ہوم << جنرل ضیاء کے متوالوں کے نام - سیّد سلیم رضوی

جنرل ضیاء کے متوالوں کے نام - سیّد سلیم رضوی

سلیم رضوی آج ایک درد بھری کہانی پیشِ خدمت ہے۔ میری یہ کہانی عام کہانیوں سے ہٹ کر ہے اور اِس میں میرے کچھ گہرے احساسات شامل ہیں جنھیں ’’دلیل‘‘ کے توسّط سے آپ کے رُوبرو پیش کر رہا ہوں۔
بچپن اور لڑکپن کے دِن ہرچند کہ تلخیوں بھرے ہوں، جب اِنسان انھیں بہت پیچھے چھوڑ آتا ہے اور نوجوانی کی دہلیز عبور کر کے عملی زندگی میں قدم رکھ دیتا ہے تو اُن بِیتے ایام کی یادیں بہت سُہانی لگتی ہیں اور وہ بڑے حسرت بھرے انداز میں سوچتا ہے کہ اس کا بچپن واقعی زندگی کا سنہری ترین دَور تھا۔ میرا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ بارہ تیرہ سال کی عمر میں مجھے بچوں کے رسالے: ہمدرد نونہال، جگنو، تعلیم وتربیت، بچوں کی دُنیا وغیرہ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ یہ 1977،78ء کی بات ہے۔ گجرات کے جس محلے میں ہم رہا کرتے تھے، وہاں ہمارا چند ہم عمر دوستوں کا ایک حلقہ بن گیا تھا۔ ہم اپنی پاکٹ منی سے یہ رسالے خریدتے اور پھر ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کر کے بڑی رغبت سے پڑھا کرتے تھے۔ ہم دوستوں میں ایک دُبلا پتلا، بہت ہی شریف النفس، حلیم الطبع اور مِلن سار جعفر بھی تھا۔ کچھ عرصہ ہم نے بڑی محبت سے ایک ساتھ گزارا۔ پھر یوں ہُوا کہ ہم نے اپنا مکان بدل لیا اور جعفر بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ کرائے کا مکان چھوڑ کر شہر کے کسی دوسرے علاقے میں جا بسا۔ پھر یہ پیاربھرا رابطہ یکسر منقطع ہو گیا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد ہم منڈی بہاؤالدین شِفٹ ہو گئے، لیکن مَیں تب بھی جعفر کو بھول نہیں پایا۔ چند سال ہم نے یہاں بسر کیے، پھر حالات ہمیں دوبارہ گجرات واپس لے گئے۔فن مصوری اور خطاطی سے مجھے خاص رغبت تھی۔ 1989ء کے آغاز میں مَیں نے خطاطی کا ایک مرکز کھولا کہ یہ میرے شوق اور مزاج کا تقاضا بھی تھا۔ اِتفاق دیکھئے کہ اِس سے کم وبیش بارہ سال پیشتر جبکہ ہم ایک ہی محلے میں رہائش پذیر تھے اور جعفر جن لوگوں کے مکان میں اپنے گھروالوں کے ساتھ مقیم تھا، اُنہی کا ایک نوجوان لڑکا خطاطی سیکھنے ہمارے پاس آیا تو مَیں نے ایک موہوم سی اُمید پر اُس سے جعفر کا اتہ پتہ دریافت کِیا۔ اُس نے بتایا کہ وہ لوگ کچھ عرصہ گجرات میں رہنے کے بعد لاہور چلے گئے تھے، میرے گھروالوں کا اَب بھی اُن کے ساتھ کبھی کبھار رابطہ رہتا ہے، مَیں گھر سے پوچھ کر آپ کو بتاؤں گا۔
اب مَیں اپنی اِس کہانی کے اصل موڑ کی طرف آتا ہُوں۔
افغانستان میں سوویٹ افواج کا دَر آنا دراصل دُنیا کے حالات تبدیل ہونے کا نقطہ آغاز ثابت ہُوا۔ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی مارشل لائی حکومت قائم تھی۔ امریکہ کے لیے بھی اپنی ٹکّر کے ’’ازلی‘‘ حریف کو شکست فاش سے ہم کنار کرنے کا یہ سنہری موقع تھا۔ ہمارے حکمران نے اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق ایجنڈا تشکیل دِیا، چنانچہ پاکستان نے امریکہ کے کولیشن پارٹنر کے طور پر رُوس کے ساتھ برسرِپیکار افغان مجاہدین کی پشت پناہی کرتے ہُوئے یہ جنگ براہِ راست لڑی۔ مُلک کے اندر مذہبی جماعتوں نے کچھ ایسا ولولہ انگیز ماحول گرمایا جس نے بہت سے پڑھے لکھے باشعور نوجوانوں کے رُومانس کو مہمیز دی اور وہ ’’اِسلام اور کُفر‘‘ کے مابین اِس جنگ میں جہادی جذبوں سے سرشار ہو کر جوق درجوق افغانستان جانے لگے۔ سوویٹ یونین کی عسکری و معاشی قوت کو کمزور کر کے بطور سُپرپاور اُس کا خاتمہ کرنا امریکہ کی سرکردگی میں دراصل بین الاقوامی وارگیم کا ایک حصہ تھا جس میں بہرحال بالآخر کامیابی حاصل کر لی گئی۔ سوویٹ یونین تو 1995ء میں ٹوٹ کر بکھر گیا اور اس میں سے 6 مسلمان ریاستیں بھی نکل آئیںلیکن افغانستان میں جنگ کی آگ ایک اور انداز میں بھڑک چکی تھی۔ اپنے اپنے مفاد کے اسیر افغان جنگ باز، جو رُوس کے خلاف ایک ساتھ شریکِ پیکار رہے تھے، اب وہ محاذ ٹھنڈا ہوتے ہی مُلک کے اِقتدارِ اعلیٰ کے جوشِ جنوں میں ایک دُوسرے کے ساتھ بھڑ گئے۔ دِلچسپ بات یہ کہ رُوس کو افغانستان سے مار بھگانے کا مقصد حاصل کر چکنے کے باوجود پاکستان کسی نہ کسی شکل میں اس جنگ میں ملوّث رہا اور امریکہ کے مفادات بھی اس جنگ زدہ مُلک سے وابستہ و برقرار رہے۔ پاکستانی نوجوانوں کا جہادی مقاصد سے افغانستان جانا بھی بدستور جاری رہا۔ یہ داستان افغانستان سے رُوس کی پسپائی سے لے کر افغان متحارب گروہوں کے باہمی جدل وقتال، طالبان حکومت کے قیام اور خاتمے تک پھیلی ہُوئی ہے۔ 1989،90ء کے دَور میں بھی یہ سلسلہ عروج پر تھا، جبکہ اس سے کچھ ہی عرصہ پیشتر 1988ء میں افغان رُوس وار کا حصہ رہنے والی پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت C-130طیارے کے حادثے میں جانیں گنوا کر دُنیا سے دُور جا چکی تھی۔
اور اب مَیں پھر واپس جعفر کے قصے کی طرف آتا ہُوں۔ مَیں نے جعفر کے سابق مالک مکان مذکورہ لڑکے سے کہا تھا کہ مجھے لاہور میں جعفر کے گھر کا ایڈریس اور فون نمبر وغیرہ لاکر دو، مَیں اپنے بچپن کے اُس بچھڑے ہُوئے دوست سے ہرحال میں وہاں جا کر مِلوں گا۔ اُس نے میری یہ خواہش پوری کرنے کا وعدہ کر لیا۔ جس قدر خطاطی اُس نے سیکھنا تھی، سیکھ کر چلا گیا، کچھ دِن بعد دوبارہ آیا تو یہ رُوح فرسا خبر دی:
’’جعفر افغانستان میں شہید ہو گیا ہے۔‘‘
مجھے ایک دھچکا لگا۔ اپنی قسمت پر رونا آگیا کہ بہت برسوں بعد جعفر کا سُراغ مِلا بھی تو اُس سے مِلنا نصیب نہ ہو سکا۔ اور یہ اِطلاع مِلی بھی تو کب؟ عین اُس موقع پر جب اپنے پیارے دوست سے مِلنے کی اُمید یقین میں بدل چکی تھی۔
یہ پہلو کس قدر دَردانگیز اور اندوہناک ہے اور ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بھی کہ رُوس کے افغانستان سے اِنخلاء کے بعد خانہ جنگی میں مصروفِ کار افغان جنگجوؤں کے مابین کون سا مقدس جہاد جاری تھا جس میں گمراہ کن تصورِجہاد کے اسیر لوگوں کے بہکاوے میں آجانے والے ہمارے معصوم اور سادہ لوح نوجوان شوقِ شہادت میں تاحال اپنی جانیں گنوا رہے تھے، جبکہ ان کے یہ سرپرست اور سپورٹر بدلے میں اپنے مفادات سمیٹ رہے تھا؟
یہی وہ نازک ترین مرحلہ تھا جب جہادیوں کی ترجیحات بدلیں، جہاد غلط ڈگر پر چلا گیا اور اِصلاحِ احوال کے بجائے بدامنی اور فساد کا موجب بن گیا۔ افغانستان کی فضا کو بارود کی بو سے لبریز کر ہی دیا گیا تھا، اِس کرم فرمائی سے پاکستان بھی دُوررَس، ہمہ گیر، تباہ کُن اَثرات کی زَد میں آگیا۔پاکستان کے مہربانوں کی بوئی ہُوئی فصل ہماری نسلوں نے کاٹنا تھی، جو برسوں نہیں،عشروں تک ہم کاٹتے رہے اور اس کے منحوس اثرات سے تاحال باہر نہیں آسکے۔
میرا دِل لہولہو ہو رہا ہے۔ میرا وطن اغیار کی بھڑکائی ہوئی آگ میں جھلستا رہا، ہم فرنٹ لائن اِتحادی ہونے کا خمیازہ اپنے مُلک کو ڈھال بنا کر بھگتتے رہے ہیں۔ نفع و نقصان کے جائزے کے بعد مَیں سوچتا ہوں کہ اِس جنگ کا حصہ بن کر ہم نے کیا پایا؟ میرا مُلکِ خداداد درندہ صفت عناصر کے ہاتھوںزخم زخم ہے اور اوپر کی سطح پر، احساس سے عاری لوگ اپنے حال میں مست اور مسرور دکھائی دیتے ہیں، ہرگاہ ’’سب اچھا‘‘ کی صدائیں گونج رہی ہیں۔
مَیں دِل گیر ہو کر سوچتا ہُوں کہ میری زندگی میں 1977-78ء کا زمانہ کتنا اچھا اور سکون آور تھا جب بے فکری اور آشتی کی فضائیں چہار جانب بہار بکھیر رہی تھیں، ہر خوف و خطر سے آزاد شب و روز تھے، مذہبی غارت گروں اور خودکش دھماکے بازوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ہماری عمر کے بچے اور لڑکے بالے ہیروئن، چرس اور گٹکے کے اسیر ہونے کے بجائے داستانِ امیر حمزہ اور طلسمِ ہوش رُبا جیسی تخیل افروز کہانیاں پڑھنے کے شائق و دِلدادہ تھے، اور پھر وہ وقت بھی دیکھنا نصیب ہوا کہ اُس چالاک مگر فہم و بصیرت سے کوسوں پرے شخص کی بدولت پاکستان کے باسی برسوں کی نو بہ نو آفات میں گھرے سخت بے چینی اور تشویش کے ماحول میں بسیرا کیے رہے۔ آج ضربِ عضب جاری ہے، اب الحمدللہ وہ چند سال پیشتر والی کیفیت نہیں رہی مگر خودکش بمبار اَب بھی جب موقع ملتا ہے، چھپ کر وار کر جاتے ہیں۔
یہ ہے ایک پاکستانی کی درد بھری کہانی، جو ہمارے مہربان طالع آزماؤں کی طرف سے افغانستان میں بین الاقوامی وارپلان کا حصہ بننے سے لے کر اب تک کی لہورنگ داستان اپنے دامن میں سموئے ہُوئے ہے۔

Comments

Click here to post a comment