ہوم << سب کہانیاں ہیں - عطاء الرحمن

سب کہانیاں ہیں - عطاء الرحمن

Atta-ur-Rehman-copy-300x360 میری کیفیت لوقا کی انجیل کے راوی کی سی ہے۔ سب ایک خاص موضوع پر لکھ رہے ہوں تو میرے اندر بھی خواہش امڈ رہی ہے اسی پر اظہار خیال کروں۔۔۔ انجیل لوقا کا تحریر کنندہ مگر ایمان اور یقین سے سرشار تھا۔۔۔ اس کے سامنے سیدنا مسیح علیہ السلام کی پاکباز اور خدا کی فرستادہ شخصیت تھی۔۔۔ میرا المیہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم ہیں جو ان دنوں ہر کالم نگار ٹی وی سکرین پر زبان و بیان کے جوہر دکھانے والے کے نشانے پر ہیں۔۔۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے میں بھی اسی موضوع پر قلم گھسیٹوں۔۔۔ مگر کیا لکھوں۔۔۔ الطاف حسین کو غدار کہوں۔۔۔ یہ لکھ لکھ کر قلم توڑے جا رہے ہیں اور زبانیں تھک گئی ہیں۔۔۔ میں کیا اضافہ کر سکتا ہوں۔۔۔ کیا یہ حقیقت ہم پر متحدہ کے قائد کی 22 اگست کی تقریر کے بعد واضح ہوئی ہے کہ تین دہائیوں سے برطانیہ میں بیٹھا یہ پاکستانی نژاد اپنے وطن سے غداری کا مرتکب ہوا ہے۔ نوے کی دہائی کے آغاز پر اس نے اپنے ملک کی سر زمین پر کھڑے ہو کر قومی پرچم کو جلایا۔۔۔ کیا یہ غداری نہ تھی۔۔۔ 1992ء کے آپریشن کے دوران ہمارے سپوتوں نے اعلان کیا ایم کیو ایم کے دفاتر کی تلاشی کے بعد وہاں سے جناح پور کا نقشہ برآمد ہوا ہے تو کیا یہ غداری سے کم درجے کی سازش تھی۔۔۔ 2002ء میں حکومت برطانیہ کو خط لکھا پاکستان میں میری جماعت کے کارکنان آپ کے ملک کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں تب کیا وہ غداری کا مرتکب نہیں ہوا تھا۔ 2006ء میں دلی کے ایک اخباری سیمینار میں شرکت کر کے برملا کہا تقسیم ہند تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی اور ہال میں بیٹھے بھارتی سامعین کی تالیوں کی گونج فلک تک جا پہنچی تھی کیا اسے غداری کے علاوہ کسی اور بات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔۔۔ الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف پہلی مرتبہ ہرزہ سرائی تو نہیں کی جو ہم اتنے سیخ پا ہیں۔۔۔ گزرے تیس سالوں کی تاریخ ان خرافات سے بھری پڑی ہے۔۔۔ اس ساری مدت کے دوران ہماری حکمران اسٹیبلشمنٹ نے جب موقع ملا اسے گود میں بٹھایا۔۔۔ پرورش کی۔۔۔ کام لیا۔۔۔ اگر کوئی بیان مذمت جاری بھی ہوتا تھا تو اگلے مرحلے پر دست شفقت رکھ دیا۔۔۔ سول حکومتوں نے اپنا اتحادی بنایا۔۔۔ بعد میں کف افسوس بھی ملا کہ اسٹیبلشمنٹ کا بندہ ہے اس کے اشاروں پر چلتا ہے۔۔۔ اچانک ہماری حکومت سے علیحدہ ہو کر اسے کمزور کر گیا۔۔۔ لیکن الطاف حسین ہمیشہ اپنی روش پر قائم رہا۔۔۔ ملک کے حقیقی حکمران اسے پالتے رہے۔۔۔ اس کی تنظیم کو کراچی کے زیر زمین مقامات پر جدید ترین غیر قانونی اسلحے کے انبار لگانے کی کھلی چھٹی ملی۔۔۔ دلی میں اس نے بھارتیوں کو خوش کرنے کی خاطر اپنے تئیں قیام پاکستان کی روشن حقیقت پر خط تنسیخ پھیرنے کی کوششیں کی تو اسی شام اسلام آباد کے فوجی ڈکٹیٹر کے حکم پر پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے اس کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا۔۔۔ کیا یہ وطن دشمنی کے عوض دیا جانے والا سرکاری انعام نہیں تھا جس سے اسے فوراً نواز دیا گیا۔۔۔ وہ بھی دشمن کے سامنے اس کے گھر میں ۔۔۔ یہ مشتے از خروارے چند مثالیں ہیں۔ 22 اگست کو اس نے اچانک نئی بات کیا کہہ دی ہے جو ہم سب کا سانس پھولا ہوا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں اور سیاستدانوں کی زبانوں سے لے کر اخبارات و ٹیلی ویژن کے مراکز تک غدار غدار ہو رہی ہے۔۔۔ اس سے بہتر تھا اپنا سر پیٹ لیتے۔
فرما یا گیا ہے الطاف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ دائر ہونا چاہیے۔۔۔ واہ صاحب واہ! یہ بھی آپ نے خوب کہی۔۔۔ آئین کے حقیقی غدار کے خلاف جس نے ایک نہیں دو مرتبہ شب خون کیا۔۔۔ دستور مملکت کو رگید ڈالا۔۔۔ عوامی مینڈیٹ کا تیا پائنچہ کر کے رکھ ڈالا۔۔۔ پوری کی پوری عدلیہ کو اُڑا کر رکھ دیا۔۔۔ آپ مقدمہ چلا نہیں سکے۔۔۔ اس کی شروعات ہوئیں تو کیا حشر بپا نہ ہوا۔۔۔ مقدمے کی کارروائی انجام تک کیوں نہ پہنچنے دی گئی۔۔۔ کن کے ایما پر ادھوری چھوڑ دی گئی ، ملزم کو بیماری کے بہانے ملک سے فرار ہو جانے کا موقع کس نے فراہم کیا۔۔۔ یہ ’مریض‘ جو بہت سے فرماں رواؤں کا محبوب ہے باہر جا کر اس دھڑلے سے بیانات جاری کرتا اور چینلوں کو انٹرویو دیتا ہے کہ اسپرین کھانے کی ضرورت بھی شاید محسوس نہیں کرتا۔۔۔ اس کے بعد آئین کے آرٹیکل 6 میں کون سی سکت باقی رہ گئی ہے جو کسی اور پر مقدمہ چلایا جائے۔ قوم اور آئین کے ساتھ مزید مذاق نہ کریں اور کسی سنجیدہ کام کی جانب متوجہ ہوں۔۔۔ ان دنوں اس الزام کی بہت تکرار ہو رہی ہے کہ لندن میں بیٹھا یہ پاکستانی نژاد اور ہماری ایک سیاسی جماعت کا قائد بھارت کی ’را‘ سے فنڈ وصول کرتا ہے۔۔۔ دشمن کے ایجنٹ کا کام کرتا ہے۔۔۔ کیا یہ راز بھی ہم پر اب کھلا ہے۔ 1992ء سے سن سن کر کان پک گئے ہیں۔۔۔ بار بار اس حقیقت کا انکشاف ہوا ہے۔۔۔ کوئی نتیجہ خیز کارروائی کی گئی نہ ٹھوس قدم اٹھایا گیا۔۔۔ اب بتایا گیا ہے سرفراز مرچنٹ اور عمران نیازی سے دوبارہ پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔۔۔ سبحان اللہ! ہماری بہترین کارکردگی کا ریکارڈ رکھنے والی سراغ رساں ایجنسیاں اور ریاستی ادارے اتنے بے بس ہیں کہ دو ایسے آدمیوں کے رہین منت بن کر رہ گئے ہیں جن میں سے ایک کو آپ نے چند ماہ پہلے اسی مقصد کی خاطر برطانیہ سے پاکستان بلوایا۔۔۔ اس نے کوئی ٹھوس ثبوت یا ناقابل تردید شواہد آپ کے سامنے رکھے بھی ہیں تو کسی کو علم نہیں۔۔۔ دوسرا جسے باقاعدہ ڈپلومیٹ کہا جاتا ہے۔۔۔ ابھی تک صرف جھانسے دیتا رہا ہے واضح اور قطعی بات اس نے بھی نہیں کی۔۔۔ اب آپ کی پوچھ گچھ سے دونوں کون سا راز اگل دیں گے۔۔۔ ہر کوئی اپنے مفادات کا تابع ہے۔۔۔ کیا ’را‘ سے فنڈ لینے کی حقیقت M16 سے چھپی ہو گی۔۔۔ اس کے ساتھ باقاعدہ رابطہ کیوں نہیں قائم کیا جاتا۔۔۔ یہ نوید بھی سنائی جا رہی ہے کہ ایم کیو ایم پر پابندی لگا دی جائے گی۔۔۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی کا کہنا ہے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جو آئینی اور قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے گی۔ اس کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔ آپ نے شروع میں ایم کیو ایم کے خلاف ’’حقیقی‘‘ کی صورت میں بغاوت کرائی۔ اسے ختم کرنے کی سعی کی کچھ نہ بگڑا۔۔۔ بعد میں مشرف دور آیا دوبارہ آغوش میں لے لیا گیا۔۔۔ ابھی 2016ء میں ایک اور بغاوت ہوئی اور دست غیب کی جانب سے مصطفی کمال و انیس قائم خانی کی قیادت میں پاک سر زمین پارٹی وجود میں لائی گئی۔۔۔ ماسوائے یکے بعد دیگرے پریس کانفرنسوں اور بیانات جاری کرنے کے نئی تنظیم کوئی بڑا فرق نہیں ڈال سکی۔ فاروق ستار کا کہنا ہے ایم کیو ایم کا مینڈیٹ اپنی جگہ قائم ہے۔ زمینی حقائق اس کی تصدیق کرتے ہیں۔۔۔ پھر پابندی لگا دینے سے کیا حاصل!۔ کیا ہمارے ریاستی اداروں یا کسی سول حکومت نے کبھی اس سوال پر غور کرنے کی زحمت کی ہے کراچی اور صوبہ سندھ کے دوسرے شہری علاقوں میں آباد اردو بولنے والوں کے حقیقی دکھ کیا ہیں۔۔۔ ان پر مرہم رکھنے کی کیا تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔
تازہ ترین اقدام کے طور پر وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے حکومت برطانیہ کو باقاعدہ ریفرنس بھجوایا گیا ہے۔۔۔ 22 اگست کی تقریر کے متن کے ساتھ الطاف حسین کی جانب سے پاکستانی عوام کو تشدد پر اکسانے کے شواہد فراہم کیے گئے ہیں۔۔۔ مطالبہ کیا گیا ہے کہ متحدہ کے بانی نے برطانوی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے بدامنی پھیلائی۔۔۔ قانونی کارروائی سے متعلق حکومت پاکستان کو آگاہ کیا جائے۔۔۔ حضور سرکار عالی مدار آپ نے ریفرنس ارسال کر کے برطانیہ والوں کو کونسی نئی حقیقت سے آگاہ کیا ہے۔۔۔ کیا 2010ء میں لندن کے ایک معلوم و معروف علاقے میں دن دہاڑے ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل برطانوی قوانین کی خلاف وری نہیں تھا۔۔۔ سکاٹ لینڈ یارڈ جیسے شہرت یافتہ ادارے نے اب تک ٹال مٹول کے علاوہ کیا کیا ہے۔۔۔ منی لانڈرنگ کا الزام برطانوی قوانین کی خلاف ورزی کی ذیل میں آتا ہے۔۔۔ تفتیش کا کام مسلسل جاری ہے۔۔۔ مقدمہ قائم نہیں ہوا۔۔۔ 12مئی 2007ء کو کراچی میں جس وحشیانہ طریقے سے خون خرابہ کیا گیا تھا۔۔۔ ساٹھ سے زائد بے گناہ افراد قتل ہوئے۔۔۔ جنرل مشرف کی اشیرباد شامل تھی اور لندن میں بیٹھ کر الطاف حسین نے انگیخت دی ۔ جولائی 2007ء میں میاں نواز شریف کی جانب سے لندن میں بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر عمران خان بڑے پرجوش تھے انگریز کسی طور اور کسی حال میں اپنے قوانین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرتا۔۔۔ ’’میں 12 مئی کے حوالے سے الطاف حسین کے خلاف برطانوی عدالت میں مقدمہ لے کر جاؤں گا اور اس کے نتیجے میں متحدہ کے قائد کو ہتھکڑی لگوا کر پاکستان واپس لاؤں گا‘‘۔ کانفرنس کے دوران کھانے کا وقفہ ہوا تو میں نے علیحدگی میں تحریک انصاف کے چیئرمین سے پوچھا برطانیہ کے عالمی مفادات کے سامنے مقامی قوانین کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ الطاف حسین نے لندن والوں کو ان کے مفادات کی پاسبانی کا یقین دلا رکھا ہے۔ عمل پیرا بھی ہے ۔۔۔ وہ کیونکر اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔۔۔ کرکٹ کے ہیرو نے برملا جواب دیا میں برطانیہ میں رہا ہوں یہاں کے قوانین کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔۔۔ مقدمہ چلے گا تو کارروائی ضرور ہو گی۔۔۔ وہ دن آج کا دن شکایت کی گئی لیکن مقدمہ دائر ہوا نہ کارروائی۔۔۔ اب جو وزارت داخلہ کی جانب سے ریفرنس بھیجا گیا ہے تو وہاں سے فوری ردعمل آیا ہے ہم 22 اگست کی تقریر کا ترجمہ کرا رہے ہیں۔۔۔ جائزہ لے کر بتائیں گے۔۔۔ گویا برطانیہ والوں کو ابھی تک اس کا علم نہیں کہ 22اگست کو اس قدر شورو ہنگامہ کرنے والی ان کی سر زمین سے کی جانے والی تقریر میں کیا کہا گیا۔
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
مگر ذرا ٹھہریے۔۔۔ وہ جو ایم کیو ایم کے اندرونی احوال سے واقف ہیں ان کا کہنا ہے اس تنظیم کے دو متوازی ڈھانچے ہیں ایک سیاسی جوہر ایک کو نظر آتا ہے دوسرا عسکری ونگ جسے عام نظروں سے اوجھل رکھا جاتا ہے۔۔۔ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور فساد کی دیگر تمام تر کارروائیاں عسکری ونگ کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ آپ نے 22اگست کے بعد سیاسی ڈھانچے پر تو تھوڑی بہت ضرب لگوائی ہے۔۔۔ ایم کیو ایم پاکستان کو لندن کی قیادت سے جدا کر دیا ہے۔۔۔ دستور میں بھی ترامیم لائی جا رہی ہیں۔۔۔ لیکن عسکری ونگ جو سارے فساد کا منبع ہے۔۔۔ اسے اکھاڑ پھینکنے کی سعی کی گئی ہے یا نہیں ابھی تک صرف حماد صدیقی کا نام سامنے آیا ہے جس نے بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کو آگ لگوائی اور 259بے گناہ افراد کی ہلاکت کا سبب بنا۔ اس سے قطع نظر عسکری ونگ کو کون چلا رہا ہے۔۔۔ لندن سے کس کو کس ذریعے سے کیا احکام وصول ہوتے ہیں۔۔۔ کون ان پر عمل درآمد کو یقینی بناتا ہے۔۔۔ وحشت و درندگی کا پورا نظام کون چلاتا ہے۔۔۔ خفیہ ٹھکانے کہاں کہاں پائے جاتے ہیں۔۔۔ دور مت جائیے 22 اگست کو ڈنڈا بردار مرد اور عورتیں ’بھائی‘ کے ایک حکم پر حرکت میں آ کر ٹی وی چینلوں پر حملہ آور ہو گئیں۔۔۔ انہیں کس نے کہاں سے بھیجا۔۔۔ غیر قانونی اسلحے کے جو انبار ابھی تک باقی ہیں انہیں کون کنٹرول کرتا ہے۔۔۔ ایم کیو ایم کے سیاسی دفاتر یقیناًتوڑے جا رہے ہیں۔۔۔ الطاف حسین کی قد آدم تصاویر کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔۔۔ دوچار اراکین اسمبلی گرفتار ہوئے ہیں۔۔۔ مگر عسکری ونگ۔۔۔؟ اگر یہ نہیں تو بابا باقی سب کہانیاں ہیں۔