ہوم << پاکستان کی عزت کا ٹھیکہ دوست ملک کے سپرد-محمد بلال غوری

پاکستان کی عزت کا ٹھیکہ دوست ملک کے سپرد-محمد بلال غوری

m-bathak.com-1421246902muhammad-bilal-ghouri
فرض کریں آپ کا شمار گائوں کے انتہائی غریب افراد میں ہوتا ہے۔آپ کے کچے گھر کے پیچھے ایک بہت بڑا بنگلہ ہے ۔اس بنگلے میں مقیم آپ کے ہمسائے کی دِقت یہ ہے کہ اسے منڈی تک پہنچنے کے لئے راستہ میسر نہیں۔وہ کہتا ہے کہ اپنے گھر سے ایک راستہ بنانے دو تاکہ اسے باہر تک رسائی ممکن ہو سکے۔یہ پیشکش بھی کی جاتی ہے کہ نہ صرف یہاں سے آمد و رفت کے عوض معقول رقم دی جائے گی بلکہ راستہ بنانے کے لئے تمہارے گھر کے جو افراد مزدوری کر یں گے انہیں معاوضہ بھی دیا جائے گا۔
دوطرفہ مفادات کا تقاضا یہی ہے کہ اس پیشکش کو قبول کر لیا جائے لیکن اگر آپ اس پیشکش کو فیاضی جان کر اپنے متمول ہمسائے کے احسان تلے اس قدر دب جائیں کہ اپنے گھر کا انتظام و انصرام ہی اس کے حوالے کر دیں تو آپ کی سوچ کو اکیس توپوں کی سلامی دینا پڑے گی۔ اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے حکومت پاکستان کی پالیسی بھی کم و بیش ایسی ہی ہے۔بار بار جتلایا اور بتلایا جا رہا ہے کہ ہمارے دوست ہمسایہ ملک نے اس اکنامک کاریڈور کی صورت میں پاکستان پر جو احسان عظیم کیا ہے اس کا بدلہ ہماری آنے والی نسلیں بھی نہیں چکا سکیں گی۔چند روز قبل وزیراعظم نے ایک تقریب میں انکشاف کیاکہ یہ دوست ہمسایہ ملک پاکستان کی عزت کا محافظ ہے۔اور یہ بات محض بیانات تک محدود نہیں بلکہ عملی اقدامات سے بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس ہمسایہ ملک سے دوستی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ہمارے حکمرانوں نے طویل عرصہ تک ارض وطن امریکہ کو پٹے پر دی ہوئی تھی،پھر معلوم ہوا کہ ملک کے بیشتر حقوق بعض عرب دوستوں کے ہاں رہن رکھے ہوئے ہیں اور اب یہ راز کھل رہا ہے کہ محض گوادر ہی نہیں بلکہ پاکستان کا بیشتر حصہ ایک دوست ہمسایہ ملک کے ہاں گروی رکھا ہوا ہے۔ہمارے غیرملکی دوست پاکستان کو کس طرح اپنی چراگاہ سمجھتے ہیں ،اس کی ایک ادنیٰ مثال گزشتہ ماہ ملتان میں پیش آنے والے واقعات ہیں۔
ملتان تا سکھر موٹروے منصوبہ جوسی پیک کا حصہ ہے،اس کے کام کی نگرانی کے لئے 30غیر ملکی باشندے ملتان میں مقیم ہیں۔انتظامیہ نے اپنے معزز مہمانوں کو ملتان کینٹ کے علاقے میں چند کوٹھیاں عارضی قیام گاہ کے طور پر لیکر دیں۔مستقل قیام کے لئے تحصیل جلال پور کے موضع چدھڑ میں 11.5ایکڑ پر مشتمل بیس کیمپ بنایا گیا ہے۔محکمہ داخلہ کے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر کا تقاضا تھا کہ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی جس میں تمام خفیہ اداروں کی نمائندگی ہوتی ہے ،حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیکر رپورٹ دے اور اس کی روشنی میں سی پی او NOCجاری کرے جس کے بعد یہ غیر ملکی حکام اپنے بیس کیمپ منتقل ہو سکیں۔اگست کے پہلے ہفتے میں ان حکام نے اس بیس کیمپ میں منتقل ہونا تھا مگر حفاظتی انتظامات مکمل نہ ہونے کے باعث تاخیر ہوگئی۔11اگست کو معمول کے مطابق شام کوان غیرملکی حکام نے واپس ملتان آنے سے انکار کر دیا اور بیس کیمپ میں رہنے پر اصرار کیا۔انہیں بتایا گیا کہ جب تک این او سی جاری نہ ہو آپ یہاں نہیں رہ سکتے اور یہ سب آپ کے تحفظ کے لئے کیا جا رہا ہے۔بحث و تکرار کے بعد یہ غیرملکی باشندے واپس آنے پر رضامند ہو گئے۔
15اگست کو ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے بیس کیمپ کا معائنہ کیا تو 75فیصد انتظامات ادھورے تھے۔SOPکے مطابق ہر 200میٹر کے فاصلے پر واچ ٹاور نہیں بنائے گئے تھے،سی سی ٹی وی کیمرے نصب نہیں ہوئے تھے۔غیرملکی حکام نے کہا کہ ایک ہفتے میں یہ انتظامات مکمل کر لئے جائیں گے لیکن 22اگست کو جب دوبارہ بیس کیمپ پر حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیا گیا تو 40فیصد کام مکمل نہیں ہواتھا۔چنانچہ کمیٹی نے این او سی دینے سے انکار کر دیا۔23اگست کو جب 20غیرملکی باشندے معمول کے مطابق صبح یہاں پہنچے تو انہوں نے شام کو ایک مرتبہ پھر واپس جانے سے انکار کر دیا۔انہیں بتایا گیا کہ بیس کیمپ کے چاروں طرف کھیت ہیں،ویران علاقہ ہے،حفاظتی انتظامات کے بغیر ان کا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں لہٰذا واپس جانا ہوگا ۔
ان غیر ملکی باشندوں کے اپنے SOP کے مطابق ہر بیس کیمپ میں ایک ریٹائرڈ میجر کا بطور سیکورٹی انچارج موجود ہونا ضروری ہے جبکہ اس مقصد کے لئے جس شخص کی خدمات حاصل کی گئی تھیں ،وہ استعفیٰ دیکر گھر جا چکا تھا۔پولیس حکام نے اسلام آباد میں متعلقہ سفارتخانے کے اس افسر سے رابطہ کیا جو اپنے شہریوں کی سیکورٹی کا ذمہ دار ہے،اس نے یقین دہانی کرائی کہ یہ غیرملکی باشندے واپس ملتان چلے جائیں گے۔گفت و شنید کے بعد 20میں سے 14غیرملکی شہری واپس جانے پر آمادہ ہو گئے مگر 6غیرملکی باشندے جن کا تعلق فوج سے تھا ،انہوں نے سیکورٹی پر تعینات ایس ایچ اوتھانہ راجہ رام (ظریف شہید)محمد اشرف پر حملہ کر کے اسے شدیدزخمی کر دیا۔چند دیگر اہلکار بھی زخمی ہوئے۔بعد میں جب پولیس والوں اور ان غیرملکی باشندوں کا طبی معائنہ ہوا تو رپورٹ کے مطابق غیرملکی حکام کو کوئی چوٹ نہیں آئی تھی جبکہ ایس ایچ او کو لگنے والی ضربیں قابل دست اندازی پولیس تھیں۔
اس واقعہ کی انکوائری ہوئی تو غیرملکی باشندے قصوروار ٹھہرے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان غیرملکی شہریوں کے خلاف مقدمہ درج کرکے گرفتار کیا جاتا تاکہ آئندہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے اور باوردی اہلکاروں پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہوتی لیکن خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اپنے دوست ملک کے حکام کو خوش کرنے کے لئے تین ایس ایچ اوز اور 6اہلکاروں کو معطل کر دیا جبکہ سی پی او ملتان اظہر اکرم کو عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا۔
عالمی تعلقات کا پہلا اور بنیادی سبق ہی یہی ہے کہ کوئی مستقل دوست ہوتا ہے نا حتمی دشمن ۔یہاں دوستیاں یا دشمنیاں نہیں نباہی جاتیں بلکہ دوطرفہ مفادات کی بنیاد پر تعلقات استوار کئے جاتے ہیں۔مگر ہم ہر بار ان عالمی تعلقات کو دوستی کے اٹوٹ رشتے سمجھ کر حد سے گزر جاتے ہیں۔
جس دوست ملک کے شہریوں نے ملتان میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملہ کیااگر دوستی کے ناتے ایسا کرنا جائز ہے تو کسی دن پاکستانی باشندے بھی ان کے ملک میں باوردی اہلکاروں کی پھینٹی لگا کر دیکھیں تاکہ آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے۔ ہمارے اس دوست ملک کی کمپنیاں توانائی کے بیشمار منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ اقتصادی راہداری سے اس خطے کی تقدیر سنور جائے گی اور چارسو دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ہم نے وارفتگی کے عالم میں گوادر پورٹ کا منصوبہ بھی اس دوست ملک کے حوالے کر رکھا ہے۔
دوستی اور تعلقات اپنی جگہ مگر کوئی بھی ریاست غیر ملکی باشندوں کو قوانین سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دیتی۔مگر ہم نے تو چونکہ دیگر بیسیوں منصوبوں کے ساتھ ساتھ اپنی عزت کی حفاظت کا ٹھیکہ بھی اس دوست ملک کو دیدیا ہے اس لئے کیسی شکایت اور کیساگلہ شکوہ۔وزیر اعظم میاں نوازشریف نے جو فرمایا وہ سب قوم کا سرمایہ مگر کیا ہی اچھا ہواگر لگے ہاتھوں وہ یہ بھی بتا دیں کہ پاکستان کی عزت کی حفاظت کا یہ ٹھیکہ کب اور کیسے اس دوست ملک کو دیا گیا اور اس کی مدت کیا ہے؟کیا اس معاہدے کی رو سے پاکستانی پولیس اہلکاروں کی ’’عزت افزائی‘‘ بھی غیر ملکی باشندوں کا استحقاق ہے؟معزز غیر ملکی مہمانوں کو اس کے علاوہ بھی کسی قسم کے حقوق ودیعت کئے گئے ہیں تو قوم کو آگاہ کیا جائے تاکہ لوگ’’عزت افزائی‘‘ کے لئے تیار رہیں اور غفلت میں نہ مارے جائیں۔

Comments

Click here to post a comment