ہوم << اپنے ہی مخالف - طارق محمود چوہدری

اپنے ہی مخالف - طارق محمود چوہدری

tariq-mehmood-ch-300x360 مسئلہ ہمارا یہ ہے کہ ہم اپنی ٹیم کو میدان میں اترنے سے پہلے ہی شکست دینے کی بھرپور تیاری کر لیتے ہیں۔ بات صرف کرکٹ ٹیم کی نہیں۔ وہ کرکٹ ٹیم ہو یا سفارتی میدان میں پاکستان کی بقا کی جنگ لڑنے کیلئے اتری کوئی سفارتی ٹیم۔ اس کے سب سے پہلے مدمقابل ہم خود ہوا کرتے ہیں۔ پھر ہم سادہ لوح مگر زود رنج توقع کرتے ہیں کہ ہم اپنا کیس بین الاقوامی سطح پر جیت کر آئیں گے۔ این ایس جی کا معاملہ ہو یا مسئلہ کشمیر۔ بین الاقوامی طاقتوں کو اپنے موقف سے کائل کر کے، دلیل کی جنگ جیت کے آئیں گے۔ ہم، ہمہ وقت حالت جنگ میں رہنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا بولا، لکھا گیا ہر لفظ بین الاقوامی میٹنگوں میں میزبان کی فائل میں موجود رہتا ہے۔ سو ہمارا مقدمہ دلیل کی جنگ میں بے وزن ہی رہتا ہے۔ ہمارے وفود اسی لئے ناکام لوٹتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ ہمارا مقدمہ بالخصوص کشمیر پر نہایت مضبوط اور ہمارا موقف سچا ہے۔
وزیراعظم پاکستان نوازشریف نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے ایک نیا اقدام کیا۔ 20 سینئر پارلیمانی ارکان کی ایک ٹیم بنائی۔ اس ٹیم کو مختلف ممالک بھی الاٹ کر دیے گئے۔ یہ ممبر الگ الگ اور گروپوں کی شکل میں گلوبل ویلج کے مختلف ممالک کا دورہ کریں گے اور مسئلہ کشمیر کو نئے انداز سے اجاگر کریں گے۔ ایک طرح کی ٹریک ٹو ڈپلومیسی سمجھ لیجئے۔ سفارت کاروں کی حیثیت تو سرکاری ملازم یا نمائندے کی طرح ہی ہوا کرتی ہے۔ سو ان کی رائے، دلائل اور آرگومنٹ کو سرکاری حیثیت میں ہی لیا جاتا ہے۔ جبکہ ٹریک تو ڈپلومیسی میں ایسا نہیں ہوتا۔ معاشرے کے نمایاں افراد، سابق جج، ریٹائرڈ جنرل، دانشور، شاعر، سابق کھلاڑی، معروف آرٹسٹ اور عوام کے منتخب نمائندے۔ سب اپنے ملک کے عوام کا موقف لیکر کسی دارالحکومت میں اترتے ہیں تو ان کی رائے کو بغور سنا جاتا ہے۔ ان کی باتوں کو وزن دیا جاتا ہے۔ سول سوسائٹی ان کی بات سنتی ہے۔ تھنک ٹینکس اور رائے عامہ مرتب کرنے والے ادارے ان کو دعوت دیکر بلاتے ہیں۔ ایسی ایکسرسائز سے، بیرون ملک میں ایک موافق لابی جنم لیتی ہے اور آہستہ آہستہ ایسے افراد اور طبقات جنم لیتے ہیں جو مستقبل میں کام آتے ہیں۔
ہمارے ہاں عام طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ جونہی ہماری جانب سے مسئلہ کشمیر پر کوئی بیان داغا جائے۔ دنیا بھر کے ممالک اور ان کی حکومتیں لشکر لیکر بھارت پر چڑھ دوڑیں اور بھارتی حکمرانوں کے کان پکڑ کر مقبوضہ کشمیر کو ہمارے حوالے کر دیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا، نہ ہوگا۔ اپنا کیس جیتنے کیلئے بین الاقوامی برادری میں اپنے حمایتی پیدا کرنا ہوتے ہیں۔ رائے عامہ کو اپنے حق میں بیدار کرنا ہوتا ہے۔ جمہوری ممالک میں رائے عامہ کی اہمیت بہت زیادہ ان کے حکمران اپنے عوام، اپنے ووٹر کی بات کو توجہ سے سنتے اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ وہ ان کی رائے کو نظرانداز کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ کیونکہ جمہوری حکومتیں، عوام کے ٹیکس سے چلتی ہیں۔ جمہوری ملکوں میں حکومتیں انگلی کے اشارے سے نہیں اٹھتیں۔ بلکہ عوام کے ووٹوں سے وجود میں آتی ہیں۔ وہ دھرنوں کے ذریعے نہیں بنتیں۔ بلکہ الیکشن کے راستے پر چل کر ایوان اقتدار میں داخل ہوتی ہیں کیونکہ وہ عوام کو جواب دہ ہوا کرتی ہیں۔ لہٰذا ایسے اقدامات ہمیشہ سودمند اور بارآور ہوا کرتے ہیں۔ لیکن برا ہو اس تعصب اور سیاست کا۔ اس خواہ مخواہ کی سیاست کا۔ جس میں ہر حال میں مخالفت کی جاتی ہے۔ سو! ادھر وزیراعظم پاکستان نے سینئر ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل اپنی بین الاقوامی ٹیم کا اعلان کیا تو فوری طور پر میدان سیاست کی انڈر نائنٹین ٹیم میدان میں آ گئی۔ یہ بھول کر کہ مسئلہ کشمیر ایسے حساس اور قومی ایشو پر بنائی گئی ٹیم سرکاری نہیں۔ پاکستانی ٹیم ہے اب حکومت نمائندگی نہیں کرتی۔ بلکہ پارلیمان کی ٹیم ہے جو عوام کی نمائندہ نہیں۔ میرے خیال میں تو ٹیم کے ارکان نام پڑھے بغیر اس پر تنقید کر دی گئی۔ حالانکہ اس میں اپوزیشن کی نمائندگی بھی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ تنقید کے کوڑے برساتی زبانوں پر تالا لگانے کیلئے اس میں پی ٹی آئی کو نمائندگی دے تاکہ اس ٹیم کو حب الوطنی اور افادیت کا سرٹیفیکیٹ مل جائے۔
اب اس ٹیم کی کمپوزیشن ہی کو دیکھ لیں۔ کیسے کیسے ایکسپرٹ اس ٹیم میں شامل ہیں۔ ایسے افراد جو کسی دوسرے ملک جائیں گے تو ان کو غور سے سنا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمن نہ صرف چیئرمین کشمیر کمیٹی ہیں بلکہ اعلیٰ سطح کے نامور عالم دین بھی ہیں۔ مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک میں ان کے گہرے روابط ہیں۔ نمایاں بین الاقوامی مسلم تنظیموں تک ان کی رسائی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ان کی رائے کا احترام ہے۔ لیکن ان کی مخالفت کی جاتی ہے تو صرف سیاسی بنیاد پر۔ سیاسی حریف سمجھ کر۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم خان نہ صرف کئی وزرائے اعظم کے ساتھ بطور ملٹری سیکرٹری کام کر چکے ہیں بلکہ سٹیل ملز اور واہ آرڈیننس فیکٹریز کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی سفارت کاری کو بغور دیکھا ہے۔ بڑے اداروں کی سربراہی کے طور پر بین الاقوامی معاہدوں کو ڈیل کیا ہے۔ دفاع اور خارجہ امور کے شعبوں میں انہوں نے تعلقات استوار کئے ہیں۔ ان کا وہ تجربہ یقینی طور پر کام آئے گا۔ رضا حیات ہراج کئی دفعہ وفاقی وزارتوں پر فائز رہے ہیں۔ کامرس اور ٹریڈ کے وزیر کے طور پر ان کی ایک موثر لابی ہے۔ وہ بین الاقوامی طور طریقوں سے واقف ہیں۔ اسی طرح مخدوم خسرو بختیار خارجہ امور کے وزیر مملکت کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ سفارتی ذمہ داریوں نے ان کو بین الاقوامی تھنک ٹینکس کا آشنا بنا دیا ہے۔ اس طرح معروف تاجر رہنما قیصر شیخ ہیں۔ تاجروں کی سیاست اور بین الاقوامی تجارتی تنظیموں سے روابط ان کا خصوصی شعبہ ہے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی یہ محارت مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں کام آئے گی اور پھر مشاہد حسین ہیں جو صحافت سے ایڈیٹری، پھر سیاست۔ وہ ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ عالمی سطح کے دانشور اور لکھاری ہیں۔ سینٹ آف پاکستان کے ممبر ہیں۔ وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے ان کو دعوت دیکر بلاتے اور ان سے رہنمائی لیتے ہیں۔ وہ علاقائی سیاست، سفارت کا معتبر نام ہیں۔ ان کا لکھا ایک ایک لفظ پڑھا سنا جاتا ہے۔ اعجاز الحق سینئر رکن پارلیمنٹ ہیں۔ ان کے والد مرحوم ضیاء الحق گیارہ سال پاکستان کے آرمی چیف اور صدر مملکت رہے۔ کون سا ایسا ملک ہے جہاں ان کی جان پہچان نہ ہو۔ ایک زمانہ ان کے بین الاقوامی کردار کا متعرف ہے۔ سو ایسی ٹیم کی خدمات سے فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ ان کو طنز کے نشتر چھبوئے جا سکیں۔
مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی نئی لہر کو جاری و ساری ہوئے آج 56 واں روز ہے۔ اس عرصہ میں مقبوضہ کشمیر کے عوام 64 ارب کا معاشی خسارہ برداشت کر چکے۔ مقبوضہ وادی میں خوراک، ادویات اور ایندھن کی شدید کمی ہے۔ بچوں کیلئے دودھ ناپید ہے۔ سو سے زائد افراد کو شہید کیا جا چکا۔ سات ہزار مکانات کو منہدم کیا جا چکا۔ ایک ہزار سے زائد افراد نابینا ہو چکے۔ 18 لاکھ سے زائد پیلٹ گن کے چھرے فائر کئے جا چکے۔ اب بھارتی میڈیا رپورٹ کر رہا ہے کہ مرچیں اور سپرے کرنے والی گن کے استعمال پر غور کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی سفارتی کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔ پرائم منسٹر یو این اسمبلی میں دبنگ خطاب کرنے جا رہے ہیں۔ ان کے خطوط کے جواب میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے بھارتی مظالم پر اظہار تشویش کیا ہے۔ او آئی سی تاریخ میں پہلی مرتبہ بآواز بلند بولی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا داخلی معاملہ تسلیم کرنے سے انکار کر چکی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اپنے دفاتر بھارت سے کلوز کر چکی۔ ہیومن رائٹس واچ کا ایشیا چپٹر مودی پر برس رہا ہے۔ بھارتی اپوزیشن علی الاعلان کہہ چکی کہ مقبوضہ کشمیر کے حالات کا ذمہ دار پاکستان نہیں۔ مودی اور بی جے پی ہے۔ ایسی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت پر سفارتی یلغار وقت کا تقاضا ہے۔ کشمیر کا حل قومی اتفاق رائے پر مبنی مسئلہ ہے۔ اس پر سیاست نہ کی جائے۔ سیاست کیلئے اور کئی موضوع ہیں۔ وہاں طبع آزمائی کی جائے۔ اپنی ہی ٹیم کے خلاف کھیلنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

Comments

Click here to post a comment