ہوم << کیا کسی کو کافر کہنا جائز نہیں؟ گروہ غامدی کی تاویلات (2) - محمد زاہد صدیق مغل

کیا کسی کو کافر کہنا جائز نہیں؟ گروہ غامدی کی تاویلات (2) - محمد زاہد صدیق مغل

زاہد مغل ان مخالف دلائل کے بعد اب غامدی صاحب اور ان کے مقلدین کی چند تاویلات کا جائزہ لیتے ہیں جو یہ حضرات اپنےدفاع کے لیے پیش کرتے ہیں۔
1) کفر کا جوہر: ’انکار ایمان‘ یا ’عدم اقرار‘؟ درحقیقت غامدی صاحب کے نظریہ کفر کی بنیاد ہی غلط تصور پر قائم ہے۔ چنانچہ گروہ غامدی اس ضمن میں یہ دعوی کرتا ہے کہ ”کفر کا مطلب کسی عقیدے پر ہونا نہیں بلکہ یہ کسی دعوت یا عقیدے کے رد اور انکار کا نام ہے، پس جس پر اسلام کی اتمام حجت نہ ہوئی (جو اب ممکن نہیں) گویا اس کا انکار اسلام متحقق ہی نہ ہوا لہذا اسے کافر کہنا جائز نہیں۔“ اس دلیل کے اتمام حجت والے دوسرے حصے کا اوپر تجزیہ ہوچکا، یہاں ان حضرات کی اس پہلی بنا (کہ ”کفر کا مطلب کسی عقیدے پر ہونا نہیں بلکہ کسی دعوت یا عقیدے کے رد اور انکار کا نام ہے“) کا مختصرا جائزہ لیا جاتا ہے جس سے معلوم ہوگا کہ ان کی بنیاد میں ہی غلطی ہے۔ اس دعوے کے اندر دو دعوے پیوست ہیں : (الف) کفر کا جوہر حق کا انکار کرنا ہے، (ب) کفر کا معنی (حق کے علاوہ) کسی پوزیشن یا عقیدے پر ہونا نہیں۔ دونوں کا بالترتیب جائزہ پیش ہے۔
الف) کفر کا لغوی معنی ”چھپانا“ ہے، ظاہری کافر کو کافر اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ اس حقیقت کو چھپاتا ہے جو ”فی الاصل حقیقت نفسی ہے“، چاہے یہ چھپانا ارادتا ہو یا بغیر ارادہ۔ پس معلوم ہوا کہ کفر کا معنی ”ایمان حقیقی کا اقرار و اظہار نہ کرنا ہے“ یعنی ”کفر ایمان کا عدم وجود ہے“ نہ کہ ”ایمان کا انکار کرنا“، ’انکار بالارادہ‘ چھپانے اور ڈھانپنے کی اس کیفیت کو ’مغلظ‘ بنانے کا فائدہ تو دیتا ہے مگر یہ اس کا جوہر نہیں۔ یہی وہ بنیادی بات ہے جسے غامدی صاحب نے سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ چنانچہ ایمان حقیقی کے علاوہ کسی دوسری پوزیشن یا عقیدے کو اختیار کرنا بذات خود اس بات کو لازم کرتا ہے کہ اس شخص نے اپنی اس پوزیشن یا عقیدے کے ذریعے ’حقیقت اصلی‘ کو ڈھانپ دیا، یعنی کفر کیا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایمان کو چھپانے کا یہ عمل اس نے کس نظریے یا عقیدے کے تحت کیا، سمجھ بوجھ کر کیا یا نا سمجھی میں۔
اس تفصیل سے یہ اشکال بھی خود بخود رفع ہوگیا کہ ’جن لوگوں تک حق کی دعوت پہنچی ہی نہیں انہیں کافر کیوں کہا جائے۔‘ اس ضمن میں دوسری بات یہ کہ آج اس دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شخص تصور کیا جاسکتا ہو جس تک محمدﷺ کی بابت یہ خبر نہ پہنچی ہو کہ ان کے بارے میں دنیا کی ایک کثیر آبادی (مسلمان) ”رسول اللہ“ ہونے کا دعوی کرتی ہے (الحمدللہ مسلمان دنیا کے ہر خطے میں پائے جاتے رہے ہیں نیز ذرائع ابلاغ بھی عام ہوچکے)۔ آج دنیا گلوبل ویلیج بن جانے کے بعد تو تحقق کفر کے مواقع مزید بڑھ چکے ہیں، کیسے مان لیا جائے کہ کسی کو اسلام کا پتہ ہی نہیں چلتا؟ حج و نماز تراویح کی ادائیگی پوری دنیا میں نشر ہو رہی ہے مگر کسی کو معلوم نہیں ہو رہا کہ یہ کس مذہب کے شعائر ہیں؟ مسلمان جگہ جگہ کٹ مر رہے ہیں اور یہ خبریں پوری دنیا میں چل رہی ہیں مگر کسی کو خبر ہی نہیں ہو رہی کہ اسلام نامی کسی نظریے کے ماننے والے لوگ بھی اس دنیا میں بستے ہیں؟ مسلمانوں کی دعوتی و تبلیغی جماعتیں دنیا بھر میں گھوم پھر رہی ہیں مگر کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ ان کا مسئلہ کیا ہے؟ بس سوچتے جائیے اور آپ کا دماغ چکرا جائے گا کہ ایک ہنگامہ برپا ہے مگر کسی کو کان و کان خبر نہیں ہو رہی کہ اسلام نامی کوئی نظریہ بھی وجود رکھتا ہے اور نہ ہی کسی میں اس کی طرف تحریک پیدا ہو رہی ہے۔ پس جب ہر کسی تک یہ خبر پہنچ چکی اور پھر بھی وہ اس کی تحقیق کی طرف مائل نہیں ہورہا (بلکہ اس کے سوا کسی دوسری پوزیشن کو اختیار کیے ہوا ہے) تو اس سے اس کا کافر ہونا (حقیقت کو چھپانا) مزید متحقق ہوگیا۔ علمائے متکلمین کی اصطلاح میں اسے ’کفر اعراض‘ کہتے ہیں، یعنی محمدﷺ کی طرف توجہ ہی نہ دینا۔ علامہ ابن قیم’’کفرِاَکبر‘‘ کی ممکنہ صورتوں کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں' (مدارج السالکین شرح منازل السائرین ج 1 ص 347 ، دارالکتاب العربی)
”رہا کفرِ اعراض تو وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے کان بھی رسول کی جانب سے پھیر لے اور اپنے دل کی توجہ بھی؛ نہ وہ رسول کی تکذیب کرے اور نہ تصدیق۔ نہ وہ رسول کا ساتھی ہے اور نہ رسول کا دشمن۔ یہ رسول کی بات پر کان دھرنے کےلیے ہی تیار نہیں۔“ مزید فرماتے ہیں کہ کفر اعراض ہی کفر کی سب سے عمومی صورت ہے: ”یہ جو کفرِ شک ہے، یہ بھی پایا جاسکتا ہے مگر جاری نہیں رہ سکتا الا یہ کہ اس کے ساتھ کفرِاعراض شامل نہ ہوجائے؛ کیونکہ اگر وہ رسول کی لائی ہوئی چیز کو کچھ ہی توجہ دے لے تو لازم ہے کہ اس کا سب شک رفع ہوجائے اور رسول کی سچائی اس پر روزِ روشن کی طرح واضح ہوجائے کیونکہ خدا نے اپنے رسول کو نصف النہار کے سورج ایسے دلائل دے کر جہان کے اندر مبعوث فرمایا ہے۔“ پس زیادہ خلقت کا کفر ہے ہی اس بات میں کہ وہ محمدﷺ کو توجہ دینے پر تیار نہیں اور یہ چیز علمائے عقیدہ کے نزدیک بذات خود کفر ہی ہے۔
یہ بحث کہ ”اگر واقعی کسی تک محمد رسول اللہ (ص) کی بابت خبر نہیں پہنچی ہو تو اس کا کیا حکم ہے“، تو اگرچہ علمائے متکلمین نے اس پر بہت سی بحثیں کی ہیں مگر یہ سوال زیر بحث مسئلے میں غیر متعلق ہے کیونکہ غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ چاہے کسی کے سامنے ہزارہا مرتبہ کیوں نہ دین پیش کردیاجائے، یہودی، عیسائی، ہندو یا دہریے کو ”اصولا“ کافر ٹھہرایا ہی نہیں جاسکتا! یعنی دنیا میں کسی کو کافر کہنا ہی”شرعاً“ موقوف ہوچکا، خواہ وہ کتنا ہی بڑا اور کتنا ہی برہنہ کفر کرلے، کافر نہ کہلائے گا۔ یوں سمجھیے کہ کافر نامی مخلوق اب اس دنیا سے ڈائناسور نامی مخلوق کی طرح ہمیشہ کی طرح معدوم ہوچکی۔ پس خوب دھیان رہے کہ غامدی صاحب قدیم معتزلہ کی طرح ('المنزلت بین المنزلتین' کے نام پر) مسلم اور کافر کے درمیان ”تیسری کیٹیگری“ نہیں لارہے بلکہ کفر کی کیٹیگری کو ہمیشہ کیلئے ختم کرکے ”اس کی جگہ“ ایک متبادل کیٹیگری لا رہے ہیں۔ ان کا موقف سمجھنے کے لیے یہ فرق دھیان میں رہنا اشد ضروری ہے۔
ب) گروہ غامدی نے تصور کفر کےجوہر کو سمجھنے میں دوسری ٹھوکر ”کفر کا مطلب کسی عقیدے پر ہونا نہیں“ کی صورت میں کھائی۔ ان کا یہ مفروضہ بھی قرآن کے خلاف ہے، چنانچہ قرآن کہتا ہے:
[pullquote]لقد کفرالذین قالوا ان اللہ ھو المسیح ابن مریم[/pullquote] یعنی”یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے.“ (المائدۃ 72)
نیز [pullquote]لقد کفرالذین قالوا ان اللہ ثالث ثلاثہ[/pullquote] یعنی ”یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین (خداؤں) میں سے تیسرا ہے.“ (المائدۃ 73)
دیکھیے یہاں ”ایک عقیدے پر ہونے“ کو کفر کہا جارہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان کا یہ عقیدہ توحید کی ضد تھا اس لیے اسے کفر کہا گیا تو ظاہر ہے اس اعتبار سے دنیا کا ہر ”غیر و ماورائے حق“ عقیدہ و پوزیشن حق کی کسی نہ کسی صورت میں ضد ہی ہوا کرتا ہے اس میں عقیدہ تثلیث کی کوئی تخصیص نہیں، لہذا ہر غیر حق پوزیشن و عقیدہ کفر ہے (کہ وہ حقیقت کو ڈھانپ دیتا ہے)۔
اسی طرح ارشاد ہوا:
[pullquote]وقالت الیہود عزیرن ابن اللہ وقالت النصری المسیح ابن اللہ ذالک قولہم بافواھھم یضاھئون قول الذین کفروا من قبل[/pullquote] یعنی ”اور یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاری نے کہا کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں، یہ بس نقل (پیروی) کر رہے ہیں ان لوگوں کی باتوں کی جنہوں نے کفر کیا تھا ان سے پہلے.“ (توبہ 30)
یہاں بھی ایک مخصوص عقیدہ اختیار کرنے کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اس ضمن میں مزید مثالیں بھی بیان کی جاسکتی ہیں، ایک ذی عقل انسان انہی حقائق کو سامنے رکھ کر اس نتیجے تک پہنچ سکتا ہے کہ یہ حضرات تصور کفر کو سمجھنے میں ابہامات کا شکار ہوگئے۔
”غیر مسلم“ کی اصطلاح کی منطقی تنقیح
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر منطقی اعتبار سے تو ’نہ مسلم نہ کافر‘ کے فلسفے کی منطقی تنقیح کرلی جائے۔ یہ فلسفہ ہمیشہ ہی سے ایک لاینحل عقدہ رہا ہے، وہ اس طرح کہ یہ دعوی ایک ایسی پوزیشن کا تقاضا کرتا ہےجس کا تصور ہی لامتصور ہے۔ انسان کی اصل بہرحال ’عبد‘ (خدا کا بندہ ) ہونا ہے۔ اس حقیقت کے اعتبار سے کسی انسان کا حال دو میں سے کسی ایک ممکنہ حال کا اظہار ہوگا، ایک یہ کہ وہ اس حقیقت کا اقرار کر رہا ہے، دوسرا یہ کہ وہ اس کا اقرار نہیں کر رہا۔ اس دوسرے حال میں وہ لازما کسی نہ کسی دوسرے عقیدے کا اقرار لازما کرتا ہے، یعنی نیوٹرل یا غیرجانبدار بہرحال نہیں ہوجاتا کہ ’نیوٹرل‘ (غیرجانبداریت) ایک لامتصور و لاموجود مقام ہے۔ پہلی صورت میں اس شخض کو مسلمان (اپنی حقیقت کو قبول کرنے والا) کہتے ہیں جبکہ دوسری صورت میں کافر (حقیقت کو چھپانے والا)۔ سوال یہ ہے کہ یہ ’نہ مسلم نہ کافر‘ انسان کس مقام پر براجمان ہے؟ اگر کفر و اسلام کے درمیان حد ’اقرار کرنے یا نہ کرنے‘ کی ہی ہے تو ایک شخص یا تو اس خط کے ایک طرف ہوگا یا دوسری اور ان دونوں اطراف کے سواء کوئی طرف عقلا ممکن نہیں (جیسا کہ خود قرآن نے بھی بتادیا کہ خدا کے پیدا کردہ انسان یا تو مومن ہیں اور یا پھر کافر) تو یہ ”نہ مسلم نہ کافر“ کہاں وجود رکھتا ہے؟ ذرا لفظ ”غیر مسلم“ پر توجہ کریں، اس کا معنی ”دائرہ مسلمانیت سے باہر و ماوراء“ کے سواء اور کیا ہے؟ آخر اس ”دائرہ مسلمانیت“ کے باہر کفر کے سوا اور کیا باقی بچتا ہے؟
1) مثبت قرآنی دلیل: گروہ غامدی اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے ک لیے درج ذیل آیت کو بطور دلیل پیش کرتا ہے:
[pullquote]ان الدین عند اللہ الاسلام و مااختلف الذین اوتوا الکتاب الا من بعد ما جاءھم العلم بغیا بینھم ومن یکفر بایات اللہ فان اللہ سریع الحساب [/pullquote] یعنی”دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے، اور (ان) اہل کتاب نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد بھی (اس بات سے جو) اختلاف کیا وہ صرف باہمی عناد و ضد بازی کی وجہ سے کیا۔ اور جو کوئی اللہ کی آیات کا انکار کرتا ہے تو اللہ بہت جلد حساب چکا دینے والا ہے.“ (آل عمران: 19)۔
اس کی بنیاد پر یہ دعوی کردیا گیا: ”یہ آیت اعلان کر رہی ہے کہ دین اللہ کے نزدیک اسلام ہے، لیکن جو کوئی جانتے بوجھتے محض ضد اور ہٹ دھرمی (بغیا) سے حق کا انکار کرے گا اللہ اس سے پرسش کریں گے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ رعایت کا مستحق ہے۔“ مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ آیت ان کے استدلال کے ان دوحصوں کہ: (الف) ’جو محض اسی ایک جذبے کے تحت انکار کرتا ہے وہی کافر ہے‘ نیز (ب)’دیگر سب معافی کے مستحق ہیں‘ کےلیے کس طرح دلیل بن سکتی ہے۔
درحقیقت سورہ آل عمران میں عیسائیوں کے اس مخصوص گروہ سے گفتگو ہو رہی ہے جو براہ راست رسول اللہ کے مخاطب تھے، اس آیت میں کوئی عمومی اصول نہیں دیا گیا بلکہ یہاں صرف ان کے حال کا بیان ہے کہ انہوں نے باہمی ’بغی‘ کی وجہ سے حق کا انکار کیا، گویا یہ ایک مخصوص گروہ کے حال کا بیان ہے اور بس۔ اس سے یہ کیسے پتہ چلا کہ اس مخصوص گروہ کے سواء کسی کو کافر کہنا جائز ہی نہیں؟ درحقیقت اطلاق کفر کس پر جائز ہے اور کس پر نہیں، اس آیت کا سرے سے یہ موضوع ہے ہی نہیں، اسے زبردستی اس کا محل بنا لیا گیا ہے۔ چنانچہ لغت، کلام اور اصول فقہ میں دلالت کی جتنی اقسام بیان ہوئی ہیں، ان سب کی روشنی میں اس آیت کا جائزہ لے لیا جائے، کسی ایک اصول سے بھی یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ یہاں بغی کی کیفیت اطلاق کفر کے لیے شرط لازم اور کفر کو اسی میں محصور قرار دینے کے لیے بیان ہوئی ہے۔
قرآن کا یہ عام اسلوب ہے کہ ایک بات یا حکم کسی مخصوص کیفیت کے ساتھ بیان ہوتا ہے مگر اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہوتا کہ وہ حکم اسی مخصوص کیفیت میں محصور بھی ہے، مثلا ارشاد ہوا:
[pullquote]لاتکرھوا فتیتکم علی البغاء ان اردن تحصنا (نور 33) [/pullquote] یعنی ”نہ مجبور کرو اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر اگر وہ پاک دامنی حاصل کرنا چاہیں.“
تو کیسا رہےگا اگر کوئی غامدی صاحب کی منطق پر اٹھ کر کہنا شروع کردے کہ (معاذاللہ) ”قرآن کی یہ آیت اعلان کر رہی ہے کہ اگر لونڈی پاکدامنی حاصل نہ کرنا چاہے تو اس سے بدکاری کا پیشہ کرانا جائز ہے؟.“ معلوم نہیں قران فہمی کے یہ اصول کب اور کس نے وضع کیے۔
غامدی صاحب جہاں چاہتے ہیں اپنے فہم کی بنا پر قرآن کے عام حکم کو سیاق و سباق اور ضمائر کے مراجع کو مخصوص کرکے خاص کر دیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں ایک مخصوص پیرائے میں بیان ہونے والی بات کو عام کر ڈالتے ہیں ۔ اب دیکھیے یہاں انہی کے اصول تفسیر کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس آیت میں قطعی طور پر ان اہل کتاب کو خطاب کیا گیا ہے جو براہ راست رسول اللہ کے مخاطبین تھے اور ان کے لیے اتمام حجت ہوجانا ہی ان سے حساب (یعنی دنیاوی عذاب) کی شرط تھی، لہذا قرآن نے یہاں اسی حقیقت کو بیان کیا ہے اس آیت کا شریعت کے عمومی قانون سے کوئی تعلق نہیں۔
2) ایک مزید اثباتی دلیل: کفر کے وجود کو ’ڈائناسارس‘ کی طرح دنیا سے ختم ہوچکنے کا سرٹیفیکیٹ دینے کے لیے گروہ غامدی ایک تاویل یہ بھی پیش کرتا ہے کہ ”'قرآن نے کافر اور کفر کے الفاظ اصلاً انھی منکرین کے لیے بولے ہیں جنہوں نے پیغمبر کی طرف سے دلائل و بینات پیش کیے جانے اور حق کی کماحقہ تبلیغ کے باوجود انکار کیا۔“ نتیجہ؟ ”لہذا اس مخصوص گروہ کے سواء کسی کےلیے یہ لفظ استعمال کرنا جائز نہیں۔“
• پہلی بات یہ کہ لفظ کفر کا اطلاق قرآن نے اس مخصوص گروہ کے علاوہ بھی کیا ہے (جس کی مثالیں اوپر بیان ہوچکیں)
• دوسری بات یہ کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ ایک مخصوص گروہ کےلیے یہ لفظ استعمال ہوا تو اس سے حصر کیسے لازم آیا؟ کفر کی صرف ایک شکل کفر جحود ہی تو نہیں ہوتی، اس کے علاوہ کفر تکذیب، کفر استکبار، کفر شک، کفر نفاق، کفر اعراض وغیرہ بھی کفر ہی کی شکلیں ہیں.
• تیسری بات یہ کہ یہ دلیل کسی کو مومن نہ کہنے کے لیے بھی اتنی ہی قوت کے ساتھ استعمال کی جاسکتی ہے کیونکہ قرآن نے ”ایمان لانے والوں“ کی اصطلاح بھی عموما ایک خاص طرح کی ایمانی کیفیت والوں کے لیے استعمال کی ہے جو اب کسی کو نصیب نہیں ہوسکتی.
• چوتھی بات یہ کہ جو گروہ اب ایمان نہیں لارہے ان کے لیے ”غیرمسلم“ کی اصطلاح کہاں سے آگئی؟ اس اصطلاح کا کیا ثبوت ہے؟ اگر اصطلاح اپنی مرضی سے ہی وضع کرنی ہے تو یہ اصطلاح ”بحوالہ مسلم“ (یعنی ’غیر مسلم‘) وضع کرنے کی کیا شرعی دلیل و ضرورت ہے؟ اگر کوئی دلیل نہیں تو ان کے لیے ’نیوٹرل‘، ’غیرجانبدار‘، ’انسان محض‘ جیسی کوئی اصطلاح یا وہ جس عقیدے و مذہب پر قائم ہیں (مثلا ہندو، عیسائی وغیرہ) وہی الفاظ استعمال کرلینے کو ہی کیوں نہ احسن سمجھا جائے؟ خصوصا جب غیر شعوری طور پر اندرون خانہ ذہنیت کافر کو لفظ ’کافر‘ سے محسوس ہونے والی ذہنی کوفت سے بچانا اور مسلم و کافر ملتوں کے درمیان جدید معاشرتی و ریاستی تناظر میں خیرسگالی کو فروغ دینا ہو، ایسے میں لفظ ’غیر مسلم‘ یعنی ’اطاعت گزار نہ ہونے‘ کا لیبل بھی خاصی ذہنی کوفت کا باعث بن سکتا ہے، لہذا اسے مزید نرم (dilute) کرنے کی ضرورت ہے
• پانچویں بات یہ کہ اگر اصطلاح کفار کا کوئی مسمی بہ رسول خدا ﷺکے بعد وجود نہیں رکھ سکتا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ”غیر مسلم“ نما مخلوق کے بارے میں خدا کی راہنمائی کیا ہے کہ ان کے ساتھ کیا معاملات روا رکھے جائیں؟ بظاہر’اصطلاح‘ کے اس فرق سے یقینا کفار کے تناظر میں بیان ہونے والے 95 فیصد سے زیادہ قرآنی احکامات اب ہمیشہ کے لیے ’منسوخ‘ ہو چکے کہ اب وہ کفار بھلا کہیں تھوڑے پائے جاتے ہیں۔
اس مقام پر یہ کہنا پڑتا ہے کہ تنسیخ، تخصیص و تقیید کا جو حق یہ حضرات رسول خداﷺ کو دین کے کسی ”ایک بھی معاملے“ میں دینے کے روا نہیں خود اپنے لیے اسے تھوک کے حساب سے استعمال کرتے ہیں، وہ بھی فہم قرآن کے نام پر۔ یعنی ان حضرات کے نزدیک رسول خدا کو تو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے فہم قران (جسے یہ سمجھ نہ سکے ہوں) کی بنیاد پر کسی حکم کو مخصوص یا محدود کردیں، البتہ ان جدید مفسرین قرآن کو حق ہے کہ اپنے فہم کی بنا پر جس آیت کا حکم چاہیں عام قرار دیں اور جسے چاہیں ہمیشہ کےلیے کالعدم ٹھہرائیں۔
خلاصہ:
اس مختصر مضمون میں غامدی صاحب کے نظریہ کفر کے خلاف آٹھ طرح کے دلائل پیش کیے گئے:
1) ان کے اس نظریے کے برعکس براہ راست نصوص قرآن میں موجود ہیں.
2) ان کے اس نظریے کے حق میں براہ راست کوئی واضح نص قرآنی موجود نہیں.
3) اگر ان کے پیش کردہ قرآنی دلائل کو مان بھی لیا جائے تو بھی اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں کہ اتمام حجت اطلاق کفر کے لیے شرط لازم ہے، بلکہ اس کے برعکس سورہ توبہ کی آیت سے معلوم ہوا کہ یہ قطعا اس کی شرط نہیں.
4) اس امر کی بھی کوئی دلیل نہیں کہ اطلاق کفر اسی ایک شکل میں محصور بھی ہے.
5) ان کے تصور کفر کی بنیاد (کفر کا مطلب کسی عقیدے پر ہونا نہیں بلکہ انکار ایمان ہے) ہی سرے سے غلط ہے.
6) تصور ’غیرمسلم‘ ایک لا متصور پوزیشن کے وجود کو فرض کرتا ہے.
7) ان کی مجوزہ ”متبادل اصطلاح“ کی کوئی شرعی بنیاد موجود نہیں.
8) ان کے نظریے کو ماننے کے نتیجے میں بہت سی قباحتیں لازم آتی ہیں.
درحقیقت دور جدید میں ’کفر‘ کو کالعدم قرار دے کر اسکی جگہ متبادل کیٹیگری (نہ مسلم نہ کافر) قائم کرنے کا چھپا ہوا جذبہ محرکہ دین کو ”جدید معاشرت و ریاست“ (سول سوسائٹی وجمہوریت) کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کی ذہنیت ہے، ایک ایسی معاشرت و ریاست جہاں کافر و مسلم کی شناخت ہی بےمعنی بات ہوتی ہے، لہذا غیر شعوری طور پر ہی صحیح مگر اس فرق پر اصرار کرنے والوں کی جڑ کاٹ دینے کےلیے یہ فلسفہ کھڑا کیا گیا ہے تاکہ مسلمان کسی ذہنی الجھن کے بغیر خود کو اس جدید معاشرتی و ریاستی نظم میں سمو سکیں۔
تحریر کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

Comments

Click here to post a comment