ہوم << سعودی عرب میں دہشت گردی، کیا ہوا ، کیا ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

سعودی عرب میں دہشت گردی، کیا ہوا ، کیا ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

1096_96255163اسٹریٹیجک نوعیت کی کوئی بھی کارروائی کرتے ہوئے تین باتین بہت اہم رہتی ہیں :
1. ہدف کا انتخاب،
2. اس ہدف پر حملہ کے مطلوب نتائج
اور
3۔ اس کارروائی سے فریق مخالف کو کس قدر اور کس طرح نقصان پہنچایا؟ اس نقصان پہنچانے میں کہاں تک کامیابی ہوئی؟
سعودی عرب میں 4 جولائی کو ہوئے 4 بم دھماکوں میں یہ تینوں باتیں نمایاں طور سے نظر آئیں۔
ان دھماکوں کے متعلق بطور ایک فرد یا مسلمان ہماری جو بھی رائے ہو مگر یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ اس کے پیچھے نہایت کہنہ مشق دماغ کام کر رہا/ رہے ہیں۔ گو دانش کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم بطور مسلمان بھی اس بات پر ضرور توجہ دیں تاکہ ممکنہ عواقب کا درست طور اندازہ لگا سکیں۔
اس منظم و مربوط کارروائی سے سعودی عرب کو بیک وقت تین اطراف سے ضرب لگائی گئی ہے۔
1۔ مملکت کے مشرق میں واقع شیعہ علاقوں اور شیعہ شہریوں کی حفاظت اور وہاں کے حالات پر سوالات اٹھیں گے، بالخصوص ایران اور اس کے حمایتی حلقوں کی جانب سے۔
2۔ امریکی قونصل خانے کے قرب میں حملہ سے مغربی ممالک میں تشویش کی لہر اٹھے گی اور وہ سعودی عرب پر بہتر سیکورٹی کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔
3۔ سب سے بڑی کارروائی (اپنے اثرات کے حوالہ سے) مدینہ منورہ میں ہوئی جہاں عین مسجد نبوی ﷺ کے عقب میں ایک دھماکہ ہوا جہاں مبینہ حملہ آور کے علاوہ چار سیکورٹی اہلکار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔maxresdefault (1)
اس حملہ سے پوری مسلم دنیا میں تشویش اور سراسیمگی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ گو حملہ آور مسجد نبوی ﷺ میں داخل نہ ہوا لیکن بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کا ہدف بھی نہیں تھا۔ جہاں اس نے پہنچنا تھا، وہ پہنچا اور اس نے اپنا کام کر دیا۔ اس کی اصل اہمیت ایک طرح کا اعلان ہے کہ ہم یہاں تک پہنچ چکے۔
مدینہ منورہ ہی نہیں باقی دو دھماکوں میں بھی جانی نقصان کچھ خاص نہیں ہوا لیکن اس کی علامتی حیثیت بہت بڑی ہے۔
1۔ "ہم" موجود ہیں۔
2۔ کہاں کہاں موجود ہیں
3۔ کیا کچھ کر سکتے ہیں
اور ۔۔۔۔
4۔ کتنے اطمینان سے مختلف جگہ پر بیک وقت کاروائی کر سکتے ہیں۔ سعودی سیکورٹی نظام اس وقت نہایت خفت اور شدید ترین پریشانی کے عالم میں ہوگا۔ سفارتی سطح پر شرمندگی کے علاوہ مقامات مقدسہ اور زائرین کے تحفظ کا سوال کھڑا ہو سکتا ہے یا کیا جا سکتا ہے۔
علامتوں کی بات چل رہی ہے تو ایک اور علامت جسے نظر میں رہنا چاہیے. جدہ دھماکہ کے حملہ آور کا مبینہ طور پاکستانی ہونا ہے۔ سعودی عرب اس سب کا ردعمل کس طرح دیتا ہے، یہ آنے والے دنوں میں سب سے اہم سوال ہوگا۔ کیا وہ ایک مکمل سیکورٹی سٹیٹ میں ڈھل جائے گا؟ تارکین وطن کے حوالے سے اس کی پالیسیاں کیا رہیں گی؟ ایران کے ساتھ تعلقات کا یہ بگاڑ جاری رہے گا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حج اور عمرہ کے انتظامات کے لیے کیا نئے اقدامات اٹھائے جائیں گے؟
یہ بھی اہم ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جس 34 ملکی اتحاد کی بات ہم نے سنی، اس کی عملی صورت اب کیا ہوگی؟ وہ کیسے اور کس سطح پر فعال ہو سکے گا؟ یہاں پاکستان کے رول کے متعلق بھی بات اب زیادہ دیر مبہم نہیں رہ پائے گی کیونکہ جس سرخ نشان سے پاکستان نے اپنی شمولیت مشروط کر رکھی تھی اس تک تو بات پہنچ گئی. مقامات مقدسہ تک بھی اپنی رسائی ظاہر کر دی دہشت کے سرخیلوں نے۔ چنانچہ سعودی فیصلہ ساز اب پاکستان سے کچھ بڑھ کر کرنے کی توقع کر رہے ہوں گے۔ دوسری جانب پاکستان کسی ایسے قضیہ میں نہیں الجھنا چاہے گا جہاں دہشت گردی کے خلاف جاری اس کی اپنی جدوجہد متاثر ہو یا پھر اس کی معاشی بحالی کی کوششیں متاثر ہوں جو وہ کر رہا ہے بالخصوص چین کے ساتھ مل کر۔ یہ عین متوقع ہو گا کہ پاکستان کی کھلم کھلا شمولیت پاکستان کے اندر بھی کارروائیوں کا سبب بن جائے ۔raheel-sharif-nawaz-sharif
بہرحال، پاکستان کو ہر قسم کی صورتحال کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا ، اور اس کے لیے دستیاب وقت شاید بہت زیادہ نہ ہو۔ پاکستان کو فی الفور اپنے ایسے تمام اندرونی تنازعات کو سمیٹنا ہوگا جو کسی بھی موقع پر اس کے لیے کمزوری کا باعث ہو سکیں۔ اس میں جاری سیاسی کشمکش اور سول ملٹری تعلقات کی موجودہ صورتحال سر فہرست ہے۔ ادھر سعودی عرب کو بھی سفارتی میدان میں چند بڑے فیصلے کرنا ہوں گے خواہ وہ مغرب کے ساتھ تعلقات ہوں، پڑوسی ممالک کے ساتھ یا پھر ایران کے ساتھ۔
دہشت گردوں، یا سعودی عرب کے بدخواہوں کی جانب سے ارادہ سامنے آگیا ہے۔ سعودی عرب میں کتنا سفارتی، سیاسی اور انتظامی دم خم ہے ، اور پاکستان کی حکمت عملی کیا رہے گی؟ یہ آئندہ چند ہفتوں میں واضح ہو جائے گا۔

Comments

Click here to post a comment