ہوم << بی بی آپ کا لائسنس کہاں ہے؟ مجیب الحق حقی

بی بی آپ کا لائسنس کہاں ہے؟ مجیب الحق حقی

مجیب الحق حقی میری چھوٹی چچا زاد بہن ایک زمانے میں بہت وظائف پڑھتی تھیں، جہاں کہیں کچھ لکھا دیکھا تو پڑھنا شروع کردیا۔ ایک دن انہوں نے خواب دیکھا کہ ایک بڑی شاہراہ پر بہت تیز گاڑی چلا رہی ہیں تو ایک سفید یونیفارم میں ملبوس شخص نے اشارے سے روکا اور ان کے قریب آکر پوچھا:
بی بی آپ کا لائسنس کہاں ہے؟
انہوں نے دیکھا تو وہ شخص مرحوم جنرل ضیاء الحق صاحب تھے، اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ،
بہن نے بتایا کہ ان کے پاس لائسنس نہیں ہے،
تو جنرل صاحب نے کہا کہ بی بی آگے بہت سختی ہے۔ اس پر میری بہن کی آنکھ کھل گئی۔
کسی کو خواب بتایا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ کچھ پڑھ رہی ہیں تو انہوں بتایا کہ یہ پڑھ رہی ہوں تو بزرگ نے کہا کہ اس کے لیے اجازت ضروری ہے، اسے نہ پڑھیں!
مقصد اس تذکرے کا صرف یہ ہے کہ مرنے کے بعد کس کے کیا معاملات ہیں، اس کا کسی کو علم نہیں ہوتا۔
(جو اصحاب خوابوں اور روحانیت پر یقین نہیں رکھتے، وہ اسے نظرانداز کردیں)
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے دینی اور روحانی حلقوں میں ضیاء الحق ہمیشہ ہی محبوب رہے ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے خلیفہ ڈاکٹر عبد الحئی ؒ صاحب نے مرحوم کی بیٹی کا نکاح پڑھایا اور ان کے لیے ہمیشہ دعا گو رہے۔ جنرل ضیاءالحق ڈاکٹرصاحب ؒ کے جنازے میں خاص طور پر تشریف لائے۔ ضیاء صاحب کو کسی بھی جواز پر مطعون کرنا اس لیے آسان ہے کہ ان کی کوئی سیاسی پارٹی نہیں تھی لیکن کیا ایسا کرنے سے ان کی کسی حیثیت پر فرق پڑے گا جو اللہ کے یہاں متعیّن ہوچکی ہوگی۔ جو لوگ ان سے ناراض ہیں، وہ ہمیشہ ہی رہیں گے اور جو بھٹو صاحب سے نالاں ہیں وہ بھی بدلنے والے نہیں۔ پاکستان کے تناظر میں جو بات اہم ہے، وہ یہ کہ ضیاءالحق ایماندار اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے، ان پر کرپشن کا الزام تو بے نظیر بھٹو بھی ثابت نہ کرپائیں۔ افغان جنگ، اس کی وجوہات اور اس کے اثرات کو الگ رکھتے ہوئے ان کے ایک اہم فیصلے کا تذکرہ ضروری ہے۔
ضیاء الحق کا عظیم کام؛
جنرل صاحب کا صرف ایک فیصلہ جو انہوں نے دفاتر اور کام کرنے کی تمام جگہوں پر نماز کی جگہ لازماً مقرّر کرنے کا جاری کیا، ان کو پاکستان کی تاریخ میں منفرد مقام دیتا ہے۔ اس اعلان سے پہلے ڈیوٹی پر نماز کے لیے کوئی وقفہ یا چھٹی نہیں ہوتی تھی۔ عام طور پر آفس اور کارخانوں میں نماز کا نہ کلچر تھا اور نہ چرچا۔ مرد آہن کے فیصلے پر ہر آفس میں آناً فاناً عملدرآمد ہوا، راتوں رات کمرے مختص کیے گئے کہ کہیں کوتاہی کی اطلاع اوپر نہ پہنچ جائے۔ آفس میں ہی نماز کی جگہ سے لوگوں کو آسانی ہوئی کیونکہ مساجد کا قریب ہونا ضروری نہیں تھا۔ اس فیصلے کے دوررس اثرات کا احاطہ ہی مشکل ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے لوگوں کو نمازی بنتے دیکھا جو نماز کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے۔ کیونکہ سرکار کا حکم تھا کہ نماز کا وقفہ لازمی ہے تو ہمارے بہت سے ساتھی پبلک ڈیلنگ میں رش کے وقت وقفے وقفے سے کام چھوڑ کر مسجد میں جاکر بیٹھ جاتے تاکہ کام سے بچا جائے اور افسر کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن پھر ان کو غیرت آئی کہ جماعت ہو رہی ہے اور وہ بیٹھے ہیں تو شرما حضوری جماعت میں کھڑے ہونے لگے، مگر پھر رفتہ رفتہ نماز نے انہیں جذب کرلیا اور وہی پانچ وقت کے نمازی بنے۔ اس میں مبالغہ نہیں ہے۔ اب اگر ان کی اولادیں بھی ان کو دیکھ کر نمازی بنتی ہیں تو ذرا اس ثواب جاریہ کا تخمینہ لگانے کی کوشش کریں جو جنرل صاحب کما رہے ہیں. پھر تاریخ کے فیصلے سے اس کا موازنہ کرلیں۔ تاریخ تو ایک واہمہ ہے جس کا ذکر کرکے ہم اپنے آپ کو تسلّی دیتے ہیں کہ تاریخ کا فیصلہ یہ ہے۔ اصل فیصلہ تو وہ ہے اور ہوگا جو آخرت کے حوالے سے ہوتا ہے۔ زندگی اور اس کے کارناموں سے افضل وہ زندگی ہے جس کاہمیں شعور نہیں۔
اللہ تعالیٰ بھٹو اور ضیاء الحق دونوں مرحومین کی مغفرت کریں، دونوں نے اپنی اپنی دانست میں اس قوم کی خدمت ہی کی ہے۔

Comments

Click here to post a comment