ہوم << دہشت گردی کی اصل وجہ اور علاج - ارمغان احمد

دہشت گردی کی اصل وجہ اور علاج - ارمغان احمد

muslim militants

ایک سردار ایک ہوٹل میں گیا اور چائے کا آرڈر دیا- بیرا چائے لے آیا تو سردار جی نے چمچ اٹھائی اور پیالی میں ہلانا شروع کر دی- دس منٹ چمچ ہلا کر اس نے چائے چکھی تو پھیکی تھی- اس نے پھر چمچ ہلانا شروع کر دی اور بیس منٹ بعد دوبارہ چکھی تو پھر بھی پھیکی تھی- اس کے بعد سردار جی اپنی کرسی پر کھڑے ہوئے اور اونچی آواز میں سب کو اپنی طرف متوجہ کر کے یہ بولے، "لو جی سجنو تے مترو! اج اک گل ثابت ہو گئی جے، اگر چاہ اچ چینی نہ ہووے تے جنی دیر مرضی چمچ ہلا لو، مٹھی نہیں ہوندی"- اردو میں، "دوستو آج ایک بات ثابت ہو گئی ہے کہ اگر چائے میں چینی نہ ہو تو جتنی دیر مرضی چمچ ہلا لیں میٹھی نہیں ہوتی"-
ہمارے ملک میں ایک سے بڑھ کر ایک فلسفی پڑا ہے، حیرت ہے وہ اتنی سامنے کی بات کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں؟ ہمارے ملک کی چائے میں معاشی اور معاشرتی انصاف کی چینی نہیں ہے- اب ہلا لیں چمچ جتنی دیر مرضی، نہیں ہونی یہ چائے میٹھی- ایک فلسفی اٹھتا ہے تو اسلام کو الزام دیتا ہے، دوسرا اٹھتا ہے تو دو قومی نظریے کے پیچھے پڑ جاتا ہے، تیسرا فوج اور ایجنسیوں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے، چوتھا بھارت اور اسرائیل کو-
جس ملک میں ایک سچی یا جھوٹی خبرآئے کہ پولیس نے باپ اور بیٹے کے رشتے کا تقدس پامال کر دیا اور لوگ یہ سمجھیں کہ ہاں ہماری پولیس سے کچھ بعید نہیں تو اس ملک کے لوگوں کو تھوڑی دیر کے لئے رک کر سوچنا نہیں چاہئے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ کیا پولیس کی یہ شناخت ہونی چاہئے؟ کیا ایک غریب کے بچے کو تعلیم کے اتنے ہی مواقع مل رہے ہیں جتنے امیروں کے بچوں کو؟ کیا سب نوکریاں صرف اور صرف انکی قابلیت کی بنیاد پر مل رہی ہیں؟ کیا ہماری عدالتوں نے سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو ممکن بنا دیا ہے؟ اگر ان سوالوں میں سے کسی کا جواب بھی ہاں میں نہیں ہے تو ہم سب وہ سردار ہیں جو چاہے میں چینی ڈالے بغیر چمچ ہلائے جا رہے ہیں- ہلاتے رہیں، چکھتے رہیں، شائد کوئی معجزہ ہو جائے اور چائے میٹھی ہو جائے-
ان حالات میں آپ کوئی بھی مذہب، کوئی سیکولر ازم، کوئی کمیونزم، کوئی سوشلزم غرضیکہ کوئی بھی ازم چن لیں، امن نہیں ہو گا، چین نہیں ملے گا- معاشرے کی بنیادوں میں آگ لگی ہو تو عمارت تک دھواں ضرور پہنچے گا- فرض کریں آپ کو مشرق میں ایک ہزار میل دور جانا ہے، آپ کے پاس ایک بندہ آ کر کہتا ہے میں آپ کو وہاں لے کر جاؤں گا لیکن اسکا رخ مغرب کی طرف ہے کیا وہ کبھی منزل پر پہنچ پائے گا؟ دوسری طرف ایک اور بندہ آ کر یہی بات کہتا ہے اور اسکا کم سے کم رخ ٹھیک ہے، اس کے پاس تجربہ ہو یا نہیں کیا وہ کبھی نہ کبھی منزل پر پہنچ نہیں جائے گا؟ میں نے پچھلی دو سطروں میں جو کچھ کہا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کیجئے گا-
اسی طرح کسی دوست کا ایک سوال پڑھا فیس بک پر- سوال کچھ یوں تھا، "ڈرون اور دہشت گردی میں کیا تعلق ہے کچھ سمجھ نہیں آتی"- یہ لیں حضور آپ کو سمجهانے کی کوشش کرتے ہیں- فرض کریں آپ ایک شوہر ہیں، گھر سے باہر ہر کسی سے مار کھاتے ہوں، بے عزتی کرواتے ہوں اور آپ کے بیوی بچے یہ سب دیکھتے ہوں لیکن گھر پہنچ کر آپ اپنی بیوی پر رعب جمانے کی کوشش کریں اور عزت کروانے کی کوشش کریں تو آپ کا کیا خیال ہے، وہ آپ کی عزت کرے گی؟ اسی طرح آپ نے طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں یا جنگ، پہلے صرف گھر کے اندر شیر بننا چھوڑیں- طالبان ہماری ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں نا؟ تو کیا ڈرون ہماری حاکمیت اعلیٰ کو سلامی پیش کرنے آتے ہیں؟ یاد رکھئے یہ جنگ جیتنی ہے تو اپنی دو عملی سے چھٹکارہ پانا لازمی ہے- قوم کو اعتماد میں لیں، مخمصے کی کیفیت سے نکالیں، اپنی پالیسی لوگوں کو بتائیں اور سمجھائیں، پھر دیکھیں یہ غیرتمند قوم کیسے ہر گمراہ طبقے سے شیروں کی طرح لڑتی ہے-
میری آپ سب سے گزارش ہے کہ اپنی توجہ کو بنیادی وجہ پر مرکوز رکھیں- جن لوگوں کو جینا ایک سزا لگے، مرنا ایک دوا لگے، ان کے لئے جینے میں کوئی کشش پیدا کیجئے، انصاف کیجئے، غیر سیاسی پولیس یقینی بنائیں، آزاد بلدیاتی ادارے قائم کریں، ایک جیسے مواقع فراہم کریں، جس غریب کے بچے کو مدرسہ جانا پڑتا ہے اس کے لئے وہی تعلیم فراہم کریں جو امیروں کے بچوں کو ملتی ہے- تمام مساجد میں تمام امام اور مولوی حضرات صرف حکومت وقت کو رکھنے چاہیئں- یہ نمونہ ایران، سعودی عرب، ترکی اور بہت سے ممالک میں کامیابی سے چل رہا ہے اس لئے یہ کوئی ایسی نئی اختراع نہیں ہے- ان تمام امام حضرات کو مقابلے کے امتحان کی طرز پر نفسیاتی اور شخصی امتحانات سے گزارنے کے بعد بہت اچھی سہولیات اور تنخواہ دینی چاہیئے- صرف وہ لوگ جو سرکاری طور پر منظور شدہ اداروں سے فارغ التحصیل ہوں انھیں امامت سونپی جائے- حکومت انھیں ہدایات جاری کرے کہ اختلافی امور کی بجایے متفقہ امور پر بات کریں اور ان کی تعلیمات کو مانیٹر کیا جائے-
ہمارا المیہ یہ ہے کہ آرمی آفیسر، پولیس آفیسر، کمشنر، جج وغیرہ بننے کے لئے تو بہت امتحانات ہیں مگر ایک امام یا پرائمری اسکول ٹیچر بننے کے لئے نہیں- وہ لوگ جنہوں نے اس قوم کے روحانی، دینی اور دنیاوی مستقبل کی نگہداشت اور نگرانی کرنی ہے ہمیں ان کی کوئی فکر ہی نہیں کہ کیا وہ اس قابل ہیں بھی کہ نہیں؟ کریں یہ سب، پھر ہم دیکھتے ہیں کیسے ہوتی ہے دہشتگردی!!

Comments

Click here to post a comment

  • غربت اور نا انصافی تو دنیا کہ ہر معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔ کیو ں کہ یہ دینا نا مکمل ہے۔ پاکستا ں مین ہم ریاستی پالیسیوں کو نظر اندز نہیں کر سکتے جہنوں نے دہشت گردی کو جنم دیا۔ اور ان میں سب سے اہم پالیسی تھی سویلین شہریوں کو جہا د کے نام پر مسلح کرنا ۔آپ ہندوستان کی مثال لے لیں وہاں غربت اور نا انصافی کہیں زیادہ ہے۔ کہیں کہیں مسلح جدوجہد بھی ہو رہی ہے لیکن بہتر ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے حالات کنٹرول میں ہیں۔ لیکن پاکستان مییں چند سالوں میں جو دہشت گردی کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئی ہیں ان کی نظیر ملنا مشکل ہے۔