر سے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل میں بہت سی بے قاعدگیاں ہیں اور منصفانہ ٹرائل کے حق کی خلاف ورزیاں بھی کی جا رہی ہیں، ٹربیونل میں ملزمان کے خلاف جو شواہد پیش کیے جاتے ہیں، جعلی ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور افراد بھی ان پھانسیوں اور اس سے پہلے مقدمات چلانے کے طریقہ کار کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا چمپا پٹیل نے کہا ہے کہ ایک ایسے ٹرائل، جس کے منصفانہ ہونے کے بارے میں اقوام متحدہ بھی آواز بلند کر چکی ہے‘ کے ذریعے پھانسیوں کے اس سلسلے سے بنگلہ عوام کو وہ انصاف نہیں ملے گا، جس کے وہ مستحق ہیں۔
بنگلہ دیشی حکومت نے پھانسیوں کا یہ سلسلہ 2013ء میں شروع کیا تھا اور اب تک 8 افراد کو مختلف الزامات کے تحت سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ عبدالقادرملا کو دسمبر 2013ء میں پھانسی دی گئی۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابق لیڈر غلام اعظم کو 15جولائی2013ء کو 90سال قیدکی سزا سنائی گئی اور وہ اکتوبر2014ء میں دوران حراست ہی انتقال کر گئے جبکہ ان کو سنائی گئی سزا کے خلاف دائر اپیل کا فیصلہ آنا ابھی باقی تھا۔ ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ غلام اعظم بنگلہ دیش کے پاکستان سے الگ ہونے کے سخت خلاف تھے۔ ان کا موقف تھا کہ اس طرح مسلم کمیونٹی تقسیم ہو جائے گی۔ انہوں نے اس وقت (1971ءمیں) یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اگر بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہوا تو اس پر بھارت کا تسلط قائم ہو جائےگا۔ قارئین کرام آپ خود اندازہ لگائیں کہ غلام اعظم اپنے خیالات میں کس قدر برحق تھے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش ہی کے ایک اور رہنما 73 سالہ مطیع الرحمٰن نظامی کو 11مئی2016ء کو پھانسی دے دی گئی۔ 1971ء کی جنگ کے وقت وہ ایک طالب علم اور جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ اسلامی چھاترا سنگھ کے صدر تھے۔ وہ بھی بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے سخت خلاف تھے۔ پاک فوج کی مدد کے لیے انہوں نے البدر گروپ بھی تشکیل دیا۔ وہ دو بار بنگلہ پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے اور وفاقی وزیر کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔
جماعت اسلامی کے ہی علی احسن محمد مجاہد اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے صلاح الدین قادر چودھری کو نومبر 2015ء میں پھانسی دی گئی۔ پھانسی کے وقت علی احسن محمد مجاہد کی عمر 64 سال تھی اور وہ پارٹی میں بااثر شخصیت تھے۔ وہ بی این پی کی حکومت میں وزیر بھی رہے۔ انہوں نے 1971ء کی جنگ میں البدر کے لیے خدمات سرانجام دیں۔ صلاح الدین قادر چودھری، فضل القادر چودھری کے بیٹھے تھے، جو 1965ء میں متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر بھی رہے۔ انہوں نے پاکستان کی تقسیم کے خلاف بھرپور آواز بلند کی۔ محمد قمرالزماں کو اپریل 2015ء میں پھانسی دی گئی۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے پاکستانی فوجیوں کی مدد کی تھی۔
اس طرح اب تک پھانسی پانے والے سبھی افراد کا بڑا جرم ایک ہی تھا کہ انہوں نے 1971ء کی جنگ میں مکتی باہنی اور بھارتی فوج اور ایجنسیوں کی سازشوں کے خلاف پاکستان کی افواج کی مدد کی تھی اور اس اس تگ و دو میں رہے کہ وہ ملک نہ ٹوٹے، جس کے قیا م کے لیے سب نے مل کر محنت اور پھر بے شمار قربانیاں دیں اور تکلیفیں سہی تھی۔ اگر یہی غداری ہے تو کوئی بتائے کہ حب الوطنی کیا ہوتی ہے؟ حسینہ واجد سے کوئی تو یہ سوال پوچھے کہ آج اگر اسی بھارت کی مدد سے، جو پورے خطے کا امن برباد کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، بنگلہ دیش میں علیحدگی کی کوئی تحریک شروع ہو جائے تو یہ قاتل حسینہ کسے حب الوطن قرار دے گی؟ ان کو جو بنگلہ دیش ٹوٹنے کے خلاف کوششیں کریں گے یا وہ جو بنگلہ دیش سے الگ ہونا چاہیں گے؟
بنگلہ دیشی حکومت کا موقف ہے کہ ان پھانسیوں سے انصاف کے دیرینہ تقاضے پورے ہو رہے ہیں جبکہ مخالفین کا کہنا ہے کہ اس سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو رہے بلکہ یہ انتقام کی ایک شکل ہے، جو بنگلہ حکومت بھارتی قیادت کو خوش کرنے کے لئے ان لوگوں سے لے رہی ہے‘ جنہوں نے 1971ء کی جنگ میں پاکستان کی تقسیم کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ ان لوگوں نے جو کچھ کیا وہ حب الوطنی کا تقاضا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو پاکستان سے محبت کی سزا دی جا رہی ہے، جو نامناسب اور غیر واجب ہی نہیں، افسوسناک بھی ہے۔ پاکستان سے بھی بنگلہ حکومت کے ان اقدامات کے خلاف مسلسل آواز بلند کی جا رہی ہے، لیکن نجی سطح پر، حکومت کی جانب سے جیسے ردعمل کی توقع کی جا رہی تھی‘ ویسا نہیں آیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے رہنماؤں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں پھانسیوں پر حکمرانوں کی خاموشی قابل مذمت ہے، اس معاملے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جانا چاہیے۔ فی الحال عالمی سطح پر تو خاموشی ہی چھائی ہوئی ہے اورصرف ترکی کی جانب سے ردعمل ظاہر کیا گیا اوراس کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ترکی کے عوام کو یہ خبر سن کر دکھ ہوا‘ تاہم بنگلہ دیش کے اندر سے حکومت کے ان اقدامات کے خلاف بھرپور انداز میں احتجاج سامنے آ رہا ہے۔
یہ پھانسیاں بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے گڑے مردے اکھاڑنے کے مترادف ہے ۔ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ 1971ء کی جنگ کن حالات میں ہوئی اور وہ حالات پیدا ہونے کے پس منظر میں کیا عوامل کارفرما تھے۔ اس جنگ کی راہ علیحدگی پسند بنگلہ دیشیوں نے کم اور بھارتی فوج اور ایجنسیوں نے زیادہ ہموار کی۔ ان سازشوں کا قلع قمع اور سدباب کرنا ہر محب وطن کا فرض تھا۔ اس کو غداری قرار دینا، جیسا کہ حسینہ واجد کی حکومت کر رہی ہے، اورحب الوطنی کا مظاہرہ کرنے والوں کا ٹرائل کر کے انہیں پھانسیوں پر چڑھانا قطعی مناسب اقدام نہیں ہے۔
اب اس سانحے کو گزرے 45 برس ہونے والے ہیں۔ جو لوگ اس سانحے کے گواہ اور شاہد ہیں وقت نے ان کے زخموں پر کچھ نہ کچھ مرہم ضرور رکھ دیا ہو گا، لیکن بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد ان زخموں کو پھر سے کریدنے میں مصروف ہیں۔ان کے والد شیخ مجیب الرحمٰن نے بھی بنگلہ دیش کا اقتدار سنبھالنے کے بعد ایسی ہی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور کچھ ہی عرصے بعد قتل کر دیے گئے تھے۔ شیخ حسینہ واجد جو کچھ بو رہی ہیں، اس کی فصل انہیں جلد ہی کاٹنا پڑے گی۔ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے میں ہی عافیت اور بہتری ہے‘ لیکن حسینہ واجد کو اس حقیقت کا ادراک نہیں ہو پارہا۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ1974میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان طے پانے والے معاہدہ دہلی کی خلاف ورزی کی بھی مرتکب ہو رہی ہیں۔ یہ معاہدہ دراصل تین مقاصد کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ پہلا بنگلہ دیش میں پھنسے اور قید کئے گئے پاکستانیوں کی واطن واپسی۔ دوئم،1971ء سے پہلے پاکستان میں کام کرنے والے بنگالیوں کو بنگلہ دیش کے حوالے کرنا اور سوئم‘ بھارت میں قید کر لئے گئے پاکستانی فوجیوں اور دوسرے حکام کی واپسی کے لئے اقدامات کرنا۔ اس معاہدے کی شق 14 میں درج ہے: تینوں وزرا (منسٹر آف سٹیٹ فار ڈیفنس اینڈ فارن افیئرز پاکستان عزیز احمد، وزیر خارجہ بھارت سردار سوارن سنگھ، فارن منسٹر بنگلہ دیش ڈاکٹر کمال حسین) نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ بنگلہ دیش کے وزیر اعظم کی دعوت پر پاکستانی وزیر اعظم بنگلہ دیش کا دورہ کریں گے اور انہوں نے بنگلہ دیش کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو بھول جائیں تاکہ ہم آہنگی کے ایک نئے دور کا آغاز کیا جا سکے۔ جبکہ شق 15میں لکھا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم کی اپیل کا احترام کرتے ہوئے بنگلہ دیشی وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت نے ٹرائل کے عمل کو آگے نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اور آج سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہونے کے 45سال بعد حسینہ واجد ان زخموں کو کریدنے کی کوشش کر رہی ہیں، جن کی کسک تو ختم نہیں ہوئی، لیکن حالات اور وقت نے جن پر کچھ کھرنڈ جما دیے ہیں۔ وہ اگر ایسا کرنے پر بضد ہیں تو اس کا آغاز اپنے والد اور 1971ء کے واقعات سے پہلے سے سے شروع کریں، پھر دیکھیں، کون کٹہرے میں کھڑا نظر آتا ہے اور کون پھانسی پر جھولتا ہے!
ادھر پاکستانی حکمرانوں کی خاموشی پر بھی جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔کیا اب بھی سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے پاپولر بیانیہ بدلنے کا وقت نہیں آیا کہ بنگلہ دیش مغربی پاکستان کے سیاستدانوں اور اسٹیلمنٹ کی ذیادتیوں کی وجہ سے نہیں بنا بلکہ بنگالیوں کا بھارت کی ذہنی غلامی اختیار کرنے کی وجہ سے ہوا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے افسانوں کی حقیقت کو بھارت اور بنگلہ دیش میں بیٹھے باضمیر محقق ثابت کرچکے ہیں لیکن قاتل حسینہ کا ظلم تو روز روشن کی حقیقت ہے۔ قاتل حسینہ کے انتقام کی آگ کب بجھے گی؟