ہوم << قومی مذہبی رجحانات اور ترقی میں تعلق - ارمغان احمد

قومی مذہبی رجحانات اور ترقی میں تعلق - ارمغان احمد

گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں ایک خاص معزز گروہ کی طرف سے بار بار یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کے مسائل کی وجوہات مذہبی ہیں- - زیادہ مخصوص ہو کر بات کی جائے توان کے انتہائی لمبے مکالمے اور کہانی کا نچوڑ ان باتوں کو الزام دینے پر ختم ہوتا ہے-
1- قادیانوں کو غیر مسلم قرار دینے والی آئینی ترمیم
2 - قرارداد مقاصد
3 - اسلامی جمہوریہ پاکستان کا "اسلامی"
4 - اسلامی نظریاتی کونسل
ان محترم دوستوں کے قیمتی خیال میں اگر پاکستان میں "سیکولرازم" نافذ ہو جائے تو پاکستان کے زیادہ تر مسائل حل ہو جائیں گے، اور ان کے خیال میں پاکستان کے جو مسائل ہیں وہ پہلے ہی اوپر بتائے جا چکے- راقم کو رائے سازی کے سلسلے میں تجربات کا کافی شوق ہے- ایک بار ہمیں ایک بہت ہی پرجوش سیکولر سے گفتگو کا اعزاز حاصل ہوا- ان کی خدمت میں کچھ مثالیں پیش کیں، جو یوں ہیں-
1 - مغرب کے کچھ ممالک (جو سیکولر ہیں) میں چرچ دن میں چوبیس بار گھنٹے بجا سکتے ہیں مگر اتنی ہی آواز سے مسلمان دن میں پانچ باراذان نہیں دے سکتے
2 - مغرب کے کچھ سیکولر ممالک میں چرچ اپنی خاص طرز تعمیر کے تحت تعمیر ہو سکتے ہیں مگر مساجد کے میناروں کی اجازت نہیں
3 - اسی مغرب کے کچھ سیکولر ممالک میں آپ کتنا لباس اتارنا چاہتے ہیں یہ تو آپ کی ذاتی آزادی ہے مگر کتنا پہننا چاہتے ہیں، اس میں ریاست دخل اندازی کا حق رکھتی ہے- مثلا نقاب کو تو چھوڑیں سکارف تک لینے پر پابندی اور جرمانہ عائد کیا جاتا ہے
4 - اسی مغرب کے کچھ سیکولر ممالک جو آزادی اظہار رائے کے سب سے بڑے چیمپئن بھی واقع ہوئے ہیں، وہاں آئینی طور پر "ہولو کاسٹ" پر شک کا اظہار کرنا، اس کا انکار کرنا، اس پر تحقیق کرنا اس نیت کے ساتھ کہ اصل قتل ہونے والی تعداد معلوم کی جائے، ایک ایسے جرم کی حیثیت رکھتا ہے، جس پر آپ کو جیل تک ہو سکتی ہے
5 - چلیں اب مغرب کو چھوڑ دیں، اپنے ہمسائے میں چلیں- بھارت آئینی طور پر ایک سیکولر ملک ہے اور وہاں مذہبی وجوہات کی بنا پر بہت سی ریاستوں میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی ہے
یہ تمام مثالیں ان کی خدمت میں پیش کر کے عرض کیا کہ چلیں ہم بھی مکالمے کی غرض سے فرض کر لیتے ہیں جیسے اوپر بیان کیے گئے "سیکولر" ممالک میں ان کے خصوصی زمینی حقائق کے تحت آئین کی کچھ شقیں ایسی ہیں جو "غیر سیکولر" ہیں، بالکل اسی طرح پاکستان بھی "سیکولر" ہو گیا مگر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی شق ایسے ہی رہے گی- تو کیا آپ مطمئن ہو جائیں گے؟ اس پر میرے محترم دوست کچھ یوں تڑپے جیسے ان کو آگ میں دھکیل دیا گیا ہو، فورا بولے: "یہ کیسا سیکولرازم ہوا جی؟ یہ تو کوئی سیکولر ازم" نا ہوا- مزید مزے کی بات یہ کہ پھر میں نے ان کی خدمت میں اگلی صورتحال پیش کی- "فرض کر لیجیے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی شق ختم ہو جاتی ہے مگر باقی سب کچھ ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے"- اس پر ان کے الفاظ جیسے تھے ویسے ہی نقل کر رہا ہوں: "ہاں اس پر سوچا جا سکتا ہے- دیکھیں اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار محض ایڈوائزری ہے، اسی طرح قرارداد مقصد محض آئین کا دیباچہ ہے اور خیر ہے پاکستان کے نام میں اسلامی بھی ٹھیک ہی ہے"- اب اس مکالمے کا منطقی نتیجہ کیا نکلتا ہے، وہ فیصلہ اپنے قارئین پر چھوڑ دیا-
اس کے بعد ہماری گفتگو کا رخ سیکولرازم کے نتائج و عواقب اور فوائد کی طرف پھر گیا- انتہائی پرجوش انداز میں وہ گویا ہوئے کہ جن ممالک میں بھی مذہب کو اہمیت دی جاتی ہے، وہ پسماندہ رہ گئے جبکہ جن ممالک میں بھی مذہب کو پس پشت ڈال دیا گیا وہ ترقی کر گئے- اس سلسلے میں انہوں نے ایک ڈیٹا پیش فرمایا- اس ڈیٹا کی تصویر نیچے دی جا رہی ہے- اس ڈیٹا کو پیش کر کے انھوں نے فرمایا کہ اس سے ان کا دعوی درست ثابت ہوتا ہے-
chartoftheday_4189_which_nationalities_consider_religion_most_important_n
خیر فدوی نے اس ڈیٹا پر غور کرنے کی جسارت کی تو مندرجہ ذیل حقائق سامنے آئے۔
1 - مسلمان ممالک جیسے کہ انڈونیشیا اور ملائشیا مذھب کو کافی اہم سمجھتے ہیں مگرپھر بھی ان کی ترقی کی رفتار تسلی بخش ہے
2 - ترکی جو ایک مسلمان ملک ہے اور امریکا جو ایک غیر مسلم ملک ہے دونوں میں نصف سے زیادہ آبادی مذہب کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے اور ترکی اسلامی ممالک میں شاید ترقی یافتہ ترین اور امریکا تو خیر پوری دنیا کی سپر پاور ہے
3 - بھارت، پاکستان اور چین ایشیا میں ہی واقع ہیں مگر ان ممالک میں مذہب کو اہم ترین معاملہ سمجھنے والوں کے سلسلے میں متضاد قسم کے رجحانات ہیں- مثلا بھارت میں 80 فیصد لوگ مذہب کو زندگی کا اہم ترین معاملہ سمجھتے ہیں، پاکستان میں 92 فیصد جب کہ چین میں محض 3 فیصد- چین ترقی یافتہ ترین ہے، بھارت بھی ایک بہت اہم علاقائی طاقت ہے اور پاکستان کے حالت نسبتا برے ہیں مگر اتنے بھی نہیں جتنے وینزویلا کے تیل کے بےتحاشا ذخائر اور مذہب میں محض 42 فیصد دلچسپی رکھنے والی آبادی کے باوجود ہیں
4 - ویتنام کا مذہبی رجحان ترکی، انڈونیشیا، ملائشیا اور پاکستان چاروں سے کم ہے مگر اس کے حالات بھی کوئی اتنے قابل رشک نہیں ہیں
شماریات کے تمام اصولوں کے مطابق اس ڈیٹا سے ہرگز ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جتنی کوئی قوم غیرمذہبی ہو گی، اتنی ہی وہ ترقی یافتہ ہوگی- خیر تھوڑی مزید ریسرچ کی تو معلوم ہوا کہ وہ تمام ممالک جو ترقی یافتہ ہیں یا ترقی کر رہے ہیں ان میں مشترکہ خصوصیت مذہب بیزاری نہیں بلکہ کچھ اور ہے- اب وہ مشترکہ خصوصیت کیا ہے؟ وہ ہے جناب: "غیر سیاسی پولیس، طاقتور بلدیاتی نظام، تعلیم، صحت اور بہترین نظام عدل"
یہ تمام معلومات جان کر مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک قول بری طرح یاد آیا:
"کفر کی بنیاد پر کوئی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم کی بنیاد پر نہیں"
اس تمام مضمون کا حاصل کلام یہ ہے کہ پاکستان کا مسئلہ اس وقت یہ نہیں ہے کہ اس کو مزید اسلامی کیا جائے یا سیکولر کیا جائے بلکہ یہ ہے کہ یہاں ایماندار غیر سیاسی پولیس ہو، یہاں بہترین نظام عدل ہو، یہاں طاقتور بلدیاتی نظام ہو، یہاں تعلیم اور صحت کی سہولیات ہوں- جب عوام کے پیٹ میں روٹی اور ذہن میں شعور جائے گا تو باقی کے فیصلے وہ خود کر لیں گے کہ ان کو کون سا نظام چاہیے- اس سے پہلے یہ مذہبی اور سیکولر مباحث قوم کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹا دیتے ہیں- بے وقت کی راگنی ہیں اور یہ ایسے ایشوز ہیں جن پر نہ تو مذہبی رجحانات رکھنے والے دوستوں کو کوئی اختلاف ہے نا سیکولر رجحان رکھنے والوں کو- تو ہم اختلافات میں جانے کے بجائے اور قوم کو غیر مثبت، غیر تعمیری ذہنی لڑائی میں الجھانے کے بجائے ان بنیادی معاملات پر یکسو کیوں نہیں ہوتے؟ ان معاملات میں متحد کیوں نہیں ہوتے؟ ہم ڈیولز ایڈووکیٹ کا کردار ادا کرنے پر مصر کیوں رہتے ہیں؟ ان سوالوں کا جواب بھی ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں-

Comments

Click here to post a comment

  • آپ نے درست کہا مگر ہمیں مذہب کو اپنے ذاتی زندگی میں پوری آزادی کی ساتھ پریکٹس کرنے کی اجازت دینی چاہیے ، ریاست کو مذہب کااستعمال یا تو لوگوں کی بہتری کے لیے کرنا چاہیے جیسا کے مدینہ کی ریاست کرتی تھی ورنہ بلکل نہ کرے ...یہ آدھا تیتر آدھا بٹیر نظام غیر مسلموں کو متاثر کرتا ہے ..