ہوم << رابطہ - حنا نرجس

رابطہ - حنا نرجس

دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کر کے اس نے اپنے مخصوص انداز میں انہیں سر کے پیچھے رکھا اور بستر پر چت لیٹ کر جسم کو ڈھیلا چھوڑتے ہوئے اپنے تھکے ہوئے اعصاب کو پر سکون کرنے کی کوشش کرنے لگا. ہلکی و مختصر سی ٹون سنائی دی مگر فی الحال اس کا فون تکیے کے نیچے سے نکال کر آنے والا ایس ایم ایس پڑھنے کا کوئی ارادہ نہ تھا.
پتا نہیں کن لوگوں کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ سارا سارا دن فضول لطیفوں، بے مقصد و بے بنیاد باتوں، بے سر و پا بے وزن شاعری اور اسلامی تعلیمات پر مبنی غیر مستند ایس ایم ایس فارورڈ کرتے رہیں. وحید کے خیال میں ایسا صرف وہی لوگ کرتے ہوں گے جن کے پاس زندگی میں کوئی بڑا مقصد نہ ہوتا ہو. مگر ضروری نہیں کہ اس کے خیال سے سب متفق ہی ہوں. جب کبھی وہ ان باکس کھولتا اس کے دوست عاقب عظیم کے ایسے ہے پیغامات کی بھرمار ہوتی.
عاقب اس کا ہم جماعت تھا. میٹرک کے بعد راستے جدا ہوئے اور فاصلہ شہروں پر محیط ہو گیا. جدا ہوئے کم و بیش بیس سال گزرے ہوں گے جب اتفاقیہ ملاقات ہوئی. روایتی بات چیت، شادی اور پھر بچوں کے بارے میں سوال و جواب ہوئے اور فون نمبرز کا تبادلہ کیا گیا. اب کال کی نوبت تو کم کم ہی آتی مگر ایس ایم ایس کا یک طرفہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا.
اپنے سادہ سے موبائل سیٹ میں وحید کے پاس دو ہی آپشنز تھے. یا تو "ڈیلیٹ آل" کا بٹن دبایا جاتا یا پھر فرداً فرداً ہر ایس ایم ایس کو ڈیلیٹ کیا جاتا. اول الذکر کے استعمال میں کچھ ضروری معلومات یا خاص مواقع پر بھیجے گئے قریبی عزیزوں کے خاص پیغامات پر مبنی ایس ایم ایس بھی ضائع ہو جاتے. لہٰذا دوسرا آپشن ہی رہ جاتا اور اب تو بیگم صاحبہ اس کام کے لیے اپنی رضا کارانہ خدمات پیش کر دیتیں.
"اوہ خدایا! آپ کے یہ دوست سب سے منفرد مزاج رکھتے ہیں. پورا ان باکس انہی کے ایس ایم ایس سے بھرا ہوا ہے. آپ ان کو بتا کیوں نہیں دیتے کہ آپ فارورڈ میسجز نہیں پڑھ پاتے. اس طرح آپ دونوں کی انرجی اور وقت بچے گا."
"کہتی تو آپ ٹھیک ہی ہیں. میں بات کروں گا اس سے."
وحید کے کال کرنے سے پہلے ہی عاقب کی کال آ گئی. چہچہاتی، مسکراتی، زندگی سے بھرپور آواز میں وہ حال چال دریافت کرنے لگا.
"یار، تیرے شہر میں آیا ہوا ہوں... مگر آ نہیں سکتا تیرے پاس... کچھ سامان لے کر جلدی واپس پہنچنا ہے... بھابھی کو بتا دینا میرا لنچ ادھار ہے... پھر آؤں گا. "
ادھر ادھر کی کچھ اور باتیں ہوئیں پھر وحید نے جھجھکتے ہوئے وہ بات کی. جواب، عاقب کا بلند و بالا قہقہہ تھا.
"یار، تُو ان میسجز کو آگے فارورڈ کر دیا کر... کتنی لاگت آئے گی تیری بھلا... یہ محض رابطے کا بہانہ ہوتے ہیں، ڈیئر... بے شک تُو پڑھا نہ کر... تجھے یہ تو پتہ چل جاتا ہے نا کہ میں نے تجھے یاد کیا ہے..." اس کا انداز لاپرواہ سا تھا.
وقت بنا آہٹ کے آگے بڑھتا رہا. عاقب کے ایس ایم ایس کی تعداد میں اضافہ ہی ہوا ہو گا، کمی ہر گز نہیں آئی. اب تک وحید اس کی اس عادت سے سمجھوتا کر چکا تھا.
دو چھوٹے بہن بھائیوں کی شادیوں کے سلسلے میں گھر میں کام کاج اور خریداری کا لامتناہی سلسلہ چل رہا تھا اور کام تھے کہ ختم ہونے پر ہی نہ آتے. ذمہ داری کا سب سے زیادہ بار وحید پر تھا. اس دن بھی فرنیچر مارکیٹ میں بہت وقت صرف ہوا مگر اللہ کا شکر ہے کہ ڈیزائن فائنل کر کے آرڈر دے دیا گیا تھا.
بستر پر لیٹے ایک گھنٹہ ہونے کو آیا تھا مگر نجانے کیوں آج نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی. مخصوص ٹون نے متوجہ کیا.
"ضرور عاقب کا ایس ایم ایس ہو گا." عادت کے بر خلاف اس نے موبائل فون فوراً اٹھایا مگر اندازہ درست ثابت نہ ہوا. وہ یونہی ان باکس میں میسجز دیکھتے دیکھتے بہت نیچے تک چلا گیا مگر عاقب کا کوئی ایس ایم ایس نظر نہ آیا. وہ بے اختیار مسکرا دیا.
"تو اس کا مطلب ہے بالآخر عاقب کی سمجھ میں میری بات آ ہی گئی ہے."
چند دن اور گزرے. شادیوں کے ہنگامے تھمے اور زندگی معمول پر آ گئی. اُس دن وہ اسامہ اور ضحی کو اپنے سکول کے قصے سنا رہا تھا. عاقب سمیت بہت سے کلاس فیلوز کا ذکر آیا. ایک دم کسی خیال کے تحت وہ خود کلامی کے انداز میں کہنے لگا،
"یہ عاقب نے ایس ایم ایس کرنا کیا چھوڑے، کال تک کرنا بھول گیا. کہاں گئی اب اس کی وہ رابطوں کی تھیوری؟"
موبائل اٹھائے وہ کمرے سے باہر بالکونی میں آ نکلا. نمبر ملایا. اب وہ عاقب کی خوب خبر لینے کے موڈ میں تھا. کال ریسیو کی گئی.
"السلام علیکم، انکل!"
"و علیکم السلام، بیٹا! کیا حال چال ہے؟ کیسے ہو؟ یہ ذرا عاقب سے تو بات کرواؤ میری."
"انکل، ابو کی تو ایک ماہ پہلے ڈیتھ ہو گئی."
"کیا؟؟؟؟؟"
شاک ایسا شدید تھا کہ دل و دماغ بگولوں کی زد میں آ گئے. بیگم نے گم صم بیٹھے دیکھ کر کندھا ہلکے سے ہلایا.
"آپ ٹھیک تو ہیں نا، وحید؟" دلگرفتگی کے ساتھ خبر اس تک پہنچائی گئی.
"اوہو، بہت افسوس ناک خبر ہے یہ تو... کیا ہوا انہیں..؟ بیمار تھے کیا..؟
ہاں، شارق کہہ رہا تھا کہ بیمار ہو گئے تھے." آواز جیسے کسی گہرے خالی کنوئیں سے آ رہی تھی. اس کے اپنے کانوں کو اجنبی محسوس ہوئی.
"ایسی کون سی بیماری آئی کہ یوں اتنی جلدی... آپ نے تفصیل نہیں پوچھی؟ کتنے بچے ہیں ان کے؟ اور یہ بڑا بیٹا پڑھتا ہے یا جاب کرتا ہے؟ باقی خاندان کہاں ہے؟ مالی حالات کیسے ہیں؟
مگر وحید خالی نظروں سے دیکھے جا رہا تھا.
"آپ نے پوچھا نہیں یہ سب؟ کتنی دیر بات ہوئی؟"
"چار پانچ منٹ بات ہوئی مگر... مگر پتا نہیں کیا بات ہوئی... مجھے کچھ نہیں پتہ..."
اس کی نگاہوں کے سامنے تو ایک دبیز سکرین تھی جس پر صرف یہ الفاظ کندہ تھے.
"ابو کی تو ایک ماہ پہلے ڈیتھ ہو گئی."
پتہ نہیں کتنا وقت سرک چکا تھا جب وہ کچھ سوچنے کے قابل ہوا. آخری کال وحید نے ہی کی تھی... کوئی ڈیڑھ ماہ پہلے... اور بات ادھوری رہ گئی تھی... بیلنس ختم ہونے کی بنا پر رابطہ منقطع ہو گیا تھا..!
ہلکے ہلکے خراٹوں کی آواز گھر والوں کے سونے کا پتہ دیتی تھی. نیم تاریکی میں جائے نماز پر بیٹھا وجود دونوں ہاتھ اٹھائے مجسّم سوال تھا. وقفے وقفے سے آنسو ہتھیلیوں کو بھگو رہے تھے. رابطے کی کوشش جاری تھی. وہ اللہ کے حضور اپنے دوست کے لیے سراپا دعا بنا ہوا تھا... کیونکہ رابطے بحال رہنے چاہییں نا... براہ راست نہ سہی... بالواسطہ ہی سہی..!

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment