ہوم << مسجد نبوی ﷺ پر پہلے تین حملے. کس نے اور کب کیے؟ عمران زاہد

مسجد نبوی ﷺ پر پہلے تین حملے. کس نے اور کب کیے؟ عمران زاہد

13240137_10154942007179478_5318697126467014080_n ہمارے نبی کریم ﷺ کے شہر میں دھماکوں سے روح تک زخمی ہو گئی ہے۔ لیکن یہ کوئی پہلا حملہ تو نہیں ہے ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے بھی حملے ہو چکے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے نام پہ پہلے بھی لوگ اپنی جانیں فدا کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ لیکن اس شہر کی رونقوں کو کبھی ماند نہیں پڑنے دیں گے۔
:
آج کے حملے نے مدینہ پرہونے والے پہلے ہونے والے حملوں کی بھی یاد تازہ کر دی۔ آئیے ان حملوں کو بھی تاریخ کے جھروکوں میں سے جھانک کے دیکھتے ہیں۔ (آج کے حملہ آور کہیں انہی کی نسل میں سے نہ نکل آئیں)
:
۳ - تیسرا حملہ:
تیسرا حملہ 63 ہجری میں ہوا تھا۔ مدینہ پہ شامی افواج نے چڑھائی کی تھی۔ اس حملے میں انصار ومہاجرین کے گھرانوں کے سینکڑوں افراد شہید ہوئے (تاریخ کی بعض روایات میں دس ہزار سے زائد افراد کی شہادت کی خبر ملتی ہے)۔ خواتین کی بے حرمتی ہوئی اور تین دن تک مسجد نبوی میں نماز نہ ہو سکی۔ تاریخ کی کتابوں میں اس افسوسناک واقعہ کو واقعہ حرۃ کہتے ہیں۔
:
مسلمانوں کی خلافت قیصر و کسریٰ کی ملوکیت میں تبدیل ہو چکی تھی۔ یہ یزید بن معاویہ کا دورِ حکومت تھا اور چند سال پہلے کربلا میں نواسہ رسول حضرت امام حسین رض کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آ چکا تھا۔ حضرت حسین رض نے کربلا میں اپنی جان دے کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ مسلم شعور جبر اور رشوت کی جعلی خلافت (ملوکیت) کو کبھی قبول نہیں کر سکتا۔ ایسی حکومت اسلامی نظام حکومت کی جڑ کاٹنے کے مترادف ہے۔ ایسی حکومت کو قبول کرنے کی نسبت اس کی مخالفت میں جان دینا افضل ہے۔ حضرت امام حسین کی قربانی کا اعجاز تھا کہ اس واقعے کے بعد پورے حجاز میں یزید کے خلاف غم و غصہ اور نفرت اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا اور وہاں سے ایک انقلاب اٹھ رہا تھا۔ ظالمانہ حکومت سے بغاوت کے بادل ہر جگہ چھا رہے تھے۔
:
اہل مکہ نے یزید کو رد کر کے عبد اللہ بن زبیر کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی اور اہل مدینہ بھی یزید کے خلاف ہو چکے تھے۔ اس صورتحال میں یزید سلطنت اسلامیہ میں مزید کشت و خون نہیں چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لئے اس نے اہل مدینہ کو سمجھانے کے لیے ان کا ایک وفد دارالحکومت دمشق بلوایا۔ امیر مدینہ عثمان بن محمد نے یہ وفد عبد اللہ بن حنظلہ کے ہمراہ دارالحکومت دمشق روانہ کیا۔ یزید کے وفد سے نرم سلوک اور انعام و اکرام سے نوازنے کے باوجود سانحۂ کربلا کے نتیجے میں پیدا ہونے والا غم و غصہ برقرار رہا اور اہل مدینہ امویوں کے کھلم کھلا مخالف بن گئے۔ اس مخالفت کے نتیجے میں اموی خاندان کے افراد کو مدینہ سے نکال دیا گیا۔
:
ان واقعات کا علم جب یزید کو ہوا تو اس نے مسلم بن عقبہ کو مدینہ پر فوج کشی کا حکم دیا۔ مسلم بن عقبہ یزید کے حکم پر بارہ ہزار آدمیوں کا لشکر لے کر مدینہ کی جانب روانہ ہوا۔ لشکر کی روانگی کے وقت یزید نے بذات خود چند احکامات کی پابندی کا حکم دیا۔ وہ احکامات یہ تھے:
:
۱۔ اہل مدینہ کو تین دن کی مہلت دینا تاکہ وہ اس عرصے میں کوئی فیصلہ کر لیں
۲۔ تین دن کے بعد اگر وہ اطاعت قبول نہ کریں تو جنگ کرنا
۳۔ جنگ میں کامیابی کی صورت میں تین روز تک قتل عام جاری رکھنا اور مال و اسباب لوٹنا
۴۔ علی بن حسین کو کوئی نقصان نہ پہنچانا۔
:
ان احکامات پر عمل کرنے کا وعدہ کر کے مسلم بن عقبہ اپنے لشکر کے ہمراہ مدینہ کی جانب روانہ ہوا۔ مدینہ کے قریب پہنچ کر مسلم نے اہل مدینہ کو مصالحت کی دعوت دی اور ساتھ ہی تین دن کی میعاد مقرر کی۔ لیکن اس عرصے میں اہل مدینہ خاموش رہے۔ تین دن کے بعد مسلم بن عقبہ نے اہل مدینہ کو جنگ یا صلح میں سے ایک راستہ اختیار کرنے کی دعوت دی۔ اہل مدینہ یزید کی اطاعت قبول کرنے پر تیار نہ تھے، انہوں نے جنگ کو ترجیح دی۔
:
جنگ میں مدنی لشکر کی قیادت عبد اللہ بن حنظلہ نے کی لیکن اہل مدینہ کو شکست ہوئی اور ان کے کئی اکابرین شہید ہوئے۔ مسلم نے فتح حاصل کرنے کے بعد یزید کے حکم کے مطابق قتل و غارت گری کی اور یہ سلسلہ تین دن تک جاری رہا۔ اس واقعے میں سینکڑوں شرفائے قریش و انصار اور دیگر قبائل کے آدمی کام آئے۔ تین دن کےبعد باقی ماندہ لوگوں سے بیعت کرنے پر اصرار کیا گیا۔ ان سے جبراً تلوار کی نوک پر بیعت لی گئی۔ بیعت سے انکار کرنے والے کا سر قلم کر دیا جاتا۔ امام زین العابدین بھی پیش ہوئے لیکن یزید کی ہدایت کے مطابق ان سے کوئی سختی نہ کی گئی۔
:
یزید کا دورِ حکومت مسلم تاریخ کا سیاہ ترین باب قرار پایا۔ جسے چھپائے نہیں چھپایا جا سکتا۔۔۔۔۔ آج کے حملے میں حملہ آور کا نام چاہے جو بھی ہو لیکن وہ یزید کی روحانی اولاد ہے۔
:
۲- دوسرا حملہ:
دوسرا حملہ 35 ہجری میں تب ہوا جب حضرت عثمان غنی رض کی خلافت میں بغاوتوں نے سر اٹھایا۔ پورے عرب سے باغی مدینہ میں جمع ہو گئے اور گلیوں میں دندناتے پھرتے تھے۔ انہوں نے خلیفہ سوم کی رہایشگاہ کا سخت محاصرہ کر لیا تھا جو کہ کئی روایات کے مطابق چالیس دنوں تک طول پکڑ گیا۔ انکا پینے کا پانی تک بند کردیا گیا۔ مدینہ میں موجود صحابہ اور دوسرے اصحاب حضرت عثمان سے اجازت طلب کرتے رہے کہ انہیں باغیوں سے لڑنے کی اجازت دی جائے، لیکن حضرت عثمان اپنے لئے مسلمانوں کا خون بہانا مناسب نہیں سمجھتے تھے۔
بالاخر 18 ذی الحجہ 35 ھ کو نبی اکرمﷺ کے اس محبوب خلیفہ اور آپ کی اہلیہ کو اس مظلومانہ انداز میں قتل کر دیا گیا کہ آپ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے ، کئی دن کے روزے سے تھے ،اور اپنے گھر میں محصور تھے۔
:
۱ - پہلا حملہ :
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مدینۃ الرسول پر پہلا حملہ حضرت عمر فاروق رض پر ہوا تھا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رض کا ایک مجوسی غلام ابولولو حضرت عمر فاروق کے پاس اپنے مالک کی شکایت لے کر آیا کہ اس کا مالک اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجئے۔ امیر المؤمنین نے فرمایا تم بہت ہنرمند ہو، چار درہم روز کے تمہارے لئے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ غصّے میں آگ بگولہ ہو گیا اور آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا۔ 26 ذی الحجہ 23ھ بروز بدھ آپ نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ جب آپ نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو ابولولو آپ پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ بُری طرح زخمی ہو گئے اور تین دن کے بعد تریسٹھ برس کی عًُمر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔
اللہ ان تمام سازشوں، مخالفتوں اور بغاوتوں کے باوجود نبی کے شہر کو ہنستا بستا رکھے کہ یہ وہ شہر ہے جو تمام مسلمانوں کے دل کا چین اور سکون ہے۔ ہمارے ایمان کا مرکز و محور ہے۔
(واقعات کی تفصیلات وکی پیڈیا اردو سے لی گئیں)

Comments

Click here to post a comment

  • میری معلومات کے مطابق پہلا حملہ مسجد نبوی ﷺ میں مجوسی غلام ابو لؤلؤ نے کیا ، خلیفہ دوم عمر رض پر جب وہ امامت کر رہے تھے اور پھر عمر رض شھید ہوئے، اس کے بعد دور عثمان رض میں باغیان نے مدینہ کے باہر سازش کرکے گھیراؤ کیا، مدینہ میں داخل ہوکر قصر خلافت کا محاصرہ کیا، ان کا پانی تک بند کردیاگیا اور انکی آخرکار مظلومانہ شہادت ہوئی۔ یہ دو ایسے واقعات ایسے ہیں جن میں ٹاپ شخصیات کو نشانہ بنایا گیا البتہ مدینہ میں ویسی خون ریزی نہیں ہوئی جیسے یزید کے دور میں ہوئی

  • یذید کے کرتوتوں پر جب کبھی بھی کوئی منصف مزاج شخص خامہ فرسائی کرتا ہے تو کچھ طبقے جن کے مفادات ملوکیت کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں خوب چیں بہ جبین ہوتے ہیں اور مسلمان اماموں کی لکھی ہوئی تاریخ پر انگلیاں اٹھاتے ہیں ۔جو الحمد للہ کسی علمی تعصب کا شکار نہیں تھے۔
    کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یذید ایسے شخص کو بلا وجہ بدنام کردیا گیا ہے اور صحیح العقیدہ مسلمان اپنی کوئی صحیح تاریخ تک لکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ ؟؟؟؟ جبکہ قرآن مجید جیسی کتاب نے سابقہ تاریخی ریکارڈ کو درست کرکے انسانیت تک پہنچایا۔
    اور اس بات سے آپ کیسے بے خبر ہوسکتے ہیں کہ حکومتیں جب کوئی ظلم کرتی ہیں تو اس سے پیشتر مظلوم کی پوزیشن عوام کی نظر میں مشکوک بنانے کے لیے بدترین پروپیگنڈے کا سہارا لیتی ہیں ۔ جیسے طالبان کی حکومت ختم کرنے کا معاملہ تھا۔اور امریکی پروپیگنڈے کے زیر اثر کسی ایک مسلم ملک نے بھی طالبان کی حکومت کے خاتمے کی مخالفت نہیں کی۔
    یذید کے زمانے میں تو خیر صحابہ اکرام ؓ اور ان کی اولادیں یقیناً موجود تھیں لیکن طاقتور پروپیگنڈے کے سامنے کس کی کب چلی ہے ۔ علاوہ ازیں صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور انکی اولادیں تو حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں بھی موجود تھیں لیکن پروپیگنڈے کی شدت کی وجہ سے اپنے محترم ترین خلیفہ کی حفاظت نہ کرسکیں۔
    اللہ ہمیں حق جاننے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین

    • قرآن اور باقی تاریخ کا حوالہ یا موازنہ ہی غلطی ہے ،،تاریخ کو سمد کی بنیاد پر تسلیم کی جاتا ہے جس پر راویان پر جرح ممکن ہے ،،قرآن جبریل و محمد علیہ اسلام کی سند کے ساتھ تواتر سے ملا اور اس پر اجماع ہے کوی جرح ممکن نہی نہ راوی پر نہ تواتر پر تو یہ تو معاملہ ہی الگ ہے ،،تاریخ کی بنیادی کتب کیا ہیں اس سلسے میں قیس بن سلیم کی کتاب یا ابن مخنف کی دیکھ لیں بلا سند اور اگر سند بھی تو مجھول و ضعیف و دیگر بے شمار سقم لیئے ہوے اخباری و افسانہ ترازی و مصنف کا زاتی بغض و عناد بھرا پڑا ہے ،،یہ محض واقعہ کربا سے متعلق گزارشات ہیں ،فی الحال اتنا ہی کافی ہے

  • مدینہ طیبہ میں دہشت گردی کا سانحہ کس قدر المناک ہے اور اس کی شدت کو کس طرح پوری دنیا کے مسلمانوں نے محسوس کیا ہے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔لیکن اس سے بھی بڑی افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسے اندوہناک حادثات کے باوجود بھی امت کی رہبری کے دعویدار اپنی روش بدلنے پر آمادہ ہیں اور نہ عام عوام اپنے گرد پھیلے مخصوص خول سے باہر نکلنے کو تیار نظر آتے ہیں۔صاحب تحریر نے بلا سوچے تاریخ کو اپنی خواہش کے مطابق پیش کرکے ایک لاحاصل اور نفرت انگیز بحث چھیڑ دی ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ اگر ساری تاریخی حقیقتیں بیان کرنے پر اصرار کیا جائے تو اسے یزید کی وکالت قرار دے دیناکیا انصاف ہے؟اورکیا کسی غلطی یا تعصب کی بنا پرتاریخی حقائق کو مسخ کرنے والوں کی طرف سے صرف واقعہ کربلا کو ہی تایخ اسلامی کااول وآخر ظالمانہ فعل قرار دیتے ہوئےپیش کی جانے والی تاریخی سچائی کو صحابہ کرام سے محبت کے دعویداروں کی طرف سے کس طرح رد کیا جاسکتاہے۔بلاشبہ تاریخ کے نام جمع کئے گئے تحریری ذخائر میں بہت کچھ دروغ پر مبنی ہے لیکن جن کا مطمع نظر ہی ذاتی تعصبات کو پیش کرنا ہو وہ کبھی پوری سچائی بیان کریں گے اور نہ ہی پوری سچائی کی کھوج لگانے کی سعی کریں گے۔
    #کیا فاضل مضمون نگار مدینہ طیبہ میں پیش آنےوالے پہلے سب سے بڑے دہشت گردی کے واقعہ اور اس کے مرکزی کردار پر کوئی تحریر پیش کرسکتے ہیں؟
    #کیاآج کی ہرحکومت کو ملک میں پیش آنے والے ہر چھوٹے بڑے جرم میں ذمہ دار گرداننے والے یزید کی واقعہ کربلا سے بریت کے حوالے سے اپنے موقف میں کوئی تبدیلی پیدا کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟