اللہ تعالٰی نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی اور جسد آدم میں اپنی روح میں سے پھونکا تو فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ سب کے سب فرشتے فوراً سجدے میں گر پڑے سوائے ابلیس کے جو کہ جنوں میں سے تھا مگر کثرت عبادت کی وجہ سے نمایاں حیثیت کا حامل تھا۔ اللہ تعالٰی نے ابلیس سے پوچھا کہ تمہیں کس چیز نے سجدہ کرنے سے روک دیا جبکہ یہ میرا حکم تھا۔ ابلیس نے جواب دیا کہ میں اس آدم سے افضل ہوں کہ تو نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور مجھے آگ سے (جو کہ انرجی ہے اور مٹی سے افضل ہے)۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ اس نافرمانی کی پاداش میں تجھ پر قیامت کے دن تک لعنت کر دی گئی۔ ابلیس نے کہا کہ اے اللہ تو مجھے اس دن تک مہلت دے چنانچہ اسے مہلت دے دی گئی۔ اس نے کہا کہ میں تیرے راستے پر نسل انسانی کی گھات میں بیٹھوں گا اور اسے تیرے صراط مستقیم سے گمراہ کردوں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔
اس کے بعد اللہ تعالٰی نے آدم و حوا کو جنت میں امتحان کی غرض سے مقیم فرمایا اور ایک درخت کے پھل کو ممنوع قرار دے دیا۔ ابلیس نے دونوں کو ورغلا کر وہ پھل کھانے پر مائل کر لیا۔ جیسے ہی دونوں نے پھل کو چکھا تو ان کے ستر ظاہر ہو گئے اور وہ جنت کے پتوں سے ستر چھپانے کی کوشش کرنے لگے۔ اللہ تعالٰی نے پوچھا کہ یہ تم نے کیا کیا جبکہ میں نے تمہیں اس کام سے منع کیا تھا تو آدم و حوا علیھما السلام نے فوراً اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئےاللہ سے معافی مانگ لی اور اللہ تعالٰی نے ان کو معاف فرما دیا۔
اس سارے واقعے کا بغور جائزہ لیا جائے تو ابلیس کو جس چیز نے راندہ درگاہ بنایا وہ اس کا تکبر ہے جبکہ آدم و حوا علیھماالسلام کی فضیلت اللہ سے توبہ و استغفار کرنا ہے۔ ہم اپنے معاشرے میں جو ظلم و ستم اور عدم برداشت دیکھتے ہیں، اس کے پیچھے یہی تکبر ہے جو کہ ابلیس کا طریقہ ہے مگر ہم غیر محسوس طور پر اس کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ اگر عاجزی اور انکساری کا رویہ اپنایا جائے تو معاشرے میں امن و سکون اور استحکام پیدا ہوتا ہے۔ یہ وہ رویہ ہے جو بنی نوع انسان سے مطلوب ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا کر اسی تکبر کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنی رائے کو دوسروں کی رائے سے ہر حال میں بہتر قرار دینے کے لیے ان کی توہین کرنے سے بھی نہیں چوکتے اور بات کسی حل تک پہنچنے کی بجائے جھگڑے پر منتج ہو جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اپنے رویے کا جائزہ لیں کہ ہم ابلیس کی راہ پر چل کر اللہ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں یا اللہ تعالٰی کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل پیرا ہیں۔ شیطان جس تکبر کا شکار ہو کر لعنتی قرار پایا وہ ہمیں بھی اسی تکبر پر ڈٹ جانے کی ترغیب دیتا ہے۔
ہم سے اگر کوئی غلطی ہو جائے تو ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح جھوٹ بول کر یا کسی اور کے ذمے ڈال کر میں بری الذمہ ہو جائیں تاکہ ہم پر الزام نہ آئے۔ شاید کسی طریقے سے ہم بچ بھی جائیں مگر ضمیر کبھی مطمئن نہیں ہوگا، اس کے بجائے اگر اپنی غلطی تسلیم کر کے معذرت کر لی جائے، تو یہ وہ رویہ ہے جو بنی آدم سے مطلوب ہے۔ غلطی ہو جانا بڑی بات نہیں مگر اس پر اڑ جانا ابلیس کا راستہ ہے اور اس پر نادم ہو کر معافی مانگ لینا اصل آدمیت اور بندگی ہے۔
اللہ تعالٰی ہمیں تکبر سے بچائے۔ آمین
تبصرہ لکھیے