ہوم << اسلامی ریاست،قومی ریاست اور تصورِ اُمّت (قسط اوّل)-محمد فاروق

اسلامی ریاست،قومی ریاست اور تصورِ اُمّت (قسط اوّل)-محمد فاروق

محمد-فاروق
ریاست کے بارے میں براہ راست اسلامی تصور کی طرف آنے سے پہلے چند ضروری امور اگر بطور اصول پیشِ نظر ہوں تو ہم اسلام کے اصولوں کے مطابق صحح تصور ریاست قائم کرنے میں کبھی غلطی نہ کریں گے ۔
۱- آپ جانتے ہیں کہ روزے کی فرضیت میں ہمارے لیے وقت کی پابندی یا اعتبارات وہی ہیں کہ جب " خطِ ابیض خطِ اسود سے باہر نکل آۓ ۔۔ اور پھر اس کے معکوس ۔۔۔ یہ فکری اور نظری طور پر اب تا قیامت ہمارے لیے اصول اور قانون ہے ۔۔ اور جب بھی ہم روزہ رکھیں گے اور اس کے اوقات کا تعین کریں گے تو ہم بطور اصول اس قانون کی طرف رجوع کرنے کے شرعاً پابند ہیں ۔ یہی حال فرض نمازوں میں بطور اصول " کتا باً موقوتا " کا ہے ۔ ہم پانچ وقت کے نمازوں کا تعین ان کے اوقات مقررہ پر کرنے کے پابند ہیں ۔
لیکن :
ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے سامنے ایک ایسی صورت حال بھی آجاتی ہے کہ ایک مقام ۔۔ مثلاً انتہای شمال میں واقع ممالک ، ناروے اور سویڈن میں نہ تو کبھی خطِ ابیض خطِ اسود سے باہر نکلتا ہے ۔۔ نہ اس کے معکوس ۔۔ اب یہاں ہم اجتہاد کا راستہ اختیار کرتے ہیں ، جس میں یا تو روزے کے لیے گھڑی سے اوقات مقرر کرتے ہیں ۔۔ یا پھر قریب کے کسی دوسرے ملک کے طلوعِ افتاب و غروب پر عمل کرتے ہیں ۔ یہاں یاد رکھنے کی جو بات ہے ۔۔ اور جس پر بڑے بڑے اہل علم بھی بعض اوقات ٹھوکر کھاتے ہیں وہ یہ ہے کہ :
[ اس عملی صورت حال کے مطابق فیصلہ کرنے میں ہم نے اس خاص مقام پر روزے کے لیے اوقات مقررہ کر کے اُن دوسرے اور آصل بنیادی اصولوں کو نہ تو چھوڑا ہے، نہ منسوخ قرار دیا ہے نہ اس کے ناکافی ہونے کا فتوی دیا ہے ، نہ اُن کو عمومی طور پر ناقابل عمل گردانا ہے ۔۔ بلکہ اس خاص مقام پر اسلام کے تصور اجتہاد سے فایدہ اُٹھا کر عمل کے لیے متبادل راستہ ڈھونڈا ہے ۔۔] لہذا "عملی تقاضوں" کی مجبوری کی بنیاد پر متبادل راستہ اختیار کرنے سے اسلام کے وہ بنیادی اصول ۔۔ جو " محکمات" کا درجہ رکھتے ہیں ۔۔ کبھی منسوخ یا دوسرے الفاظ میں ( Illegitimate ) نہیں ہو جایا کرتے ۔۔۔ نہ ہم اُن اصولوں کی شرعی پابندی سے فارغ ہو جاتے ہیں ۔ یہی وہ چیز ہے جس کی طرف آپ نے نہایت شاندار انداز میں اشارہ فرما کر صحح اسلامی تصور کو واضح کرنے کا حق آدا کیا ہے ۔
۲- آپ جانتے ہیں کہ حضرت ابراھیم علیہ اسلام نے نمرود کے دربار میں مکالمے کے دوران فرمایا تھا کہ میرا رب وہ کہ جو سورج کو مشرق سے نکال کر مغرب میں غروب کرتا ہے ۔۔ تم اگر کرسکو تو اس کے برعکس کر کے دکھا ۔۔ ( یاد رہے یہ مفہوم ہے ) اب یہاں پر اگر کوی یہ اعتراض داغ دے کہ سورج ساکن ہے اور زمین سائینس کے ثابت شدہ اُصولوں کے مطابق سورج کے گرد گھومتی ہے ۔۔ سورج نکلتا وکلتا نہیں ۔۔۔ تمہارا ابراھیم ( علیہ) اور تمہارا رب دونوں سائینس سے ناواقف تھے ( نعوذو باللہ) ۔۔۔ تو یہ اعتراض کسی صورت درست نہیں ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ قرآن نے جو بات کی ہے وہ [ معروف حسّی مشاہدہ ] ہے ، اور اسی حسی مشاہدے کی بنیاد پر کی ہے ۔ جو آج بھی ویسا ہی ہے جو اس وقت تھا ۔ اگر ابراھیم علیہ اسلام اس وقت یہ فرماتے کہ " میرا رب وہ ہے جو زمین کو سورج کے گرد گھوماتا ہے ۔۔۔ " تو ظاہر ہے یہ " معروف حسّی مشاہدہ " نہ ہونے کی سبب لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہوتا ۔۔ اور حضرت ابراھیم علیہ اسلام کے بارے میں کچھ اور سوچا جاتا ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم اور ہمارے سائنس دان ، اس علم کے باوجود کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے ۔۔ یہی الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ سورج نکلا ۔۔ سورج غروب ہوا ، کیوں کہ ہم سب کے روزمرہ کا مشاہدہ یہ ہے کہ جیسے سوج صبح مشرق کی طرف سے نکلتا ہے ۔۔ اور مغرب میں غروب ہوتا ہے ۔
ان اُمور کو بطور اصول ذہن میں رکھ کر اب ریاست کے سوال ہر آتے ہیں ۔
۱- ریاست عملاً دو بڑے کمپوننٹس پر مشتمل ہوتی ہے ۔ اس کی جعرافیائ حدود اور اس کے باشندے۔ اسلام اور قرآن نے مسلمانوں کو کبھی اِن کی جعرافیائ حدود کی شناخت سے نہیں پکارا ، باوجود اس حقیقت کے کہ ریاستِ مدینہ وجود میں آچکی تھی اور مسلمان اس کے شہری تھے ۔ ۔۔۔ یا یہ کہ کم از کم اسلام کے مخاطب ابتداء میں " عرب " تو تھے ۔۔۔ اور نہ اسلام نے مسلمانوں کو کسی قبائلی عصبیّت کی شناخت سے یاد کیا ۔۔ بلکہ قبائل و شعوب کو محض " تعارف" کا وصیلہ قرار دیا ۔ آپ نے بالکل صحیح اور اسلامی تصور کے عین مطابق درست نشاندھی فرمای ہے کہ :
"ان هذہ امتکم امة واحدة و انا ربكم فاعبدون"....كنتم خير امة اخرجت للناس.....مختلف قومی ریاستوں میں بٹهے ہوئے دشمنوں کی نہیں بلکہ بهائیوں کی امت....انما المؤمنون اخوة."
گویا خدا کی کتاب نے تاقیامت ہمارے لیے اب یہ طے کیا ہے کہ ہم " قوم" نہیں اُمّت ہیں ۔۔ اور ہمارے اسلام اور مسلمانوں کے بالمقابل " کفر" ہے جسے اللہ کے رسول صلم نے "الکفرو ملت واحدہ " کہا ہے ۔۔ اور " قوم " کی ناپسندیدہ اصطلاح تو اللہ نے دراصل اسی کفر کے لیے استعمال کیا ہے ۔۔ کہ وہی " قوم " ہے ۔ چنانچہ قرآن نے بار بار کہا ہے کہ واللہ لا یھد ی القوم الکافرین۔ ۔۔ اور ایمان و عمل صالح سے منحرف " فاسق" کے لیے " قوم " کا اصطلاح استعمال ہوا ۔۔ کہ واللہُ لا یھدی القوم الفاسقین۔ ۔۔ اور اسی طرح ظالموں کے لیے ۔۔ کہ واللہُ لا یھدی القوم الظالمین ۔ آفسوس کہ آج "اُمّت " کی خوبصورت اور نظریاتی اصطلاح اور مسلمان کا معزز خطاب و نام رکھنے والے اس نظریاتی اعزاز سے دستبردار ہوکر " قوم" کی ناپسندیدہ ، اور تنگ دامان اصطلاح آپنانے پر بضد ہیں ۔

عملی مجبوری :

اس " نظریاتی" حقیقت اور قرآن کی طرف سے ہمیں عطا کردہ خطاب ، اُمّت ، اُمّتِ وسط ، خیرا اُمّت کے ساتھ ۔۔ کہ جس میں ہمارے لیے قوم ، رنگ و نسل کی نہ کوی امتیاز ہے ، نہ اس کی بنیاد پر کوی پابندی و قید اور نہ اس کی بنیاد پر ہماری " شناخت " ہے ہمارے سامنے آج " عملی " صورت حال ۔۔ بلکہ مجبوری یہ ہے کہ وہ مسلمان جسے اُمّت کہہ کر پکارا گیا تھا ، اور جیسے ایک خالص نظریاتی تشخص قرآن نے عطا کیا تھا ۔۔ وہ آپنی نظریاتی شناخت ترک کر کے قومیتوں کی عصبیّت کا شکار ہوکر بٹا ہوا ہے اور تقسیم در تقسیم ہے ۔ سوال یہ ہے کہ " انحراف " اور تفریق کی اس پیدا کردہ ۔۔ یا پیدا شدہ ۔۔ صورت حال میں قرآن کے وہ ابدی اصول کیا معطل ، منسوخ یا فرسودہ اور قابل ترک مانے جائیں گے ۔۔۔ ؟۔۔ یا ہمارے لیے یہ رویہ درست ہوگا کہ بطور اصول تو وہی بات درست تسلیم کریں ، اس کے لیے جد جہد بھی کریں ۔۔۔ ہاں ۔! البتہ " عملی صورت حال " کا لحاظ رکھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہم جس حد تک مجبور ہیں ۔۔ وہ بے شک پورےکریں ۔
لہذا یاد رکھنے کی بات ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان بطور خاص ۔۔ اور کوی بھی دوسرا مسلمان ملک ۔۔ جس پر مسلمانوں کی حکمرانی ہو ۔۔ اس کی زمین و وسائل خدا کے ہیں ۔۔ اور اسکی حاکمیت اعلی بھی درحقیقت اللہ تعالی کی ہے ۔۔ اس لیے دنیا میں بسنے والا کوی بھی مسلمان اس کی شہریت کا حق رکھتا ہے ۔۔ تو ہم قرآن کے اس زرّین اصول ہی کو بطور رہنما اصول مان کر یہ بات کرتے ہیں کہ ہم شامی ، مصری ، ایرانی اور ہندی بعد میں ہیں " مسلمان" پہلے ہیں ۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا ، یہ ایک اصولی ، فکری اور نظری اعتبار ہے نہ کہ " عملی" ۔ اگر آپ اوپر بیان شدہ اصول کو مد نظر رکھیں ۔۔ جن میں ہم نے روزے ، نماز کے اوقاتِ مقررہ کے بارے میں عرض کیا تھا ، تو ہماری بات واضح ہو جائیگی ۔
یہی وہ چیز ہے جس کو علامہ اقبال رح " ہر ملکِ ملک ماست۔۔" کہتا ہے ۔۔ اور یہی وہ نزاع تھا کہ جس میں علامہ اقبال رح نے سیّد مدنی رح سے اختلاف کیا تھا ۔۔ حضرت علامہ کا موقف یہ تھا کہ وطنیّت کا موجودہ سیاسی تصور ( کہ جس پر قوم کی تشکیل کی جاتی ہے ) دراصل ایک [ ہیئتِ اجتماعیہ انسانیہ ] ہے ۔۔ اور چونکہ اسلام خود بھی ایک [ ہیئت اجتماعیہ انسانیہ ] ہے اور اسکا مدعی ہے ۔ اگر وطنی قومیّت کا موجودہ سیاسی تصور ہم قبول کر لیں تو ہم دراصل ایک ہیئت اجتماعیہ کو قبول کرنے جا رہے ہیں ۔۔ جس میں یہ ممکن ہی نہیں کہ پہلے ہم اسلام کے ہیئت اجتماعیہ انسانیہ سے دستبردار نہ ہو جائیں ۔
یہی چیز حضرت علامہ کے لیے اتنی قابل تشویش تھی کہ مرض المرگ میں قلم اٹھانے پر مجبور ہوےتھے ۔ وجہ صرف یہی تھی کہ حضرتِ مدنی رح کی نیت میں کوی فطور نہیں تھا ، وہ اُمّت کے صلحا میں سے تھے ،لیکن یہ ماننا پڑتا ہے کہ حضرت مدنی رح وطن کے جدید سیاسی تصور سے اس وقت واقف نہ تھے ، اور اُنہوں نے بات چونکہ اس سیاق ( context ) میں کہی تھی ۔۔ جس سے غلط فہمی پیدا ہونے کا قوی امکان تھا، اس لیے حضرت علامہ کو مداخلت کرنا پڑی ۔( اس پر میرا ایک تفصیلی مضمون موجود ہے )
چنانچہ اس نکتے کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک مسلمان ملک ، اور بطور خاص پاکستان پوری دنیا کے مسلمانوں کی مملکت ہے ، تو ہم اس فکری ، نظری اور قرآن کے مقرر کردہ اصولی نقطۂ نظر کی بات کرتے ہیں ، جو ہمارے رب نے ہماری شناخت کے لیے ہمیں دیا ہے ۔۔ نہ یہ کہ مسلمانوں نے قرآن کے سورۂ بقرہ کی آیت ۲۱۳ کے مطابق " بَغیّم بَینَھُم " کی بنیاد پر آپنے آپ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے " قوموں" میں بانٹا ہے ۔۔ اور اب اسی قومی عصبیّت کی بنیاد پر کھینچے گئے سیاسی لکیروں کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کے لیے ویزوں کے محتاج ہیں ۔
" بہت فرق ہے اس بات میں کہ آپ اس انسانی ہوس و جہل اور ناروا غیر اسلامی عصبیّت کی بنیاد پر بننے والے روکاوٹوں اور مسلمان ریاستوں کے قوانین کو با امر مجبوری قبول کرتے ہوے ان کا " احترام " کرتے ہیں ۔۔۔
اور اس بات میں کہ آپ بطور اُصول بھی اس شیطانی عصبیّت کو درست مان کر خدا کی طرف سے عطا کردہ نظریاتی شناخت سے نہ صرف یہ کہ دستبردار ہونے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ۔۔ بلکہ آگے بڑھ کر اسے جوتے کی نوک پر بھی رکھتے ہیں "۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایک چیز اگر " عمل" کی دنیا میں موجود نہ ہو تو کیا یہ ضروری ہے کہ وہ " نادرست" یا غلط بھی ہے ۔۔؟ عین اسی طرح ایک اور فیشن دنیا کا اوڑھنا بچھونا ہو تو کیا اس کا " عملی" ہونا اس کے " درست" ہونے کی بھی ضمانت ہے۔۔؟ اسے اگر بطور اصول مانا جاۓ تو عرض یہ ہے کہ اسلام بیچارہ اس روۓ زمین پر آپنی مکمل صورت میں بمشکل تیس سال خلافت راشدہ کی شکل میں چلا ہے ۔ اس کے بعد اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔
کیا اس " ناقابل عمل " کام سے دست بردار ہونا پڑے گا ۔۔؟
جاری ۔۔

Comments

Click here to post a comment