ہوم << المیہ - کامران امین

المیہ - کامران امین

کامران امین 2013ء کے آخری ایام کی بات ہے. میں اپنی تعلیم کی وجہ سے اسلام آباد میں ایک ہاسٹل میں رہائش پذیر تھا۔ میرے روم میٹ نے مجھے سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک لڑکے سے متعارف کروایا جو آئی ایس ایس بی کی تیاری کر رہا تھا۔ خیر مجھے کہا گیا کہ اگر ممکن ہو تو میں ریاضی میں اس لڑکے کی مدد کروں۔ ابتدائی کچھ گفتگو کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ وہ لڑکا تو ریاضی کے بنیادی اصولوں سے بھی واقفیت نہیں رکھتا۔ میری حیرانی میں اور اضافہ ہوا جب مجھے بتایا گیا کہ اس لڑکے نے ایف ایس کے امتحان میں اسی فی صد سے زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں۔ مجھے پوری امید تھی کہ وہ لڑکا ابتدائی ٹیسٹ بھی نہیں کر پائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ جس شام کو نتیجہ آیا اس نے اپنے گھر والوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسے صرف اس لیے منتخب نہیں کیا گیا کیوں کہ وہ سندھی تھا۔ آرمی میں پنجابی افسران کی بالادستی ہے اور ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ پنجابی ہی بھرتی ہوں۔ اس نے نہ جانے کتنے لوگوں کو یہ کہانی سنائی ہوگی اور اپنے ایف ایس کے نمبر بھی بتائے ہوں گے۔ یقیناً اس کے دوست احباب یہی کہیں گے کہ وہ لڑکا بہت ذہین اور فطین ہے اور سچ کہ رہا ہے۔ یہی حال کشمیر سے تعلق رکھنے والے میرے ایک اور ساتھی کا ہوا۔ وہ دو دفعہ منتخب نہیں ہو سکا اور آج کل وہ ہر وقت پاکستان کے خلاف بھرا ہوتا ہے۔
کیا یہ صرف سند ھ کی کہانی ہے؟ جی نہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں ہوش سنبھال رہا تھا تو آزاد کشمیر میں پاکستان کے خلاف بات کرنا کبیرہ گناہ سمجھا جاتا تھا۔ آرمی کی گاڑیاں سڑکوں پر گشت کرتی تھیں تو ہم بچے کنارے کھڑے ہو کر انہیں سلیوٹ کیا کرتے۔ اب مگر اسی کشمیر میں قوم پرست گروہ نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ مگر کیا یہ جائز ہے؟ کیا سنجیدہ فکر رکھنے والے کچھ لوگ اس بارے میں بھی مباحثہ کریں گے کہ نوجوان فرقہ پرستی، لسانی گروہ بندی کی طرف کیوں مائل ہو رہے ہیں ؟ چھوٹے گروہوں میں بڑھتے ہوئے احساس محرومی سے کوئی نقصان ہو سکتا ہے۔
اس کی ہزاروں وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن میرے خیال میں تعلیمی نظام پر بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ میں جب پرائمری اور مڈل سکول میں تھا تو ہر روز کم از کم ایک گھنٹہ ہمارے اساتذہ اخلاقی اور سماجی برائیوں پر ہمیں درس دیا کرتے (جو اگر چہ اس وقت ہم توجہ سے نہیں سنتے تھے لیکن آج ان کی افادیت خوب معلوم ہوتی ہے). ایک دفعہ میں نے قمیص پر کافی شوخ قسم کی کڑھائی اور بٹن لگوائے تو میرے ایک معزز استاد نے مجھے کہا: آپ جیسے طالب علم پر یہ بازاری لڑکوں کا سا لباس جچتا نہیں۔ اس کے بعد کبھی بھی وہ قمیص نہیں پہنی۔ میں دراصل یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ استاد اس وقت طالب علم کی پڑھائی سے لے کر اس کے لباس گفتگو، چلنے پھرنے اور کھیلنے کودنے تک نظر رکھا کرتے تھے، لیکن کیا یہ اب بھی ہے؟ مجھے افسوس ہے کہ اب یہ سلسلہ کہیں متروک ہو چکا ہے اور کہیں متروک ہوتا جا رہا ہے۔ استاد کی پوری توجہ اب صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ طالب علم کس طرح زیادہ سے زیادہ نمبر لے اور بس۔
لیکن اس سارے معاملے میں صرف استاد کو قصور وار ٹھہرانا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ جہاں پر استاد کی ترقی اور عزت افزائی کا سارا دارومدار صرف اسی بات پر ہو کہ اس کے طالب علموں نے 100 میں سے کتنے نمبر لیے تو استاد پھر اچھے نمبروں کی دوڑ کے پیچھے نہیں بھاگے گا تو اور کیا کرے گا۔ بہت سارے لوگوں نے تھری ایڈیٹس دیکھی ہوگی (اگر نہیں دیکھی تو ضرور دیکھیں) ہیروئین کا باپ کالج کا پرنسپل ہوتا ہے۔ اور جب ہیروئین ایک موقع پر ہیرو سے یہ پوچھتی ہے کہ تمہیں میرے باپ سے کیا دشمنی ہے تو ہیرو اسے جواب دیتا ہے کہ تمہارا باپ ایک ایسی فیکٹری چلا رہا ہے جس میں ہر سال گدھے مینو فیکچر ہوتے ہیں۔ کیا ہمارے تعلیمی ادارے ہماری سوسائٹی بھی ایسی ہی ایک فیکٹری نہیں بنتی جا رہی؟