ہوم << جیےمتحدہ، جیےبھٹو، جیےعمران - شاہد یوسف

جیےمتحدہ، جیےبھٹو، جیےعمران - شاہد یوسف

شاہد یوسف حالات نے ایسی پلٹی کھائی ہے کہ لوگ خود کو بدل بھی لیں تو وہ اعتماد نہیں پاسکتے جو گرایا ہوا ہے۔ یہ نعرے جیے الطاف لگانے والوں نے لگائے ہیں اور الطاف کی جگہ ریپلیسمنٹ بھٹو اور عمران سے کرلی ہے لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ وقتی ہے یا پھر مستقل اس راہ پر گامزن ہونے کے ارادے ہیں۔ کراچی کی چابی اب بھی متحدہ کے ہاتھ میں رہی ہے، اسٹیبلشمنٹ نے اسے چھیڑا نہیں ہے، ضمنی انتخابات سے بلدیاتی انتخابات تک، نئے میئر کے انتخاب میں بھی رخنہ نہیں ڈالا گیا اور جیل سے وہ منتخب ہوا ہے۔ نئے مئیر کراچی وسیم اختر کو مبارک ہو کہ ان کو شہر قائد کی کنجیاں مل گئی ہیں بلکہ ایک آدھی کُنجی تو عمران خان کی جماعت نے بھی عطا کی ہے جو واقعتاً تبدیلی کی علامت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ کنجیاں کہاں، کب اور کیسے استعمال ہوتی ہیں؟ ویسے پہلے بھی انہی کے پاس ہوتی تھیں لیکن اب ایک ڈنڈے کا خوف ختم ہوگیا ہے جو چھت سے آکر لگتا تھا، لیکن اب گھر کے اندر کا ڈنڈا موجود ہے جو چھ گھنٹے میں بھی حالات و بیانات تبدیل کرسکتا ہے۔
ایک وقت تھا جب متحدہ قائد کے حکم پر شہر قائد کو آگ اور دھوئیں کی نذر کردیا جاتا تھا۔ مشرف نے جتنی کھلی چھٹی متحدہ کو دی تھی، اتنی میڈیا کو نہ دی بلکہ میڈیا کو بھی ان کے ہاتھوں یرغمال ہونا پڑا۔ بےچارے جان کر بھی کچھ حقائق نہیں بتاسکتے تھے، دودو گھنٹوں کی پریس کانفرنسیں بھی چلانی پڑیں، بھلا ہو عدالت کا جس نے میڈیا اور قوم کو اس آواز و تصویر سے جان چھڑوادی اور اب بھلا ہو الطاف حسین کا جس نے نفرت پھیلانے کی وجہ سے اپنی پارٹی والوں کی خود سے جان چھڑوادی ہے۔
حقیقت کیا ہے ابھی سب کچھ راز میں ہے۔ اب بیانات چاہے قرآن کو اٹھا کردیے جائیں یقین نہیں آتا کیونکہ قرآن پاک کو ذوالفقار مرزا نے بھی اٹھا کے میڈیا و قوم کو باخبر کیا تھا کہ الطاف حسین را کا ایجنٹ ہے لیکن اس کے باوجود اسے حکومت میں حصہ دیا جاتا رہا اور ذوالفقار مرزا کے بیانات کو ”دیوانے کی بڑ“ ہی سمجھا جاتا رہا۔ پاک سرزمین پارٹی بھی کراچی میں اچانک نمودار ہوئی ہے لیکن فی الحال اپنے پنجے گاڑنے میں ناکام رہی ہے، اس کا منشور بھی کاغذوں میں تو آچکا ہے لیکن یقین ایسا اٹھ گیا ہے کہ ہوتا ہی نہیں کمبخت۔ مصطفیٰ کمال صاحب کے وعدے دعوے ابھی تک تو سچ ثابت ہو رہے ہیں لیکن یہ سارے دوسروں کے بارے میں ہیں اور ان کے نائب قائمخانی صاحب ابھی حوالات کی ہوا کھا رہے ہیں۔ کچھ تو راز ہیں جو اگلے نہیں جا رہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے کے مطابق پاک سرزمین کو بھی کہیں سے تھپکی ملی ہوئی ہے۔ ان کا نشان پاکستانی پرچم جیسا اور ابھی تک ان کے جلسے بھی پاکستانی پرچموں سے سجے ہوئے ہوتے ہیں، یہ بھی خوش آئند ہے۔ اسی کے متعلق ایک اور بات عرض کرتا چلوں کہ چند روز پہلے یہاں لاہور میں صحافیوں کی ایک تنظیم کی تقریب ہوئی تو ایک صاحب کراچی سے تشریف فرما ہوئے، تنظیم کے تمام اراکین کے لیے پاکستانی پرچموں کے ’بیجز‘ لائے تھے جو سب کے سینوں پر سجائے، بعد میں پتہ چلا کہ موصوف پاک سرزمین کے رکن تھے۔
حالات کی ان ساری تبدیلیوں سے فقط نعروں میں تبدیلیاں لانا اب بہت دور کا بےسُرا راگ بن چکا ہے، اب واقعتاً تبدیلی لانی ہوں گی، حکمت عملی کے ذریعے آگے بڑھنا ہوگا۔ اب پاکستان یا کراچی کسی لسانی جھگڑے کا متحمل نہیں ہوسکتا، بےخوف رہیں صولت مرزا پھانسی چڑھ چکا ہے، عزیر بلوچ اور ڈاکٹر عاصم صاحب گرفتار ہیں، الطاف حسین پر پابندیاں لگ چکی ہیں، یہ پابندیاں انہی تک رہنے دیں اور اپنے گریبانوں کو دوسرے کے ہاتھوں سے بچانے میں عافیت سمجھیں. اب آپ جتنے جھوٹ بولیں، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائیں، قوم کو جلدی مطمئن نہیں کرسکتے۔ اب کوئی ڈرامہ نہیں چلے گا، آپ ٹی وی پر وعظ تو کرسکتے ہیں لیکن عزت بحال کروانے کے لیے ظاہر و باطن ایک کرنا ہوگا. کراچی محفوظ کریں گے تو آپ لوگوں کے گریبان محفوظ ہوجائیں گے۔ آپ مہاجر نہیں رہے، آپ لوگ اسی وطن کا حصہ ہیں، اگر آباء و اجداد کے حساب سے مہاجر کہلانا چاہیں تو پاکستان میں رہنے والی بیشتر آبادی مہاجر ہے۔ اب لسانی طور پر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ لسانیت کی آگ نے پہلے بھی ملک کو دولخت کردیا ہے. ہر بار کی طرح کراچی کے لوگوں نے آپ کو منتخب کیا ہے تو اب ان کی زندگیوں کی حفاظت آپ کے ذمہ ہے۔ اپنا خوف ختم کریں، انہیں آزادی دیں اور ان کی خدمت کریں. کراچی کی کُنجی تھام لی ہے، اب بہتر تبدیلی لانے کی کوشش کرو تاکہ کراچی امن کا گہوارہ بن سکے کیونکہ پورے ملک کا امن کراچی سے وابستہ ہے۔