ہوم << مسلمان عورت - نادیہ عنبر لودھی

مسلمان عورت - نادیہ عنبر لودھی

انسان کی طبعیت کو خدا نے انواع واقسام کی کیفیتیں عطا کی ہیں، کبھی تو بدی حاوی ہو جاتی ہے اور کبھی نیکی۔ معاشرے کی درستگی کے لیے قرینہ ہے کہ نیکی ہمیشہ بدی پہ غالب رہے تاکہ انسانی معاشرہ حیوانیت سے محفوظ رہ سکے۔ جب کرہ ارض گناہوں کے بوجھ سے تھرتھرانے لگتی ہے تو اللہ تعالی ایک نبی یا رسول مبعوث فرماتے رہے ہیں تاکہ زندگی اپنے اصل ڈھب پر آسکے اور جس مقصد کے لیے آفرینش آدم کی گئی، وہ مکمل ہو سکے۔ دین اسلام کا آغاز آج سے تقریبا چودہ سو سال قبل ہوا جب ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں اللہ تعالی کا آخری پیغام لے کر تشریف لائے۔ بنی نوع انسانیت جہالت کی جن تاریکیوں میں غوطہ زن تھی اس تاریکی میں عورت بھی ایک حقیر ترین شے تھی۔ اس کا مقام زرخرید غلام کا سا تھا۔ عورت کو ہر حق سے محروم رکھا جاتا۔ بچیوں کو زندہ گاڑ دیا جاتا غرض یہ کہ ہر سطح پہ عورت کا استحصال کیا جاتا۔
اسلام کی روشنی جیسے جیسے پھیلتی گئی، احکامات الہی کا نزول وحی کی شکل میں اس معاشرے کی تشکیل کے مطابق ہوتا گیا۔ جہاں مرد و زن کو ہر معاملے میں یکساں احکامات دیے گئے وہاں خواتین کو پردے کو ہدایت کی گئی۔ پردہ اصلا معاشرے کی فلاح کی طرف ایک قدم ہے، بظاہر یہ خواتین کے لیے ایک مشکل امر نظر آتا ہے، ایک پابندی جیسا، لیکن اگر اس کے نتائج دیکھے جائیں تو معاشرے کا سکون اور عورت کا اصل تحفظ پردے میں ہے۔
آج مغرب کے افکار اس قدر اثرانداز ہو چکے ہیں کہ زمانہ جاہلیت کی طرح عورتیں سج دھج کر گھر سے فخریہ طور پر نکلتی ہیں، ایک طبقے کی طرف سے پردے کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اسے عورت پہ بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ اللہ تعالی کا کوئی بھی حکم مصلحت سے خالی نہیں ہے، بےپردگی کے تباہ کن اثرات معاشرے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتے ہیں، بےراہ روی بڑھ جاتی ہے، گھر اجڑ جاتے ہیں۔ مغربی معاشرے کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اسلام اپنے پیروکاروں کو ایک صحت مند معاشرہ دینا چاہتا ہے جہاں عورت ایک مقدس چیز ہے، مرد کا کھلونا نہیں۔ عورت شمع خانہ ہے شمع محفل نہیں۔
بظاہر تو یہ ایک عورت کا ذاتی مسلئہ نظر آتا ہے کہ وہ حجاب لیتی ہے یا نہیں لیکن اس کے اثرات بلاواسطہ طور پر سارے معاشرے پہ پڑ تے ہیں۔ شرم و حیا عورت کا زیور ہے جس سے ایک سازش کے تحت عورت کو دور کیا جا رہا ہے۔ دین سے دوری بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ایک اور اہم وجہ مستعار لیا ہوا تعلیمی نصاب بھی ہے جو کہ نئی نسل کو اسلام کی بنیادی اقدار سے دور کر رہا ہے۔
دین اسلام کا آئیڈیل معاشرہ جو کہ ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں قائم کر کے دکھایا، ویسا معاشرہ قائم کرنا ہمارے پہلی اور آخری ترجیح ہونی چاہیے، جس میں حیا کا چلن ہو اور عورت محترم اور محفوظ ہو۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے خواتین کی تربیت بھی ضروری ہے جو کہ آنے والی نسل کی امین ہے۔ خواتین کو اسلامی تعلیمات سے آگاہی کے ذریعے اسلام کا شعور دینا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی نسلوں کی بہتر تربیت کر سکیں۔ اسلامی وضع قطع ایک غیر مسلم اور مسلمان عورت کا فرق ہے۔ ہر انسان کا عمل اس کے عقیدے کا مظہر ہے۔ شخصی آزادی کا نعرہ عورت کے حوالے کر کے اس کو گمراہ کرنا مغرب کا بنیادی مقصد ہے۔ اس گمراہی کی دلدل سے نئی نسل کو نکالنا ماؤں کا فرض ہے۔ میرا، آپ کا، ہم سب کا۔

Comments

Click here to post a comment